پاکستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والا تیسرا ملک کون ہے؟


ذرائع کے مطابق 27 فروری کو بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف فضائی حملے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں ایک تیسرا ملک بھی شامل تھا جس کا نام فی الحال ظاہر نہیں کیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف کل رات سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے کہ پاکستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنیوالے ممالک میں بھارت اور اسرائیل کے علاوہ تیسرے ملک کا نام کا اشارہ بہت واضح ہے۔

اب سبھی کو کھوج ہے وہ تیسرا ملک کون ہے؟
کچھ کے مطابق افغانستان ہے۔
کچھ ایران کا نام لے رہے ہیں۔
کچھ امریکہ، اور فرانس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں جب بھی کوئی خبر لیک کرتی ہیں تو اِس میں ہمیشہ ایک ابہام رکھا جاتا ہے، یوں سمجھیں کہ آپ نے لومڑی کا شکار کرنا ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ لومڑی کون سے بھٹ میں ہے؟ لیکن آپ اندازوں پر تیر چلا دیتے ہیں، یا جال بچھاتے ہیں۔

یہ خبر بھی کچھ اسی قسم کی تھی، جس میں اگر ہمیں تیسرے ملک کا علم تھا تو اس کا نام نہیں لیا، اگر انٹیلیجنس معلومات غلط ہوئیں تو تعلقات خواہ مخواہ خراب ہوں گے، اور اگر معلومات درست ہیں تو اس تک یہ خبر پہنچ گئی کہ ہمیں اس کا پیشگی علم ہوچکا ہے۔

جبکہ اسرائیل اور انڈیا کا نام اس لئے کھل کر لیا گیا کہ اس سے قبل بھی یہ دونوں ممالک ضیاء الحق دور میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے نام نہ لئے جانے کے باوجود حسبِ معمول تکفیری طبقے نے خود ہی فیصلہ کرتے ہوئے تیسرا ملک ایران کو قرار دیے دیا اور پاکستانی شیعوں کو مطعون کرنا شروع کردیا۔ بغض اور تعصب اس قدر رزیل صفت ہے کہ یہ انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایران کیوں پاکستان پر حملہ کرے گا؟ اس کی سالڈ ریزن ہونی چاہئیں، کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر اس وقت تک حملہ آور نہیں ہوتا جب تک وہ اسے اپنے وجود کے لئے خطرہ محسوس نہ کرے اور بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ پہنچ جائے۔ کیا ایران واقعی پاکستان کو اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے؟ ہمارے آئی ایس پی آر کو تو ایسا نہیں لگتا کیونکہ وہ تو کچھ دن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔

جبکہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی بھی کہہ چکے ہیں کہ ایران کبھی بھی اسلام آباد کے لئے خطرہ نہیں بن سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات اِس وقت سرد مہری کا شکار ہیں اور اس کی وجہ ہماری خارجہ پالیسی کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہونا ہے مگر یہ ایسی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ایران اس بات کی وجہ سے پاکستان پر حملہ کر دے جبکہ اسے یہ بھی پتہ ہو کہ ایک ایٹمی ملک اس کے جواب میں خاموش نہیں رہے گا؟

اس کے علاوہ یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ایران اس وقت مشرق وسطی اور عراق و شام کی پراکسی وار میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی مشرقی سرحدوں پر پاکستان کے ساتھ جنگی ماحول پیدا ہو جبکہ سعودیہ کی حمایت میں خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑا موجود ہے اور اسرائیل آئے روز ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اسرائیل دشمنی اور القدس کی حمایت کا بیانیہ ایرانیوں کی علاقائی سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کے سابقہ صدور اور سپریم لیڈر اسرائیل کے خلاف انتہائی سخت بیان دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔ پس پردہ حقائق کیا ہیں اور اس بیانیہ کا اصل ہدف کیا ہے، اس سے قطع نظر، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایران، فلسطینیوں کی عملی و اخلاقی امداد اور لبنانی حزب اللہ کے ذرئعے اسرائیل کو جواب دینے کی ایک تاریخ ضرور رکھتا ہے۔

اب خطے میں موجود ایرانی پالیسیوں کی حمایت کرنا یا ان سے اختلاف رکھنا ایک الگ موضوع ہے، ایران اسرائیل تعلقات کا تجزیہ کرنا بھی ایک تفصیلی موضوع ہے۔ البتہ ایک بنیادی بات بالکل واضح ہے کہ ایران کسی بھی حالت میں کسی ایسی مہم کا اعلانیہ حصہ نہیں بن سکتا جس سے اس کے اسرائیل مخالف یا صیہونی مخالف بیانیہ کو نقصان پہنچے۔ یہ کامن سینس کی بات ہے کہ ایک ملک جس کی خارجہ و دفاعی پالیسی میں اسرائیل یا صیہونی مخالف بیانیہ کلیدی حیثیت رکھتا ہو، وہ پاکستان کے خلاف کسی ایسے منصوبے میں شامل کیسے ہوسکتا ہے جس میں بھارت کے ساتھ اسرائیل بھی شامل ہو؟ کوئی عقل سے عاری تکفیری شخص ہی ایسا نتیجہ نکال سکتا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے ایران کی دیگر پالیسیز پر تنقید بجا طور پر کی جا سکتی ہے لیکن یہ تنقید ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہونی چاییے، مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں۔ مثال کے لئے عرض ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ شیعہ آبادی والے ملک عراق کے اکثر شیعہ ایرانی پالیسیز پر تنقید کرتے ہیں۔ لہذٰا اگر کوئی تعصب کا مارا تکفیری ایران کو تمام دنیا اور پاکستانی شیعوں کا نمائیندہ قرار دینے پر مصر ہے تو سب سے پہلے سعودی عرب کو تمام سنیوں کا نمائیندہ تسلیم کرنا ہوگا۔ اور جب آپ ایسا کر لیں گے تو میں آپ سے سعودی اسرائیلی تعلقات کے بارے میں وہ تمام سوال پوچھنا شروع کروں گا جن کے جواب آپ نے کبھی نہیں دیے۔ لہذا یہ ملکوں کے تعلقات میں مسلکی منجن کی فروخت کو بند ہونا چاہیے۔

ویسے اگر واقعی کوئی جاننا چاہے کہ تیسرا ملک کون ہوسکتا ہے؟ تو اس سوال کا جواب اتنا مشکل نہیں ہونا چایئے۔ افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج کے انخلاء کے باوجود نیٹو کا Resolute Support Mission وہاں موجود ہے۔ جس کا کام افغان نیشنل آرمی کی لاجسٹک سپورٹ مدد اور رہنمائی ہے۔ جبکہ نیٹو کے انخلاء کے بعد بھی جو ہمیں اکثر ڈرون حملوں کی خبریں ملتی ہیں، وہ اسی مشن کی سربراہی میں انجام دیے جاتے ہیں۔ اس مشن میں 13 ہزار فوجی شامل ہیں جن کا تعلق نیٹو میں شامل مختلف ممبر ممالک سے ہے۔

لہذا بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تیسرا ملک کون ہوسکتا ہے، اس کا جواب دینا اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ جو امریکہ افغانستان میں موجود اپنے ریزولیوٹ مشن کے ذرئعے پاک افغان بارڈر یا پاک ایران بارڈر پر ڈرون حملے کر سکتا ہے، وہ مشن بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان میں کسی مہم جوئی کا منصوبہ بھی بنا سکتا ہے۔

بھارتی طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کی فورا بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا انتہائی سرعت کے ساتھ مداخلت کرنا اور یہ کہنا کہ ”پاکستان اور انڈیا سے اچھی خبریں آرہی ہیں“ کافی کچھ واضح کردیتا ہے کہ یہ تیسرا ملک کون تھا۔ البتہ پاکستان کا تیسرے ملک کا نام نہ لینا بہرحال بہتر طرزِ عمل ہے، کیوں کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بَیر نہیں لیا جاسکتا۔ اور ویسے بھی موجودہ صورتحال اس کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ہم براہ راست امریکہ کا نام لے کر خود کو بیک وقت کئی محاذوں پر الجھا لیں۔

واضح کردوں کہ ایرانی حکومت اور پاکستان میں موجود انقلابی برادران پر تنقید کی وجہ سے راقم اکثر اپنے ہم مسلک دوستوں کی تنقید اور طعنوں کی زد میں رہتا ہے لہذا اس تحریر کے اندر ایران کا دفاع ڈونڈھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).