آؤ امن امن کھیلیں


کہتے ہیں کہ کسی ملک میں لکھے جانے والے ناول، بننے والی فلمیں اور ڈرامے اس ملک کی سوچ اور معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ میں اس میں مزید یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ آج کل ہر ملک کا میڈیا بھی اس ملک اور معاشرے کا عکاس ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی قابل افسوس رہے ہیں۔ دونوں ملک ایک سے ہی دو ہوئے لیکن 70 سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود بغض کو ختم نہ کرسکے۔ دیوار برلن گر گئی لیکن ایل او سی پر کشیدگی نہیں گئی۔

پچھلے کچھ دنوں سے جب سے پاکستان اور بھارت کے بارڈرز پر کشیدگی آئی ہے، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک عجیب قسم کی جنگ جاری ہے۔ دونوں ممالک کے باشندے ایک دوسرے کو جنگ میں چاروں شانے جت کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس زمانے کی ترقی سے جنگ کی اس آگ میں تیل ڈالنے کے لئے ہر ایک کو ”سوشل میڈیا“ فراہم کر دیا ہے۔ یہ جنگ اس وقت سب سے زیادہ سوشل میڈیا کے مجاہدین میں لڑی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے شہری سوشل میڈیا پر لڑی جانے والی اس جنگ میں شامل ہیں۔

جنگ کے لئے جذبات ابھارنا بہت ضروری ہوا کرتا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسے منظر کشی کی جارہی ہے کہ جنگ بہت ضروری ہے اور جنگ کے بغیر گزارا ہی نہیں۔ ایک نیوز چینل پر نیوز اینکرز آرمی کا یونیفارم پہن کر پروگرام کر رہے تھے۔ دوسری طرف ہر لمحہ آپ کو پاکستان اور بھارت کے پاس موجود ہتھیاروں کی تفاصیل بتائی جاتی ہیں۔ دشمن کو ناکوں چنے چبھوانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ ناگزیر ہے اور ٹل نہیں سکتی؟

”دنیا امن کا گہوارا بن جائے“ یہ جملہ ہر روز آپ سنتے اور پڑھتے ہوں گے لیکن جب اس پر عمل کرنے کا سب سے بہترین وقت آیا تو ڈیڑھ ارب کی آبادی اس دنیا کو میدان جنگ بنانے پر تُل گئی ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس جنگ میں مسلمان ہی پِس رہے ہیں۔ دنیا اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اس کو ”دہشت گرد مذہب“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اسلام کو دنیا کے سامنے امن کے مذہب کے طور پر پیش کیا جائے۔ جنگ کی بجائے امن کے جذبات اُبھارے جائیں۔

جنگ جنگ کھیلنے سے کس کا نقصان ہوگا؟ ہم بے شک ایٹمی قوت ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے۔ ہم کسی بھی قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن کیا ہم ان بے قصور لوگوں کی زندگیاں لوٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس جنگ میں مارے جاتے ہیں؟ کیا ہم اس جنگ کے اثرات سے اپنی اس معیشت کو سنبھال پائیں گے جو پہلے ہی سسکیاں لے رہی ہے؟ کیا ان ایٹمی ہتھیاروں کے دور رس بد نتائج سے ہم موجودہ اور آئیندہ نسل کو بچا پائیں گے؟

کیا یہ جنگ صرف ایک کھیل ہے؟ یا وہ ہولی ہے جس کا خمیازہ ہماری نسلیں بھگتیں گی؟ میڈیا پر اس جنگ کو کرکٹ میچ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ تو ”بندر کے ہاتھ میں استرا“ ہے۔ ہر جاہل او ر عقل مند کے پاس یہ ہتھیار ہے کہ وہ جو چاہے بولے۔ غلط یا صحیح کی تمیز کے بغیر اپنا ما فی الضمیر ادا کرے اور لوگوں کو اپنی آواز پہنچائے۔ بلکہ میں تو سوشل میڈیا کے بارے میں یہ کہوں گا کہ ”لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جدید ترین سہولیات ہر کس و ناکس کو حاصل ہیں“۔

لیکن الیکٹرانک میڈیا پر تو پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ خدارا! ریٹنگ کی خاطر ڈیڑھ ارب عوام کو جنگ کے دوزخ میں نہ جھونکیں۔ ہر صحافی کا فرض ہے کہ لوگوں کو اس جنگ کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرے، چینل مالکان کا کام ہے کہ بجائے نفرتوں کے پھیلانے کے امن اور صلح کی پالیسی کو اختیار کریں۔ سکولوں اور کالجوں کے پروفیسرز کا کام ہے کہ وہ طالبعلموں کو جنگ کے نقصات بتائیں۔ ہمارے سامنے جنگ عظیم اول و دوم کی تباہ کاریاں ہیں۔

بلکہ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہمارا اپنا ملک گزشتہ ایک دہائی سے اس جنگ کی آگ میں جل رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے لوگوں سے پوچھیں جو اس جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس جنگ نے ان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے گھربار لٹ گئے ان کے بچے تعلیم سے محروم رہ گئے ایک نسل محرومی میں پل گئی۔ ۔

بے شک تمام قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن بجائے جنگ جنگ کھیلنے کے قوم کا کام ہے کہ امن امن کھیلے۔ اس ملک کا ہر شہری امن کا سفیر بن جائے۔ سوشل میڈیا پر امن کی بات کی جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صلح کے گیت سنائے۔ اگر ہمارا ہمسایہ جنگ کی بات کرتا ہے تو بھی اسے امن اور صلح کے لئے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ کیونکہ جنگ جنگ کھیلنے سے ہم تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس لئے ہم اپنے حصے کا دیپ جلائیں اور امن کا کھیل کھیلیں۔ آئیں امن امن کھیلیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).