کھیل، لڑکیاں اور میڈیا


اماں ہالینڈ جارہی ہیں۔ تو وہاں جاکر سائیکل چلائیے گا۔ میرا گیارہ سالہ بیٹا بولا تھا، میرے لال مجھے سائیکل چلانی نہیں آتی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ اور بابا نے تو مجھے سکھائی ہے۔ بیٹا ایسا ہی ہے میں نے جواب دیا۔ مجھے تو کہا جاتا تھا لڑکیاں سائیکل نہیں چلاتیں۔ کرکٹ نہیں دیکھتیں۔ کیوں؟ کیوں کا جواب تم کو پھر کبھی دوں گی؟

آج جب میں نے یوم خواتین کی مناسبت سے آئے ہوئے تقریبات کے دعوت نامے دیکھے تو ان میں ایک خاتون کھلاڑی کا نام بھی بطورمہمان شامل تھا۔ مجھے اپنے بیٹے کا سوال یاد آگیا۔ اس کے کیوں کا جواب ہے ہمارا معاشرہ اور لڑکیوں کے کھیلوں کے بارے میں ان کے روِیے۔ یہ دونوں مثالیں میری زندگی کی ہیں۔ دونوں کردار موجود ہیں۔ میرے پاپا جن کے خیال میں لڑکیاں کرکٹ دیکھ کر وقت ضائع کرتی ہیں کیونکہ میدان میں نہ کھیلنے کہ وجہ سے ان کو پوری طرح کھیل کے قواعد سمجھ نہیں آئے اور دیکھیں بھی کیوں؟ کہ یہ مردوں کا کھیل ہے؟ تو لڑکیاں کیوں نہ کھیلیں؟ سوال آج بھی وہیں موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی نسل یہ سوال پوچھ رہی ہے، میں رو کے چپ ہوگئی تھی۔ اس میں ایک اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ میرا بیٹا یہ کہہ رہا ہے لڑکیوں کے سائیکل چلانے اور کھیلنے میں کیا ہرج ہے؟

مجھے اس دعوت نامے میں موجود کھلاڑی سے اپنی ایک تحقیق کے سلسلے میں ہونے والی ملاقات یاد آگئی۔ یہ تحقیق پاکستان کے ستر سالوں میں میڈیا میں خواتین کھلاڑیوں کو دی جانے والی کوریج اوران کی جانب میڈیا کے رویے کا جائزہ لینے کے لیے کی گئی تھی۔ اس میں پاکستان کے انگریزی اور اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ الیکڑانک میڈیا کے رویوں کی جانچ بھی شامل تھی۔

کھیل اور اس کی خبریں اخبار کے آخری صفحے یا بلیٹن کے آخر میں آتی ہیں لیکن یہ کسی الگ دنیا کی خبریں نہیں ہوتیں، ان کا تعلق ہم انسانوں، ہمارے سماجی رویوں سے ہوتا ہے اور میڈیا ان کو اسی طرح پیش کرتا ہے۔

تحقیق میں جذباتیت کا کام نہیں، لیکن کچھ ایسے نتائج بھی آپ کے سامنے آجاتے ہیں جو پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیے تھے یا ماضی نے ان کے گرد نقرئی ہالہ کھینچ دیا تھا اور ہم سمجھتے تھے کہ ساری بربادی ضیاء دور کے بعد ہی آئی لیکن جہاں تک کھیلوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی پذیرائی اور میڈیا میں ان کی کوریج کا تعلق ہے صورتحال بہت ناگفتہ بہ تھی۔ آزادی سے لے کر ساٹھ کی دہائی تک کبھی کبھار کوئی تصویر وہ بھی شاید میڈل پہنانے والے کی وجہ سے آجاتی تھی۔ ہاں ستر کے اوائل میں کچھ بہتری نظر آئی تھی جس نے ضیاء دور میں بالکل ہی دم توڑ دیا۔ حتی ٗکہ کہ سالانہ قومی کھیلوں میں عورتوں کے کھیل شامل نہیں تھے اور اس بارے میں کوئی خبر بھی کم سے کم اسپورٹس کے صفحے میں شامل نہیں کی گئی۔

اس تحقیق کے دوران مختلف طریقے استعمال کیے گئے جن میں اخبارات اور الیکڑانک میڈیا مانٹرنگ کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات جانچنے کے لیے مختلف عمروں کے سو سے زائد افراد سے سروے کیا گیا اور ملک بھر کی پندرہ مایہ ناز خواتین کھلاڑیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ صحافیوں سے ان کے تجربے پوچھے گئے اور سوشل میڈیا پر خواتین کھلاڑیوں کو فالو کیا گیا۔

مجموعی طورپر 1947 سے 2018 تک خواتین کھلاڑیوں اورکھیلوں کی کوریج صرف اور صرف اعشاریہ 5 فیصد رہی۔ اور یہ نتیجہ بھی سالانہ قومی کھیلوں اور دیگر ٹورنامنٹ کے دوران دی گئی خبروں سے حاصل ہوئے، جہاں تک ان کی تصاویر کا تعلق ہے ان کا معاملہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے 2018 کے انتخابات میں بہت سی ووٹ دہندگان اپنی امیدوار خواتین کی تصویرتک نہیں دیکھ پائے۔ وللہ اعلم اس کے معنی، ان کے وجود کی نفی کرنا ہے یا عزت دینا ہے۔

نئی صدی اور اس کے ساتھ الیکڑانک میڈیا، سوشل میڈیا نے جو دنیا بھر میں اطلاعات کا انقلاب برپا کردیا، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی خواتین اس کا فائدہ بھی نہیں اٹھا سکیں اور کوریج کی یہ شرح اعشاریہ پانچ سے بڑھ کر بمشکل ایک ہوگئی۔ اٹھارہ سال میں صرف ایک بار کسی خاتون کو اعزازملا کہ وہ تن و تنہا کسی بڑے چینل کی نو بجے کی ہیڈ لائن کی زینت بنتی۔ اس تصویری دنیا میں بھی خواتین کھلاڑیوں کے فوٹیج، جو کسی بھی ٹی وی کی خبرکی اولین ضرورت ہوتے ہیں۔ لانگ شارٹ یا بھرتی کے شارٹ کے ذریعے لگائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب مردوں کے میچوں کے دوران تماشائی خواتین کے کلوز اپ دکھائے جاتے ہیں۔

ہم نے ابھی تک یہ بات ہی نہیں کی کہ اگر کبھی خبر بنائی گئی تو کس طرح بنائی گئی اور اگر دکھایا گیا تو کس طرح دکھایا گیا۔ خبر کی ایک مثال ”مس خان نے قومی چمپین شپ جیت لی“۔ بے چاری مس خان کا اپنے والد کے علاوہ کوئی ذاتی نام نہیں ہے۔ ایک اور مثال ”ثانیہ مرزا پاکستانی کھانوں کی شوقین“۔ مطلب ثانیہ مرزا کی واحد پہچان ان کی کھانوں میں دلچسپی ٹھہری۔ دوسری جانب شاذ ہی کسی خاتون کھلاڑی کے بارے میں تفصیلی فیچر لکھے گئے تاکہ عوام کو ان کی محنت اور کوششوں کا پتہ چلے ان کا جوہر تسلیم کیا جائے۔ تصویریں ایسی کہ چھبیس چھبیس رکنی ٹیم دو کالم میں یا پھر ایسی کہ کھلاڑی کم نئی ادکارہ زیادہ لگے۔

خواتین کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ شکر ہے سوشل میڈیا کے آنے سے ہم اپنی کامیابیاں خود فیس بک یا ٹیوٹر پر لگا دیتے ہیں ورنہ تو ہماری ٹیموں کی تو نہ کسی دورے کی خبر ہوتی ہے نہ جیتنے کی۔ کرکٹ کے میدان میں جس کی صورت حال نسبتا بہتر ہوئی ہے ہمیشہ موازنہ ہی کیا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس ٹیم کو کتنی سرپرستی مل رہی ہے۔ لیکن اس سوشل میڈیا سے بہت سی خواتین کھلاڑیوں کو انتہائی نامعقول قسم کے جملے بھی بھیجے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف کس قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ماریہ طورپکائی کے خلاف چلائی گئی سوشل میڈیا مہم کون بھول سکتا ہے۔ اس بے چاری کو پاکستان کا نام روشن کرنے پر کبھی خاطرخواہ شہرت نہ ملی لیکن عورت ہونے اور اسکوائش کھیلتے ہوئے قمیض شلوار اور دوپٹہ کے علاوہ کچھ اور پہننے پر کیا کچھ نہیں سنا دیا گیا۔

ریسرچ کے دوران ایک دلچسپ اورمثبت نتیجہ سامنے آیا۔ جن تین کھلاڑیوں نے میڈیا کی جانب سے کوریج پرنسبتا اطمینان کا اظہار کیا تھا، ان کا نام سروے کے جواب نامے میں ہر عمر کے مرد و عورت نے اس کھلاڑی کے طور پر لکھا جن کو وہ جانتے تھے اور ٹی وی یا اخبار میں دیکھا ہوا تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے جس کھلاڑی کی کوریج کی گئی اس کو عوام نے پہچانا اور آئندہ بھی میڈیا ہماری ان باصلاحیت کھلاڑیوں کو جائز کوریج دے تو ان کو وہ مقبولیت مل سکتی ہے جس کی وہ حقدار ہیں۔

سب سے تکلیف دہ بات جس کا ادراک ہوتے ہی میں نے انگلیاں کی بورڈ سے اٹھالیں کہ ان ستر سالوں میں کوئی دن اور کسی اخبار کے اسپورٹس کا صفحہ ایسا نہیں تھا جس میں گھڑ دوڑ یا ڈربی کی خبر نہ ہو۔ اس ملک کی عورتیں کہاں کھڑی ہیں؟ میں یہ سوچتی ہوں کہ اتنی محنت اور ترقی کے باوجود ابھی ہمارے ملک کی عورتوں کو کس کس سے مقابلہ کرنا ہے، کتنا آگے جانا ہے اور خود کو منوانے کے لیے مزید کتنی محنت کرنی ہوگی۔

نصرت زہرا اردو زبان کی مصنفہ، مترجم، ثقافتی اور جمہوری حقوق کی کارکن اور صحافی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے جمہوری حکمرانی اور ترقیاتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ سماجی تحقیق میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ انڈس کلچرل فورم کے بورڈ آف گورنر کی ممبر ہیں اور پاکستان کی مادری زبانوں کے ادبی میلے کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں ثقافتی و لسانی تنوع کے موضوع پر مضامیں اور تقاریر پر مبنی کتاب ترتیب دی ہے، جو انڈس کلچرل فورم کی جانب سے شائع کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).