کالعدم تنظیموں کا گورکھ دھندا: تماشا ابھی باقی ہے


پاک بھارت بیزار کن تماشا، ایک بار پھر بغیر کسی نتیجے کے ڈھل چکا۔ یقیناً پاکستان اس سے فاتح بن کر نکلا ہے، یہ میں نہیں دنیا بھر کا میڈیا کہہ رہا ہے اور ایسا وہ ہماری محبت میں نہیں کہتا۔ اس حالیہ بحرانی کیفیت میں بھارتی میڈیا کے کردار نے ہماری بہت مدد کی۔ جس کے جواب میں یہاں لوگ اپنے مسائل بھول کر ملک کے ساتھ کھڑے ہو گئے جس کا حتمی مگر وقتی فائیدہ عمران خان کو ہونا ہی تھا، جو ہوا۔ دوسرے الفاظ میں اس وقت جس کی بھی حکومت ہوتی، قوم نے اس کے ساتھ ہی کھڑے ہونا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ اس طرح کے بحران کے ٹلنے کا فائدہ چند دن ہی ہوتا ہے۔ سامنے پھر بھیانک حقیقتیں کھڑی ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی ایک مرتبہ پھر سے جن کارروائیوں کا عزم دکھایا جا رہا ہے اس کو بس ایک کارروائی ہی سمجھیں یعنی یہ کارروائی ڈالنے والی بات ہے، کرنے والی نہیں۔ امریکہ آج بھی سپر پاور ہے مگر آج اس کی طاقت گزشتہ انیس سال کے مقابلے میں کم ہے۔ یعنی نیویارک حملوں کے بعد امریکہ کو دنیا بھر کی غیر معمولی حمایت حاصل تھی۔ تمام ملک بڑھ چڑھ کے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھا رہے تھے۔ اس وقت بھارت نے افغانستان اور ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف حملوں کے لئے اپنے ہوائی اڈے کھولنےکی پیشکش کر دی تھی۔ پاکستان میں طاقتور آرمی چیف نے براہ راست حکومت سنبھال رکھی تھی یوں تمام اختیارات کا مالک تھا۔ پوری دنیا زخمی چیتے سے خوف زدہ تھی۔

مجھے یاد ہے نومبر 2001 کی بات ہے۔ لندن میں گزری ایک شام میں اعتزاز احسن نے ان دنوں کا حال یوں بیان کیا تھا کہ “کیلینڈر کیا بتاتا ہے، بھول جائیں۔ تاریخ اب نائین الیون سے قبل اور اس کے بعد کے حصوں میں تقسیم ہو چکی، امریکہ نہ تو خود پہلے والا بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ دنیا کو ویسا رہنے دے گا جس طرح کی وہ نائین الیون سے قبل تھی”. ان حالات میں پاکستان نے جنگجو گروپوں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ امریکی سے کتنا اسلحہ اور ڈالر آئے، اس کا حساب ہی کوئی نہیں، جو لوگ ہم نے پکڑ کے بیچے، اس کا بھی کچھ پتہ نہیں، لیکن عین جنگ کے دوران جو لوگ امریکہ سے لڑ رہے تھے انہیں پاکستان میں علاج کی سہولت میسر تھی۔

ایک طرف بلوچستان میں ڈرون حملوں میں سہولت کے لئے شمسی ائیر بیس امریکہ کے حوالے کر ان کا اعتماد حاصل کیا جاتا تھا، دوسری طرف اسی بلوچستان میں طالبان کی مجلس شوریٰ کام بھی کرتی رہی۔ یہ کیفیت عراق پر جارج بش کے ناجائز حملے کی تیاری کے دوران تبدیل ہونا شروع ہوئی، باقی تاریخ ہے۔ پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کے تحفظ یا اس غیر سرکاری پالیسی کے حوالے جو دباؤ ممکن تھا، وہ امریکی گزشتہ انیس سالوں سے ڈال کر تھک چکے، اختیارات کے حوالے سے کون سی وہ سطح ہے جہاں سے پاکستان پر دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ کون سا وہ عہدیدار بچ گیا ہے جس نے پاکستان کی اس غیر سرکاری پالیسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔

موجودہ صدر ٹرمپ کے پاگل ہونے کی دلیل دینا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ اس جیسے شخص نے دنیا بھر کے سامنے پاکستان کو سنگین نتائج کے دھمکیاں دیں، کچھ حاصل نہ کر سکا۔ کارگل کا بحران موجودہ حالیہ بحران سے کہیں گہرا تھا، اس بحران کو حل کرنے کے لئے بکرا نواز شریف بنا اور جیسے ہی معاملات بہتری کی جانب آئے، بکرا قربان ہو گیا۔ عمران خان کو اپنی حالیہ تعریفوں اور نعروں سے ڈرنا چائیے کہ یہ بحران ان کی لیڈرشپ کی وجہ سے ٹل گیا ہے۔ ان کی عظمت کے گن جو بھارت سمیت دنیا بھر میں گائے جا رہے ہیں ان کے گلے کا پھندہ نہ بن جائیں۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی معمولی سا ردوبدل بھی عسکری قیادت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں کجا یہ کہ جنگی صورتحال میں سویلین لیڈر اپنی مرضی چلا سکے، موجودہ پاکستان میں جو اپنی ایک مکمل تاریخ رکھتا ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ انہیں چاہئیے کہ ساری تعریفیں خود نہ سمیٹیں۔ دنیا اور قوم کے سامنے عسکری قیادت کی کوششوں کا اعتراف کر کے نوکری بچائیں۔ اب ان کا واسطہ صرف ان کے پارٹی کارکنوں سے نہیں، حقیقت میں انتہائی طاقتور حلقوں سے ہے۔ ہر کوئی علیم خان، ہارون رشید یا ماضی کا حفیظ اللہ نیازی نہیں ہوتا جس کو جب وہ چاہیں اٹھا کر پھینک دیں اور تحریک کی تمام کامیابیاں صرف اور صرف اپنی ذات کی مرہون منت بنا ڈالیں۔ یہاں ایسی مہم جوئی کا مطلب کیا ہوتا ہے، نواز شریف سے پوچھ لیں۔ عمران خان کا یہ ٹویٹ کہ وہ خود کو نوبل پرائز کے قابل نہیں سمجھتے اور یہ اس کو ملنا چائیے جو مسئلہ کشمیر حل کرے گا، عقل مندی کی بات تھی۔

گزشتہ بیس سال میں جن گروپس کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، کیا اب اس لئے ہو گی کہ بھارت چاہتا ہے۔ کیا اس لئے ہوگی کہ چین کا دباؤ ہے یا اس لئے ہوگی کہ امریکہ کہہ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ پہلے یہی ممالک کیا کہہ رہے تھے۔ کیا مالی مسائل یا فاٹف کی ریٹنگ پاکستان کو مجبور کر دے گی کہ وہ ان گروپس کے خلاف کارروائی کرے، اس کا جواب سامنے دیوار پر لکھا ہے کہ ” نہیں”. تو پھر کیا ہوگا، وہی جو پہلے ہوا تھا۔ اعلان کئے گئے، دو چار جھڑپیں ادھر، دو چار ادھر اور بس۔ وقت نکلنے کا انتظار ہو گا۔ صورتحال نارمل ہو جانے کا انتظار پھر وہی ٹھاہ والی پالیسی۔

میں یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ پاکستان کی سیکورٹی سروسز نے اس جنگ میں بے مثال کارروائیاں کیں اور شہادتیں بھی حاصل کیں ہیں مگر ان گروپوں کے خلاف جو پاکستان کے خلاف براہ راست حملے کر رہے تھے۔ لیکن بس ان ہی کے خلاف۔ جو گروپس بھارت یا امریکہ کے خلاف حملے کرتے تھے وہ محفوظ رہے۔ کل کی بات لگتی ہے لندن میں حملے ہوئے اور پرویز مشرف نے بیوروکریسی کا اعلیٰ ترین اجلاس بلا کر انہیں ہر طرح کے جنگجو گروپس کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، یہ بھی کہا کہ جن تنظیموں نے نام بدل لئے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ پرویز مشرف نے خیال رکھا کہ وہ یہ احکامات انگریزی زبان میں دیں تاکہ مغرب سن لے، اور افسر اپنی ہنسی چھپاتے واپس چلے گئے۔

تو آج ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ان گروپس کے خلاف حقیقت میں کارروائی ہو جائے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنگجو گروپوں کے جو نقصان ٹی وی پر یا اخباروں میں لکھے جاتے، بولے اور سنائے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق دنیا سے ہے اور ان گروپس کے لئے لڑنے والوں یا ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا معاملہ آخرت سے ہے۔ وہ دنیاوی نقصان کو خاطر میں کیا لائیں گے۔ دوسری طرف افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا مرحلہ ہے۔ درست یا غلط کی بحث کو اٹھا رکھیں تو ہمارے ملک اور افغانستان کے وسیع حلقوں میں سوویت یونین کو توڑنے کی واحد وجہ جنگجو گروپس اور پاکستانی مدد کو سمجھا جاتا یے۔ اب امریکہ واپسی کی تیاری کر رہا ہے، طالبان سمیت خطے میں پائے جانے بھانت بھانت کے جنگجو گروپس اس وقت اعتماد اور یقین کی بلندی پر کھڑے ہیں۔ اپنی دانست میں انہوں نے دو سپر پاورز کو میدان جنگ سے بھگایا ہے۔ ہمیں وہ کیا سمجھیں گے؟

سب کو نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں طاقت کا خلا پیدا ہونے جا رہا ہے، اس خلا میں بھارت بھی گھسے گا، ایران بھی، روس بھی، چین اپنی جگہ بنائے گا اور امریکہ بھی کچھ رکھنا چاہے گا۔ یہ ہیں وہ حالات جن کا زمین پر آپ کو سامنا ہو اور آپ سوچ رہے ہیں کہ جنگجو گروپوں کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی۔ درست یا غلط، جنگجو گروپوں کی وہی پالیسی جس نے ایک طرف افغانستان میں امریکی فوج کو ٹکنے نہیں دیا، دوسری جانب بھارت کو ہر چار یا پانچ سال میں ایک بار ذلیل کر چھوڑتی ہے، اسے بدلنے کی کوئی ٹھوس وجہ خاص طور پہ اس وقت، مجھے نظر نہیں آتی۔

رہی یہ دلیل کہ اس وقت پاکستان کے لئے ابھی یا کبھی نہیں کا وقت آن پہنچا وغیرہ، تو یہ سب ہم پہلے بھی دیکھ چکے۔ اب بھی دیکھ لیں گے۔ یہاں سویلین حکومت کا لانا یا آنا اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ مستقل حکمرانوں کی وہ پالیسی جسے وہ خود نہیں بیچ پاتے، سویلین حکومت بیچے۔ دوسرے الفاظ میں انہیں وکیل کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی مستقل پالیسی کے مقدمے کو جیتے، اگر نہ جیت پائے یا مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے تو پھر وکیل بدل لیا جاتا ہے، پالیسی نہیں۔

اب ایسا کیا ہو کہ پاکستان کے اصل حکمران مجموعی طور پر طے کر لیں۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ مجموعی طور پر طے کر لیں کہ اب پاکستان کی سر زمین پر کسی طرح کی جنگجو برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہو بھی جائے۔ امکانات کی دنیا میں پہلا قدم مسلہ کشمیر کا حتمی حل ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی حل ایسا نہیں جو تمام فریقین کو قبول ہو سکے۔ ظاہر ہے ہر کسی کو کچھ چھوڑنا ہوگا لیکن جس طرح بھی یہ مسلہ حل ہو،ایک بار حل کے بعد طے ہوگا کہ اب ہندوستان کے ساتھ تعلقات کس سطح پر ہوں گے۔ جب سرحد کے دونوں جانب مجموعی طور پر خیر سگالی ہو گی۔ دونوں جانب کے عوام سرحد کے آر پار جاتے آتے رہنے سے بھی کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا، جس کی مثال افغانستان ہے مگر اس سے ابتدا ہو سکتی ہے۔

امکان ہو سکتا ہے کہ مسلہ کشمیر کے بعد تعلقات دوستی میں بدل جائیں، پھر بھی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتے دو نسلیں لگیں گی۔ دوسری طرف افغانستان ایک مستقل سر درد ہے اور تب تک رہے گا جب تک وہاں کوئی بھی گروہ مستقل امن اور کنٹرول قائم نہیں کر پاتا۔ پاکستانی فوج کیا کرے، یا تو وردی پہن کر داخل ہوں اور باقاعدہ کردار ادا کرے، ایسا سوچنا بھی پاگل پن ہے تو پھر کیا کرے، وہی جو ہوتا رہا۔ لہذا پاکستان میں موجود جنگجو گروپس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ابھی ممکن نہیں۔

رہے دو چار نام مثلآ حافظ سعید یا مسعود اظہر وغیرہ، یہ اپنی اننگز جیسی بھی تھی کھیل چکے اب یہ ریٹائرڈ اثاثے ہیں۔ آج کی لڑائی لڑنے والوں میں یہ خود اجنبی ہیں۔ ان کو پکڑنا چھوڑنا علامتی سی بات ہے۔ ریاست عام طور پر بے رحم ہوتی ہے اور اپنے راستوں کی رکاوٹ کو ہٹا دیتی ہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ڈاکٹر قدیر کسی پرسرار بیماری کے ہاتھوں کب کے خدا کو پیارے ہو چکے ہوتے مگر ان کا زندہ رہنا اس کا ثبوت ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے اثاثوں کی حفاظت کرتی ہے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ پھر وہی بات کہ دنیاوی جھگڑوں میں جب ایمان کی آمیزش ہو جائے تو پھر اس کا حل دنیاوی نقصان یا فائدوں میں نہیں رہتا، اور مائینڈ سیٹ کو بدلنا سال دو سال کا کھیل نہیں، نہ ہی یہ سرکاری حکم سے بدلا جاتا ہے۔

باراک اوبامہ نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں دنیا کے مختلف خطوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے، پاکستان اور افغانستان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ خطہ دہائیوں تک بے یقینی اور فساد کا شکار رہے گا۔ امریکی صدر کو دنیا کے بہترین اداروں کے قابل ترین افراد کی بریفننگ کی سہولت موجود ہوتی ہے، اور اوبامہ دو مرتبہ امریکہ کے صدر بننے کے آٹھ سال کا عرصہ حکمرانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ میں اس میں اضافہ ہی کروں گا کہ نہ ہم چین سے بیٹھیں گے نہ بھارت کو بیٹھنے دیں گے۔ شکر کریں کہ ایٹم بم مل چکا ورنہ جو ہمارا ریکارڈ ہے، دنیا کب کی ہمیں بھون کر کھا چکی ہوتی، ایٹم بم کی چھتری کب تک ہمیں بچائے گی، اس سوال کا جواب دنیا میں کسی پاس نہیں۔

آخر میں یہ کہ سوویت یونین کے ایٹم بم اور اس کے ٹوٹنے کی مثال پاکستان پر ہرگز ہرگز صادق نہیں آتی۔ سوویت یونین کا نظریہ یا کیمونزم کا تعلق صرف اور صرف دنیا کے معاملات سے تھا مذہب پر تو تقریباً پابندی ہی تھی۔ یہاں تو جذبہ جنون ہے یا پھر جذبہ شہادت۔ اب امکانات کی دنیا سے واپس حقیقت کی دنیا میں آئیں تو مالی پابندیاں جتنی زیادہ لگتی چلیں جائیں گی یا دنیا اپنے نظام سے ہمیں جتنا زیادہ الگ کرے گی، ہم اتنا ہی چین کے دائرہ اثر میں داخل ہوتے چلے جائیں گے اور یہی مغربی حکومتوں کی وہ تشویش ہے جو مغربی میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتی بھی ہے۔

چین سے اگر مستقبل میں مغرب کو لڑنا ہے تو وہ ہم سے لاتعلق کبھی نہیں رہنا چاہیں گے۔ دوسری طرف ہندوستان کو اسلحہ بیچنے کے لئے ہم سے بہتر وجہ مغرب کو اور کیا چاہئے۔ نیویارک ٹائمز نے حالیہ بحران کے بعد ہندوستانی فوج کی بے عزتی کی وجہ متروک اور قدیم اسلحہ کو ٹھہرایا ہے، ہم مانیں یا نا مانیں، ہندوستان میں ایف سولہ کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ نریندر مودی، فرانس کے لڑاکا طیارے نہ ہونے کا افسوس کر چکے ہیں۔ در اصل یہ ان کا الیکشن جیتنے کی صورت میں فرانسیسی طیارے خریدنے کی یقین دھانی تھی۔ وہ جیتیں نہ جیتیں اگلی بھارتی حکومت کے پاس امریکہ اور یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بھاری آرڈر دے کر بھارتی فوج کو “جدید ” بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

یہ ساری رونقیں جنگجو گروپس کی بدولت ہیں۔نریندر مودی نے حال ہی میں راجھستان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے انتخابات کے بعد ان سے فون پر گفتگو کے دوران کہا تھا کہ “میں پٹھان کا بچہ ہوں میں آپ کو دہشت گردوں کے کیمپ ختم کر کے دکھاؤں گا، اب یہ عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ اپنی بات نبھاتے ہیں یا نہیں، اگر دم ہے تو کر کے دکھائیں”. مودی کو خبر نہیں کہ عمران خان اس وقت ابھی آئے ہی تھے۔ اور اگر وہ واقعی ایسا کرنے کی جانب چل پڑے تو خود چلے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).