ٹِک ٹوک (tik tok) ، نوجوانوں کا نیا نشہ :


پاکستان کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی یلغار نے گزشتہ چند برسوں میں بری طرح اپنی گر فت میں لے لیا ہے۔ جدید طرح کی ایپس (Applications) نے نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کی دنیا میں مشغول کر دیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا کی تخلیق کا مقصد تو دور کی بات اپنا مقاصدِ زندگی بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ ۔ شاید آج کل کے لوگ کھائے پیئے بغیر کچھ دیر تو رہ سکتے ہیں مگر سوشل میڈیا استعمال کیے بغیرکچھ دیر بھی نہیں رہ سکتے۔

آج کل جس سوشل ایپ (application) نے نہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے نوجوانوں کو اپنانشہ سا کروا دیا ہے وہ ٹک ٹوک (tik tok) ہے۔

آج کا ایسا کون سا نوجوان ہے جو اس ایپ سے واقف نہیں۔ اس ایپ کی ایجاد تو 2016 میں ہوئی پر 2018 میں اس نے کافی مقبولیت حاصل کی کہ کوئی بھی اس ایپ کو اس استعمال کرنے میں مجبور ہوگیا۔ ٹک ٹوک (tik tok) دورِ جدید کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے جو نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے۔

آج کی نوجوان نسل ماحول میں نئی آنے والی ہر چیز کو اپنانے کا تجسس اپنے اندر رکھتے ہیں جو چیز ٹرینڈ کی صورت میں آتی ہے لوگ اس کا اچھا برا جانے بغیر استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح ٹک ٹوک (tik tok) نے ہماری جوان نسلوں کو اس حد تک متاثر کر لیا ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کی حدود بھول گئے ہیں۔ 80 فیصد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسی چیز میں لگ گئے ہیں کہ وہ دوسرے سے زیادہ اچھی اداکاری ناچ یہ سب کرسکیں اور چند followers کے حصول کے لئے وہ اس طرح کے کام کرنے کے لیے بھی تیار ہیں جو اسلامی معاشرے میں رہنے کے لئے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ایک اسلامی ملک میں رہنے کے لئے اور ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے لڑکے اورلڑکیوں کا کھلے عام اس طرح سے ویڈیوز بنانا، ناچ گانا کرنا ہمارے معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ایپ آج کی نوجوان نسل کے لیے ایک نشہ سا بن گئی ہے۔

یہ ایپ لوگوں کو خود کو کسی بھی طرح مشہور بنانے کہ لیے مجبور کر رہی ہے۔ نوجوان اس فضولیات میں نہ صرف اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں بلکہ اخلاقیات کی حدود سے بھی گزر رہے ہیں۔ جس کی مثال آپ کو ویڈیوز میں لڑکے اور لڑکیوں کے ڈریسنگ کی صورت میں مل سکتا ہے جو انتہائی شرم ناک ہے بلکہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے جیسے کہ مرد، عورتوں کے لباس اور عورتیں، مردوں کا لباس پہنیں گے۔

فحش گفتگو سے بنی ویڈیوز وغیرہ اس کا کوئی مذہب توکیا اخلاقیات بھی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ انڈیا کا ایک گانا ”اس میں تیرا گھاٹا میرا کچھ نہیں جاتا“ اس گانے میں لڑکے اور لڑکیوں کا ناز یبا اشارے کر کے ویڈیوز بنانے کی اجازت کسی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ اس ایپ سے مغربی ثقافت کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ اپنے رشتے کا اس طرح سے لوگوں کے آگے دکھاوا کرنا انتہائی غلط ہے۔

نوشہرہ کے ایک لڑکے نے اس ایپ کہ خلاف وزیرِ اعظم عمران خان کو در خواست بھی لکھی تھی اور اس ایپ کو بند کرنے کی گزارش بھی کی تھی۔ اور اس در خواست کے لکھے جانے کے بعدیہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ ایپ پاکستان میں بند کردی جائے گی مگر افسوس یہ صرف جھوٹی خبر ثابت ہوئی۔ عجیب بات جودیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ اس خبر کے آنے کہ بعد نوجواں میں مایوسی اور غصہ دیکھنے کو ملا۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے صاف لگایا جاسکتا ہے کہ نوجوان اس ایپ کے کتنے عادی ہو چکے ہیں۔ دل مایوس تب ہوا جب ایک ویڈیو دیکھی اور اس میں ایک لڑکا یہ بولتے ہو ئے دکھا کہ اس نوجوان نے نماز میں اس ایپ کہ نہ بند ہونے کی دعا کی، یہ ہم لوگوں کہ لئے کسی شرم کے مقام سے کم نہیں۔

ہماری نوجوان نسل اپنی زندگی کا مقصد بھول گئے ہیں وہ اپنا قیمتی وقت اس طرح سے ضائع کر دیں گے۔ کیا حکومت کو اس ایپ پر نظرِ ثانی نہیں کرنی چائیے؟ اس ایپ کو کیا بند نہیں ہونا چائیے؟ اگر یہ ایپ بند نہ کی گئی تو اس کا بہت بُرا اثر آگے آنے والی نسلوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).