سرکاری کھیت کی انتہا پسندی پر امریکی سنڈی کا چھڑکاؤ


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبر دی ہے کہ بھارت کے ساتھ تصادم کا خطرہ کم ہؤا ہے۔ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے جنگ کا اندیشہ کم ہوسکا ہے۔ پاکستان نے صورت حال میں بہتری کو مزید تقویت دینے کے لئے اپنے سفیر کو نئی دہلی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی بتایا ہے کہ کرتار پور راہداری کے بارے میں بات چیت کے لئے پاکستانی وفد بھی نئی دہلی جائے گا۔

انتہائی سنگین ماحول میں یہ ایک مثبت اور خوشگوار خبر ہے۔ خاص طور سے اگر بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت حال میں بہتری کو پاکستان سے آنے والی ان خبروں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے متعدد مدارس اور مساجد کو سرکاری کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ایسا ہی اقدام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز وفاقی وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی نے بتایا تھا کہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 44 افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔

ان میں حماد اظہر اور مفتی عبدالرؤف بھی شامل ہیں جو بالترتیب جیش محمد نامی تنظیم کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے اور بھائی ہیں۔ خبروں کے مطابق ان دونوں کے نام ان دستاویزات میں بھی شامل تھے جو بھارت نے پلوامہ حملہ میں ملوث لوگوں کے بارے میں پاکستان کے حوالے کی تھی۔ اسلام آباد نے ابھی بھارت کے ان ’دستاویزی شواہد‘ کا جواب نہیں دیا۔ وزیر اعظم عمران خان قوم کے نام اپنے خطاب میں یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ بھارت ’قابل عمل شواہد‘ فراہم کرے تو پاکستان تحقیقات کرے گا اور اگر مشکوک عناصر پاکستان میں موجود ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے کا کریڈٹ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کو دیتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کی دلچسپی اور مداخلت کے بنا یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔ البتہ وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی بھارت کے کہنے یا عالمی طاقتوں کے دباؤ پر کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے قومی ایکشن پلان کے تحت از خود یہ اقداماتکیے ہیں کیوں کہ وزیر اعظم واضح کرچکے ہیں کہ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

کسی کے پاس شہریار آفریدی کے بیان پر شبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے تاہم ان سے یہ تو ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ ملک میں مقدس گائے کا درجہ رکھنے والی انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کا سہرا کس کے سر باندھا جائے۔ سہرے میں ایک خرابی یا خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ جس کے سر یہ بندھا ہو، اس کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر وقتی جوش میں یہ سہرا عمران خان کے سر باند ہ دیا گیا تو ایسا نہ ہو کہ سہرا سرکنے پر کوئی دوسرا چہرہ سامنے آجائے۔

پاکستان نے دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کے بعد اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے انتہا پسندوں کے خلاف متعدد مؤثر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی سلسلہ میں بیس نکاتی قومی ایکشن پلان بھی وضع ہؤا تھا۔ گزشتہ چار برس کے دوران ہر حکومت تواتر سے اس منصوبہ پر عمل درآمد یقینی بنانے کا اعلان کرتی رہی ہے۔ لیکن اسی دوران ڈان لیکس نامی اسکینڈل بھی سامنے آیا جس کی بنیاد انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ تھی۔ اس رپورٹ میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے وا لے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی روداد بتائی گئی تھی کہ کس طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ سے گلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت جب بھی کسی کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو بعض ادارے انہیں رہا کروا لیتے ہیں۔

اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر فوج نے نواز شریف حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کیں اور یہ خبر فاش کرنے کے جرم میں دیگر لوگوں کے علاوہ اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ پانامہ پیپرز اسکینڈل میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں معزول ہونے کے بعد نواز شریف نے ڈان کے اسی رپورٹر سیریل المیڈا کو ایک انٹرویو میں جب انتہا پسند عناصر کی سرپرستی کے حوالے سے گفتگو کی اور کہا کہ اس بارے میں پاکستان کو اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے تو اس کے نتیجے میں نواز شریف کے علاوہ رپورٹر کے خلاف بھی لاہور ہائی کورٹ میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہؤا جو ابھی تک جاری ہے۔ ڈان گروپ کو اس معاملہ پر معذرت نہ کرنے اور خبر کی صداقت پر قائم رہنے کی پاداش میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت اب انہی عناصر کے خلاف ’سخت‘ اقدامات کررہی ہے جن کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا اور بات کرنا بھی کل تک معیوب تھا۔ حافظ سعید کو امریکہ سمیت پوری دنیا ایک دہائی قبل دہشت گرد مان چکی ہے لیکن پاکستانی حکومت نے پلوامہ سانحہ کے بعد جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد سے انتہا پسند عناصر کے خلاف اقدامات کی خبریں تسلسل سے سامنے آتی رہی ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali