پاک بھارت کشیدگی اور صوبائی وزیرِ اطلاعات کا استعفیٰ


خطے میں گزشتہ کئی روز سے جاری رہنے والا جنگ کا خطرہ کسی حد تک ٹل گیا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی تھی۔ صدرِ مملکت عارف علوی کے مطابق جنگ کا خطرہ ابھی باقی ہے اور بھارت اپنے اس جنگی جنون پر خفیہ طور پر عمل پیرا بھی ہے۔ جنگی طوفان کے کسی حد تک تھمنے کے باوجود بھی آبدوزوں کے ذریعے بھارت کی حملے کی کوشش اور لائن آف کنٹرول کو مسلسل گرم رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت کسی بھی وقت ان جھڑپوں کو ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے۔

گزشتہ روز بھارت نے آبدوز کے ذریعے پاکستان کے سمندری زون میں خفیہ طور پر داخل ہونے کی کوشش کی جس کا پاک بحریہ نے بروقت پتہ چلا لیا۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق امن قائم رکھنے کی حکومتی پالیسی کے پیشِ نظر بھارتی آبدوز کو تباہ نہیں کیا، اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے بھارت کو بھی امن کی طرف راغب ہونا چاہیے۔ دوسری طرف پاک فضائیہ کی جانب سے 2 بھارتی طیارے مار گرائے جانے کے بعد لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی فورسز کی ایل او سی پر فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے 2 جوانوں سمیت 4 شہری شہید اور خاتون سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے تھے، جبکہ ایک نوجوان بھی سر میں گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔

بھارت کے اس جنگی جنون کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ بھارت میں اپریل اور مئی کے مہینے میں آندھرا پردیش، اوڈیسہ، سکم اور جموں و کشمیر سمیت سترہ لوک سبھاؤں میں چناؤ ہونے جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اس الیکشن کو ہندو کارڈ کے ذریعے جیتنا چاہتے ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ بھارتی حکومت اور میڈیا کی ملی بھگت کے باوجود جنگی جنون کا یہ ڈرامہ بری طرح سے فلاپ ہو جانے کے باعث بھارتی جنتا پارٹی کے لیے کچھ زیادہ مفید ثابت نہ ہو سکے گا۔

دوسری طرف مودی کا تعلق بھارت کی دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے ہے۔ یہ تنظیم خود کو قوم پرست قرار دیتی ہے۔ اس کا بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے، یہ بھارت کو خالصتاً ہندو ملک گردانتا ہے اور اس تنظیم کا اہم مقصد بھارت سے غیرہندو خواہ وہ مسلمان ہوں، سکھ، عیسائی یا دیگر کو ختم کرنا بھی ہے۔ بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں آر ایس ایس کا نام سرفہرست ہے۔

1927 ء کا ناگپور فساد، 1948 ء میں مہاتما گاندھی کا قتل، 1969 ء میں احمد آباد فساد، 1971 ء کو تلشیری فساد اور 1979 ء میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر 1992 ء میں بابری مسجد کے منہدم کرنے تک اس تنظیم کے اراکین (کارسیوک) پیش پیش رہے۔ آر ایس ایس کے ارکان فوج، سیاست، میڈیا شمول زندگی کے سبھی شعبوں میں کافی تعداد میں موجود ہیں۔

جنگ کا ماحول نہ صرف یہ کہ اس خطے کے دونوں ممالک کے لیے خطرناک بلکہ پوری دُنیا کے لیے بھی دردِ سر بنا ہوا ہے۔ پاکستان کے وقت اس وقت 130 کے لگ بھگ ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں۔ جب کے انڈیا کے پاس ایٹمی وار ہیڈ کی تعداد 120 کے قریب ہے۔ جیسا کہ وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب امریندر سنگھ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت نے حملہ کیا تو پاکستان ایٹم بم گرا دے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر خدانخواستہ جھڑپوں کا یہ سلسلہ زیادہ زور پکڑ گیا تو جو ملک بھی شکست محسوس کرے گا وہ ایٹمی حملہ کر دے گا۔

اگر پاکستان اور بھارت اپنی ایٹمی طاقت کا آدھا حصہ بھی جنگ میں استعمال میں لے آتے ہیں تو امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 21 ملین لوگ فوری طور پر موت کے منہ میں چلے جائیں گے اور اوزون لئیر کا آدھا حصہ مکمل تباہ ہو جائے گا۔ نیو کلیر بارشوں کی وجہ سے دنیا بھر کی زراعت اور مون سون سیزن مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ امریکی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں پوری دنیا دو ہفتوں میں جوہری دھوئیں کی لپیٹ میں آ جائے گی اور 90 فیصد آبادی بھوک سے ختم اور تہذیب فنا ہو جائے گی۔

معاملہ بہت سنگین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر کے ممالک نے فوراً پاک بھارت تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ان کاوشوں میں امریکہ، روس، ایران، ترکی اور عرب ممالک پیش پیش ہیں۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے فون کر کے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کو سراہا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف پاکستان کو اقدامات کرنے پر زور بھی دیا۔ انھوں نے دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے کی تاکید کی۔

اسی طرح امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے بھی کشیدگی اور تناؤ میں کمی کی ضرورت پر زور دیا اور انھوں نے قطر کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان سہولت کاری کی بھی پیش کش کی۔ واشنگٹن ڈی سی اور ڈیلس کی تنظیم ساوتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کوجنوبی ایشیا کے امن کے لیے ایک مثبت قدم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف ایک عارضی قدم ہے اور خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لئے دونوں ممالک کو سنجیدگی سے بات چیت کے دروازے کھولنے ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کی اصل وجہ کشمیر ہے، جسے حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے کروایا جائے اور کشمیریوں کو اُن کی منشا کے مطابق کسی سے بھی الحاق کرنے یا آزاد رہنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے قیام کے فوراً بعد سے چونکہ بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر رکھی ہیں اس بات کو جواز بنا کر پاکستان سے بھی مہمان مجاہدین آزاد ئی کشمیر کے آوازے کو بلند کرتے رہے ہیں۔

لیکن اب کشمیر کی نوجوان نسل اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنے کے لیے تیار ہو گئی ہے کہ آج کشمیریوں کی جمہوری جدوجہد کو اب مہمان جہادیوں کی ضرورت نہیں رہی بلکہ برہان وانی جیسے نوجوانوں نے اس تحریک میں اپنے لہو سے جان ڈال دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت بری طرح بوکھلا گیا ہے اور بدحواسی کے عالم میں اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ 9 / 11 کے بعد دُنیا کے بدلتے ہوئے خدوخال کے پیشِ نظر پاکستان نے ریاست کے مساوی طاقت کا استعمال کرنے والی جہادی و عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف پاپندی لگانے کا فیصلہ کیا۔

اور دہشت گردوں کے خلاف کثیرالجہت حکمت عملی بنائی۔ 2014 میں شروع کیے جانیوالے آپریشن ضرب عضب کوسپورٹ کرنے کے لئے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیاگیا، جس کامقصد پُرتشدد انتہاپسندی، نفرت انگیز تقاریر، نفرت انگیز لٹریچر اور اسلحے کا خاتمہ کرنا تھا، اس کے بعد 22 فروری 2017 کو آپریشن ردالفساد دہشتگردی کے موجودہ خطرے کوختم کرنے، ملکی سطح انسداد دہشت گردی آپریشن، ڈی ویپنائزیشن، اوربارودی مواد پر قابو پانے کے لئے شروع کیا گیا۔

بارڈرمنیجمنٹ اور نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ ردالفساد کا اہم ترین حصہ تھا۔ دہشت گردی کم کرنے کے لئے ان آپریشنز کے مقاصد کافی حد تک حاصل کر لئے گئے ہیں، لیکن جیسا کہ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے تسلیم کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے کچھ حصوں پر فنانشل ایشوز کی وجہ سے اس طرح عمل در آمد نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان نے حالیہ پاک بھارت تناؤ اور ایف اے ٹی ایف کے پیشِ نظر جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر پابندی لگا دی ہے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا ایک بار پھر آغاز کر دیا ہے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرؤف اور بیٹے حماد اظہر سمیت کالعدم تنظیموں کے 44 ارکان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ گرفتار افراد میں سے کچھ کے نام پلوامہ حملے کی تحقیقات کے لیے بھارت کی جانب سے مہیا کردہ ڈوزیئر میں شامل ہیں جبکہ دیگر کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔ حفاظتی تحویل میں لیے گئے افراد کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں، ثبوت ملنے پر مزید کارروائی کی جائے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر 2014 سے عمل جاری ہے، فلاح انسانیت اور جماعت الدعوة پر پابندی کا فیصلہ جنوری میں کرلیا گیا تھا اوراس کابیرونی دباؤسے کوئی تعلق نہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کم ہونا شروع ہوئی ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد میں پاک بھارت سفارتکاروں کی ملاقات ہوئی ہے جس میں طے پایا کہ کرتارپور راہداری پر مذاکرات کے لیے وفود کا تبادلہ ہو گا اور پاکستانی وفد 14 مارچ کو نئی دہلی جائے گا جبکہ بھارتی وفد 28 مارچ کو اسلام آباد آئے گا۔ اس کے علاوہ اس ملاقات میں یہ بھی طے پایا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات پھر سے بحال کیے جائیں گے اور بلائے گئے ہائی کمشنرز واپس بھیجے جائیں گے۔

آخر میں ہندؤں کے خلاف غیراخلاقی زبان استعمال کرنے پر صوبائی وزیرِ اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان سے استعفیٰ لیے جانے کی خبر سراہے جانے کے قابل ہے کہ ایسے فیصلوں سے پاکستان کا مثبت امیج دُنیا میں اُبھرے گا۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi