Truth and reconciliation commission وقت کی ضرورت!


افلاطونی دماغوں میں سودا سمایا ہے کہ ہماری جگ ہنسائی اور کمزوری کا سبب ”گھر کی خرابی“ ہے۔ لہذا گھر کی صفائی کی جائے گی تاکہ دنیا میں ہم کچھ مقام اور آبرو پا سکیں۔ جب سے یہ خبر سنی ہے اک وحشت طاری ہے، اضطراب بڑھتا جارہا ہے، دل میں سو وسوسے لاکھ اندیشے سر ابھار رہے ہیں۔ خدایا خیر! ہمارے اجڑے، بکھرے، چکنا چور اور زخموں سے معمور وجود کو نجانے کس کانٹوں بھری رہگزر پر گھسیٹا جائے گا؟ دل کی بیقراری بے سبب بھی تو نہیں۔

کئی بار قوم کے ساتھ یہ واردات ہوچکی کہ ہمیں جانے کہاں کا لکھا حکم پڑھ کر سنا دیا جاتا ہے کہ آج سے تمہاری یہ رہگزر ہے جس سے گزر کر فلاح پالو گے۔ برسوں سے چل چل کر آبلہ پا ہو چکے مگر نجات آکر ہی نہیں دے رہی۔ کبھی حکم ہوتا ہے ہمارا مشترکہ مفاد (کامن انٹرسٹ) امّت سے وابستہ ہے۔ امت ایک جسد کی مانند، جس کے ایک عضو کی چوٹ سے تمام کی تکلیف لازم۔ اس نصیحت کو پلّو سے باندھ کر ”الجہاد، الجہاد“ کے نعروں میں اپنے گلی کوچوں میں لشکر تیار ہوئے۔

آخر ہمارا مذہبی فریضہ اور سب سے بڑی بات کامن انٹرسٹ جو تھا۔ چند لشکر نکلے اور باقی نکلنے کو تیار ہی تھے کہ منادی ہوئی رک جاؤ! یہ راستہ خرابی کی جانب جاتا ہے۔ ہمارا مفاد تو نیشنل انٹرسٹ میں پنہاں ہے۔ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہم پرائے جھگڑوں میں پڑے ہیں۔ سب نے اپنا اپنا گھر تعمیر کر لیا ہم اب تک پرایا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔ آج کے دور میں کسی کو کسی سے کیا غرض؟ یعنی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔

کچھ رُک گئے، کچھ اَڑ گئے کہ ہم سابقہ راستے پر ہی چلیں گے۔ ڈرایا گیا کہ باز آجاؤ۔ نہ ماننے والوں کے لیے کہا گیا سولی چڑھا دو۔ چند دھر لیے گئے، باقی تاریک راہوں میں مار دیے گئے۔ غرض بہت خرابی ہوئی مگر اب جبکہ یہ باب تقریباً بند ہو چکا تو ایک بار پھر نیا تماشا؟ کون سمجھائے، عزت باتوں سے نہیں، کردار سے ملا کرتی ہے؟ جبر سے نجات بڑھکوں اور تقریروں سے نہیں جرات انکار سے ملتی ہے۔ دلیری کا یہ عالم ہے کہ ابھی کچھ دن قبل تک موقف تھا، ہماری زمین بالکل پاک ہے۔ یہاں کسی قسم کی دہشتگردی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ سب بارڈرز کی فینیسنگ کی جا چکی۔ گنے چنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے جو اڈے تھے وہ تباہ و برباد کر دیے۔ باقی جن اشخاص کے متعلق الزام ہے بلا ثبوت ہم انہیں کیوں تنگ کریں؟ لہذا ہم نہ تو کسی بہکاوے میں آکر آئندہ اپنا آنگن ادھیڑیں گے، نہ الزام تراشی کی اجازت دیں گے۔ ہوا مگر کیا؟ بھارت سے ڈوزیئر آیا۔ خود فرمایا اس میں قابل عمل کوئی چیز نہیں۔ سمجھ نہیں پھر کاہے کو مفتی عبدالرؤف اور مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر سمیت 44 افراد حراست میں لیے؟

جو کہتے ہیں، بھارت کا بیانیہ مضبوط ہے۔ انہیں خبر ہو ہم جس امریکا کہ نگاہ التفات کے لیے مرے جاتے ہیں۔ اسی امریکا نے گذشتہ روز انڈیا کو جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز یعنی جی ایس پی کے اسٹیٹس سے محروم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا اعلان ٹرمپ نے کانگریس کو لکھے خط کے ذریعے کیا اور کہا کہ بھارت ہمیں اپنی منڈیوں میں برابر کی رسائی اور مفادات فراہم کرنے میں ناکام رہا، جس کے سبب یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ ہمارے چند لوگ خوامخواہ شادیانے بجا رہے بھارت کو اس سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہو گا۔

بھارت کا رویہ مگر بتا رہا اس کی جانے جوتی۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یادش بخیر کچھ عرصہ قبل کسی امریکی کو مرتبے سے زیادہ مقام نہ دینے جیسی خبروں کی سیاہی بھی نہ خشک ہوئی تھی کہ ریکس ٹیلرسن کی آمد پر ہماری تمام قیادت دست بستہ کھڑی نظر آئی۔ مرعوبیت کا یہ عالم کوئی آنکھ ملانے کا روادار نہ تھا۔ وہ آیا بھی کتنی دیر، تین گھنٹے کی مانندِ خواب ملاقات کو، جبکہ یہاں سے اڑان بھر کر ہندوستان اترا مگر، وہاں تین دن میں کوئی اس کا ایک مطالبہ پورا نہ ہوا۔

درآں حالیکہ اس نے خوشامد اور لالچ سے بہت کوشش کی ہندوستان کو ایران سے دور کر دیا جائے۔ یا کم از کم شمالی کوریا میں سفارت خانہ ہی بند کرا لیا جائے۔ بیش بہا نوازشات، اسلحہ اور تعاون کی وعید کے بعد بھی کسی ایک بات پر قائل کرنے میں مگر کامیابی نہ ہوئی۔ جو بن مانگے ہی سب کچھ عطا کر دے وہ مشکوش کیوں نہ ہو؟ غیرت، حمیت اور دلیری اگر ہو روز نیا بیانیہ تراشنے کی نوبت ہرگز نہ آئے۔

درویش آج کل ایک بار پھر گالیوں اور غداری کے طعنوں کی زد میں ہے۔ وجہ یہ سوال اٹھانا کہ گھر میں آخر برائی کیا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ پچھلی حکومت نے جب یہ بات کی اور اسے لیکس وغیرہ میں الجھایا جا رہا تھا، تب بھی درویش کا موقف یہی تھا مگر، آج تنقید کرنے والے اس وقت تحسین کر رہے تھے۔ مسئلہ یہ ہے، منافقت یا دہرا چہرہ رکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ چند سوالوں کے جواب مل جائیں شاید ناقص ذہن کی تشفی ہو جائے۔ نواز شریف کی حکومت میں جب یہ بات ہوئی تو پھر اس وقت بھونچال کیوں پیدا ہوا؟ اس کا سیدھا صاف مطلب یہ نہیں کہ ایک کا پسینہ گلاب دوسرے کا ناپاک۔ دوسری بات کیا، یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز بغیر کسی سرپرستی کے ٹیکنالوجی کے دور میں اس قابل ہیں، کہ سرحد پار جا کر کارروائی کریں۔ تیسری بات کہ اگر یہ اتنے طاقتور ہیں بھی تو کھل کھیلنے کی انہیں اتنا عرصہ اجازت کیوں رہی؟

چوتھی بات ان کی پیدائش و افزائش کس طرح ہوئی؟ پانچویں جب جامعہ حفصہ پر چڑھائی کے لیے میڈیا ہلا شیری دے رہا تھا، اور جب کارروائی ہو گئی اس کے بعد واویلا کیا یاد نہیں؟ چھٹی بات ایک طرف کہا جا رہا ڈوزیئر میں کوئی قابل عمل چیز نہیں تو پھر کیا یہ گرفتاریاں بلا جواز نہیں؟ ساتویں کیا اس فیصلے کی ٹائمنگ دباؤ قبول کرنے کا شک پیدا نہیں کرتی؟ آخری سوال میرا انسانی حقوق کے چمپیئنز سے کہ سیاسی لیڈران کی گرفتاری پر وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بلا ثبوت گرفتار کرنا اور نقل و حمل پر پابندی لگانا آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔ کل کلاں ان 44 افراد پر الزام ثابت نہ ہوا اور یہ بری ہوئے تو ان کے نظر بندی میں گزرے شب و روز انسانی حقوق کی پامالی نہ ہوں گے؟

اس میں کوئی شک نہیں آج کے تقاضے پراکسیز کے متحمل نہیں۔ یہ بھی ماننا چاہیے کہ ماضی میں ہم نے ان افراد کو جنہیں آج بوجھ قرار دیا جا رہا، خود پراکسی کے طور استعمال کیا۔ صرف ہم نے نہیں۔ بلکہ تقریبا تمام متحارب ممالک نے اپنے مفادات میں ایسے گروہ پیدا کیے۔ عظیم قوم مگر وہ ہوتی ہے، جو سابقہ غلطی کا نہ صرف اعتراف کرے بلکہ اس سے سبق سیکھے۔ ہم سے غلطی یہ ہوئی افغان جنگ کے خاتمے کے بعد بیرونی لوگ واپس بھیجنے کے بجائے اپنے ہاں ٹھہرا لیے۔

انہیں بغیر کسی ریکارڈ کے قبائلی علاقوں میں رہائش کی اجازت تھی جس کا خمیازہ سامنے ہے۔ اس کے علاوہ ہماری اور دیگر دنیا کی حکمت عملی میں فرق یہ رہا، کہ ہم لوگ بھی اپنے استعمال کرتے رہے اور منصوبہ بھی۔ بہت سے ممالک اب بھی کامیابی سے نان اسٹیٹ ایکٹرز سے کارروائیاں کراتے ہیں۔ جیسے بھارت ہمارے بلوچستان اور ایران خلیجی ممالک میں۔ فرق مگر یہ وہ افرادی قوت مقامی ہی استعمال کرتے ہیں اس لیے زیادہ شور نہیں ہوتا۔ میجر جنرل آصف غفور صاحب نے خود فرمایا، ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی اور ہم نے ان سے سبق سیکھا ہے۔

پھر وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو کرپشن اور دہشتگردی کے الزامات میں پابند سلاسل کرنے کے بجائے ایک Truth and reconciliation commission تشکیل دیں جس میں تمام ریاستی اداروں، سیاسی و مذہبی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی شرکت ہو۔ سب اپنے حصے کا گناہ قبول کریں۔ جس کے بعد ایسے لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے کاؤنسلنگ سینٹرز اور روزگار فراہمی کے اقدام کیے جائیں، اور میثاق معیشیت بھی طے کیا جائے۔ جو پھر بھی نہیں رکتا اسے کڑی سزا دیں، ماضی کے کارناموں پر اگر پکڑ ہوئی پھر شیخ رشید جیسے مجاہد بھی نہیں بچ پائیں گے۔ بعض نام ایسے بھاری ہیں جو بیان کرتے زبان گدی سے اکھڑنے کا خوف رہتا ہے۔ یہی حل ہے، وگرنہ خالی خولی اچھل کود پہلے بھی ہوتی رہی، اب بھی کر دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).