بامعنی تحریک کو سبوتاژ کرتی عورتیں


تاریخ میں کچھ تحریکیں ایسی بھی ہیں جو بہت بدنصیب ہیں۔ جس جوش ’ولولے اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے پختہ عزائم کے ساتھ انھیں کبھی ماضی میں شروع کیا گیا اُن کے ساتھ انصاف کرنا تو درکنار بلکہ اب ان تحریکوں کی اصلی ہیت ہی مسخ کر دی گئی ہے۔ ان میں ایک تحریک ”یومِ خواتین“ ہے۔ مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی میرا دل کڑھنے لگتا ہے۔ مجھے یقین ہوتا ہے کابل سمیت آس پڑوس کے ممالک میں اس دن کو منانے کے لیے عورتیں جو درزیوں کے چکر کاٹ رہی ہیں وہ کون سا انقلاب لائیں گی۔

ہر سال پہلے سے زیادہ یہ تحریک مسخ ہوتی ہے۔ جب کم علم خواتین بینر اٹھا کر باہر نکلتی ہیں جن پہ لکھا ہوتا ہے ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“ اور وہ ایک جملہ سوشل میڈیا پہ اتنی تیزی سے گردش کرتا ہے کہ ساری سرحدیں عبور کر کے خواتین کے عالمی دن کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ خواتین کا ایک اور طبقہ اس دن کو کچھ ایسے مناتا ہے جیسے شادی کی سالگرہ ’اس دن عورتیں بن ٹھن کے کسی اچھے سے ریستوران میں شوہر یا دوست کے ساتھ کھانا کھا کر آگاہی کی اُن شمعوں کو بجھا آتی ہیں جو کبھی روس کی خواتین نے جلائی تھیں۔(روس کی عورتوں نے؟ مدیر)   سارا دن ہیپی ویمن ڈے کے تہنیتی پیغامات نت نئے ڈیزائن کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اِن باکس بھر جاتا ہے اور اِس دن کی روح خالی ہو جاتی۔ مجھے اس دن Clara Lemlich Shavelson کی یاد آتی ہے جس نے shirtwaist ورکرز کے لیے ایک بہت بڑی ریلی نکالی۔

تب مجھے Theresa Malkiel کا افسردہ چہرہ فریاد کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ” کیا انٹرنیشنل ویمن کانفرنس کی اغراض و مقاصد یہ تھے؟ “ اٹھائیس فروری سن 1909 ء سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے نیویارک میں انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی گئی بعد از آں سن 1910 ء سے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سوشلسٹ تنظیموں اور کمیونسٹ ملکوں میں یہ دن باقاعدہ منایا جانے لگا۔ مجھے بریڈ اینڈ پیس کی تحریک کا شدت سے احساس ہوتا ہے جب روسی خواتین جنگ سے تنگ ہو کر امن کے سڑکوں پہ نکلیں۔ انھیں زار کی شاہی حکومت سے سخت گلے تھے اور کارخانوں میں کم اجرت کا شکوہ بھی۔ دیکھتے دیکھتے وہ تحریک بڑھتی گئی اور احتجاج کرنے والی خواتین میں اضافہ ہونے لگا۔ 1917 ء میں زار کی حکومت کا تختہ پلٹا اور خواتین کو ووٹ کرنے کا حق مل گیا۔ 8 مارچ 1918 ء سے روس میں یومِ خواتین کے حوالے سے چھٹی منائی جاتی ہے۔

1975 ء میں یونائیٹڈ نیشن کی شمولیت کے بعد سے یہ دن عالمی طور پہ بہت سے ممالک میں منایا جانے لگا۔ اس کے بعد بے شمار عورتیں سڑکوں پہ اپنے حقوق کے لیے احتجاجاً نکلیں۔ جن کا مقصد ووٹ کا حق حاصل کرنا اور مردوں کی طرح پوری اجرت کا حصول تھا۔ اِس دن مجھے Clara zethkin جیسی بے شمار خواتین سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے جن کی شاکی روحیں ضرور سوچتی ہوں گی کہ اکیسویں صدی کی عورت کے شعور کی اڑان بس ایک تہنتی بوسے تک محدود ہو چکی ہے۔ جو ایک سرخ گلاب کے عوض عظیم تحریک کو سبوتاژ کر رہی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس تحریک کو جتنا نقصان آج کل کی عورتیں پہنچا رہی ہیں شاید کسی مذہبی یا جمہوری و شاہی حکومت نے پہنچایا ہو۔

585 ء میں مغرب میں یہ حال تھا کہ فرانس میں اہل دانش مردوں کی جماعت نے متفقہ طور پہ فیصلہ دیا کہ عورتوں میں روح نہیں ہوتی۔ ایسے میں روسی خواتین نے بریڈ اینڈ پیس کے نام سے احتجاج شروع کر کے بہت جرات کا مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جب وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہیں تو ان کو اجرت کیوں آدھی دی جاتی ہے۔ یہ دن دراصل ان ورکنگ ویمنز کے لیے تھا جنھوں نے گھر کی چار دیواری پار کر کے اپنے خاندان کو مفلسی اور تنگی سے بچانے کے لیے کارخانوں میں ملازمتیں شروع کئیں۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جو معاشی بحران آیا اس کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑا۔ جب اکثر گھروں کے مرد ہلاک یا اپاہج ہو چکے تھے۔ مجبوراً جب وہ کام کرنے گھروں سے نکلیں تو مردوں نے ان کا استحصال کرتے ہوئے ان کو آدھی اجرت پہ ٹرخانا شروع کر دیا۔ مغرب کی خواتین جس آزادی اور حقوق سے فیض یاب ہو رہی ہیں ان کے پیچھے برسوں کی جدو جہد شامل ہے۔ جبکہ مسلمان معاشروں میں خواتین و حضرات اسلامی حقوق کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کو لاگو کبھی نہیں کیا جاتا۔

پردہ جو دین میں جسم کو ڈھانپنے کی حد تک تھا بڑھتے بڑھتے ایک بوری میں بدل گیا اور خواتین ان میں اغواء شدہ مغویوں کی طرح قید ہو گئیں۔ مسلمان عورت دنیا میں جہاں بھی آج جس آزادی سے لطف اندوز ہو رہی ہے اس میں زیادہ تر کاوش اِن کے دین کی نہیں بلکہ اُنھی مغربی خواتین کی ہیں جنھوں نے انتھک جدوجہد کی۔ میں یا مجھ جیسی عورتیں جب اُن مغربی سوشل ورکرز کو سراہتی ہیں تو کچھ خواتین مذہب کا حوالے دے کر کہتی ہیں ’مسلمان عورتوں کو دین اسلام نے چودہ سو سال پہلے سارے حقوق دے دیے تھے جن کے لیے مغربی خواتین آج تک تگ و دو کر رہی ہیں۔

اب دو انگلیوں سے سورج تو چھپ نہیں سکتا تو میں کیسے قائل ہو جاؤں جبکہ جانتی ہوں کہ اسلامی حقوق جو عورت کو تفویض ہوئے ان میں کتنے حقیقی معنوں میں لاگو ہوئے ہیں اور وہ پابندیاں جو عورت پہ لگی ہیں وہ وقت کے ساتھ کس قدر بڑھ کر نئی صورتحال اختیار کر چکی ہیں۔ مسلم معاشرے میں چاہے وہ ہند ’سندھ کا ہو عرب و فارس یا افریقہ کا وہاں عورت کو حاصل شدہ سبھی حقوق جو مذہب نے عطا کیے وہ ذات پات‘ رسم و رواج ’ثقافت اور اونچی ناک کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

مذہب اسلام کے نام پہ عورت کو کچھ بھی نہیں ملا جس کی وہ حقدار تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان عورت کے سر پہ ہمیشہ سے بیک وقت تین طلاق اور شوہر کی دوسری شادی کا خوف ہی لٹکتا رہتا ہے۔ جہاں عورت کو بنا اجازت بغیر محرم گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت تک نہیں ’جہاں عورت مکمل طور پہ مرد کی محکوم ہے اور سخت پردے کی پابند۔ وہ برقع پہن کر خلاء میں جانے سے رہی۔ ٹھیک یہی صورتحال مغربی خواتین کو بھی لاحق تھی جب وہ تہہ در تہہ لمبے گاؤن پہن کر کارخانوں میں جاتیں اور ان کے لباس مشینوں میں پھنس جاتے۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہے سو انھوں نے چست لباس پہنے شروع کیے۔ جینز کے کپڑے کو پائیداری اور ہر موسم میں قابل استعمال ہونے کی وجہ سے مقبولیت ملی۔ ہمارے مذہبی پیشوا آج تک جینز کا تصفیہ نہ کر سکے آزادی تو بہت دور کی بات ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ مسلمان عورتیں جب کاری ہوتی ہیں ’غیرت کے نام پہ قتل یا پنجائیت کی بھینٹ چڑھتی ہیں تو مختاراں مائی جیسی خواتین کو کوریج دینے وہی مغربی خواتین آتی ہیں۔ سوات کی ملالہ پہ کتاب کرسٹینا لیمب سے لکھوائی جاتی ہے۔ کابل کی سنگسار ہوتی ہوئی فرخندہ کو یہی مغربی خواتین روتی ہیں اور سعودی عرب کی لڑکی کو یہی مغربی خواتین پناہ دلوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔

اِس وقت خاص کر مسلمان عورتوں کو آج بھی کم اجرت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اعلیٰ عہدوں پہ ترقیاں عورتوں کی نسبت مردوں کی زیادہ ہیں۔ ورکنگ خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہے۔ خواتین کی خواندگی کی شرح مردوں کی نسبت آج بھی کم ہے۔

یومِ خواتین خاص ایجنڈے کو اجاگر کر کے عورت کو برابری کی سطح کے حقوق دلوانے کا نام ہے جن میں خاص طور پہ ورکنگ عورتیں آتی ہیں جو چاہے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتی ہیں ’دفاتر میں یا گھر گھر جا کر محنت مزدوری کرتی ہیں مگر اِس دن کی اہمیت ایک سرخ گلاب ختم کر دیتا ہے جو ویمن ہڈ کو وِش کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس سال بھی روس اور امریکہ سمیت سبھی ممالک میں کم و بیش یہی صورتحال ہوگی۔ ویمن ہڈ کو سراہا جائے گا اور عورت کے حقوق ہمیشہ کی طرح دب جائیں گے۔

روس اور امریکہ سمیت تقریباً ہر ملک میں یومِ خواتین اب موسٹ رومینٹک ڈے کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ روس میں تو اسے بہار اور پھولوں کا دن بھی کہا جاتا ہے۔ گلِ لالہ ’گلاب‘ مموسہ اور کیمومائلز کے گلدستوں اور تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ہر عمر کی عورت کو خراجِ تحسین پیش کیاجاتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوگا۔ مغربی خواتین کافی حد تک اپنے حقوق کی جنگ جیت چکی ہیں۔ مگر خاص کر مشرقی مسلمان خواتین استحصال کی جس چکی میں پس رہی ہیں ان کو بے شمار مسائل کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنے حق میں آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

افغانستان سمیت عراق ’سوریا‘ یمن میں امن و امان کے حالات بہتر نہیں جو مسلم ممالک حالتِ جنگ میں نہیں ان کے سروں پہ بھی جنگ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کہیں اندرون ملک خلفشار ہے تو کہیں کسی قوم کو جینوسائیڈ کے مسائل درپیش ہیں۔ پشتون قوم کی ماؤں نے پچھلی کئی دہائیوں سے بہت دکھ دیکھے۔ کشمیر ’روہنگیا الگ امن اور افلاس کا شکار ہیں بریڈ اینڈ پیس جیسی تحریکوں کی ضرورت مند مسلمان خواتین کو ضرور آواز اٹھانے سے پہلے سوچنا چاہیے ان کا مدعا معاشی استحکام ہو اور امن ایجنڈے کو وہ سامنے لائیں۔ مگر نجانے کیوں مجھے لگتا ہے اس سال بھی کچھ خواتین بے تکے بینرز اٹھا کر میڈیا کی توجہ حاصل کریں گی اور پھر سارا سال آنے والے اگلے 8 مارچ تک حقوق کے نام پہ مرد معاشرے سے وہی چخ پخ‘ چخ پخ ہوتی رہے گی۔

(محترمہ ثروت نجیب کی یہ تحریر لفظوں کے انتخاب، دلائل اور لہجے میں حد درجہ متنازع ہے۔ کہنے دیجئے کہ مجھے یہ تحریر ایک کم علم کمیونسٹ اور ایک بند ذہن مولوی ذہن کا ملغوبہ معلوم ہوئی۔ “ہم سب” آزادی اظہار میں یقین رکھتا ہے۔ ایک بھی لفظ تبدیل کئے بغیر اس یقین سے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے کہ ایک دن محترمہ ثروت نجیب زیادہ مطالعے اور بہتر مشاہدے کے بعد اپنے تاثرات کو خود ہی زیادہ متوازن رنگ دے سکیں گے۔محترمہ ثروت نجیب کی یہ تحریر لفظوں کے انتخاب، دلائل اور لہجے میں حد درجہ متنازع ہے۔ کہنے دیجئے کہ مجھے یہ تحریر ایک کم علم کمیونسٹ اور ایک بند ذہن مولوی ذہن کا ملغوبہ معلوم ہوئی۔ “ہم سب” آزادی اظہار میں یقین رکھتا ہے۔ ایک بھی لفظ تبدیل کئے بغیر اس یقین سے یہ تحریر شائع کی جا رہی ہے کہ ایک دن محترمہ ثروت نجیب زیادہ مطالعے اور بہتر مشاہدے کے بعد اپنے تاثرات کو خود ہی زیادہ متوازن رنگ دے سکیں گے۔ و مسعود)

ثروت نجیب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ثروت نجیب

ثروت نجیب کا تعلق کابل، افغانستان سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے گرافک ڈیزائنر اور جرنلسٹ ہیں۔ کابل ٹائمز اور یوریشیا کے لیے لکھتی ہیں۔ سارک ادبی شعبہ اور بین الاقوامی اماروتی پوئیٹک پریزم کی ممبر ہیں۔ معاشرتی، سیاسی، ملکی اور عالمی مسائل ان کے خاص موضوعات ہوتے ہیں۔ مادری زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو ادب سے شغف رکھتی ہیں اور اردو میں نظم، افسانے، مضامین اور کالم بھی لکھتی ہیں۔

sarwat-najeeb has 6 posts and counting.See all posts by sarwat-najeeb