تحریک خلافت،  ترک بغاوت، مسلم جذبات اور گاندھی جی


علامہ اقبال نے بال جبریل میں جرمن سے ماخوذ شیر اور خچر کا ایک مکالمہ نظم کیا ہے:

شیر: ساکنان دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ
کون ہیں تیرے اب و جد، کس قبیلے سے ہے تو؟
خچر: میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار، شاہی اصطبل کی آبرو

یہ شعر یاد آنے کا سبب برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کا عجیب و غریب طرز عمل ہے۔ ہم خواہ کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہوں،ا ن صبا رفتاروں کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں جو پہاڑوں کے پار سے آتے تھے، یہاں کی بستیوں کو تاخت و تاراج کرتے تھے، قتل و غارت کا بازار گرم کرتے تھے۔ مقامی مسلمانوں کو بنظر حقارت دیکھتے تھے لیکن ہم ان کی شان و شوکت کو دیکھ کر باغ باغ ہوتے تھے۔ وہ ہمیں منہ لگائیں نہ لگائیں مگر ہم اپنے شجرہ نسب از سر نو تصنیف کرنے بیٹھ جاتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اس نفسیات کو ایک جملے میں سمو دیا ہے کہ بزرگ افغانستان کے راستے کب شجرہ نسب میں داخل ہوئے۔

اس کے بعد ایک اور وقت آیا جب سات سمندر پار کرکے وارد ہونے والی ایک قوم ہم پر حاکم ہو گئی تو ہمیں یاد آیا کہ ہم تو ایک عظیم الشان امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ برصغیر پاک و ہند سے ہمارا تعلق تو واجبی سا ہے۔ ہماری خوشی غمی تو بس امت مسلمہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ مسلم امت جب تک مسلمان ہندوستان میں برسراقتدار رہے کبھی کسی کو یاد نہیں  آئی۔ حتی کہ میر اور غالب کے ہاں بھی ہمیں قرطبہ و غرناطہ کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد ہمارے شاعروں نے قرطبہ اور غرناطہ کے مرثیے لکھنا شروع کیے اور اس سنہری زمانے کو یاد کرنے لگے جو کبھی ہمارا نہیں تھا۔

اس دور میں شبلی نعمانی کی پیروی میں ہم نے اپنی تاریخ کو بھی ڈرائی کلین کرنا شروع کیا۔ دستور زمانہ کے مطابق ہماری تاریخ بھی زیادہ ترد رباری مؤرخین کی لکھی ہوئی ہے۔ تا ہم اس زمانے کے مؤرخوں کو لوٹ مار کو لوٹ مار کہنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بادشاہوں کی دولت کی ہوس،جور و ستم، وعدہ خلافیوں اور حرم زدگیوں کو کسی پشیمانی کے بغیر روا روی میں لکھ جاتے تھے۔ لیکن اب ہمیں ان پر ندامت محسوس ہونے لگی اور ہم نے بادشاہوں کے اعمال کو تقدس کے جامے پہنانا شروع کر دیے۔ اس طرح محمود غزنوی سے لے کراحمد شاہ ابدالی تک ایک ایک حملہ آور ہمارا ہیرو قرار پایا۔ ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ غیر مسلموں کے خلاف جہاد کرنے والوں کے ہاتھوں کتنے مسلمانوں کا خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

پنڈت نہرو نے تو کمیونسٹوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماسکو میں برف پڑتی ہے تو یہ دلی کی سڑکوں پر اوور کوٹ پہن کر پھرنے لگتے ہیں۔ مسلمانان ہند کا حال بھی کچھ اسی قسم کا رہا ہے کہ انہیں اپنے مسائل کا حل ہمیشہ افغانستان و ایران میں دکھائی دیا ہے۔ جب مرہٹوں نے زور پکڑا تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی حالانکہ مرہٹے مغل اقتدار کے باغی نہ تھے۔ ان کا مطالبہ تو بس چوتھ کا ہوتا تھا۔ غلام قادر وہیلہ نے جب مغل بادشاہ کو اندھا کرکے قید میں ڈال دیا تھا تو مرہٹہ سردار نے ہی روہیلہ کو شکست دے کر بادشاہ کو قید سے نکال کر دوبارہ تخت پر بٹھایا تھا۔ اس وقت ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے عالم حضرت شاہ ولی اللہ کو مرہٹوں کی سرکشی کا اس کے علاوہ اور کوئی علاج نہ سوجھا کہ افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی جائے۔ نہیں معلوم کہ آیا شاہ صاحب کو ہندوستان کے مشرق سے امڈتے ہوئے خطرے کا کچھ اندازہ تھا یا نہیں۔ احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کوتو شکست دے دی مگر اس قدر لوٹ مار مچائی کہ ہمارے لوک گیتوں کا حصہ بن گئی۔

انگریزوں کے خلاف جب جنگ آزادی برپا ہوئی تو اس وقت دلی میں اس طرح کے پوسٹر لگا کرتے تھے کہ شاہ ایران اپنی فوجیں لے کر مسلمانوں کی مدد کو آ رہا ہے اور وہ ان ظالم فرنگیوں کو شکست فاش سے دوچار کرے گا۔ خبر نہیں اس کے وقت ان سادہ دل مسلمانوں کو ایران کے حالات کی کچھ خبر تھی یا نہیں۔

علامہ شبلی نعمانی انیسویں صدی کی آخری دہائی میں شام و روم و مصر کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ ممالک اسلامیہ کے بارے میں یورپین مصنفین کی غلط بیانیوں کا پردہ فاش کیا جائے کیونکہ ان کی تحریریں بغض و عناد پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس کے ابتدایے میں فرماتے ہیں کہ ’’یورپین لٹریچر پڑھ کر ترکوں کی نسبت تحقیر کے خیالات نہ پیدا ہونے بعینہٖ ایسا ہے جیسا خواب آور دوا کھا کر نیند کا نہ آنا‘‘۔ اس کے بعد وہ خلیفۃ المسلمین سلطان عبد الحمید ثانی کے عہد مبارک میں ہونے والی ترقیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تذکرہ کرنا یورپ کے متعصب مصنفین کو گوارا نہیں۔ تاہم جب وہ خود استنبول پہنچتے ہیں تو پھر خوبیوں کا تذکرہ کم اور خرابیوں کا ذکر زیادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ سلطان معظم کی زیارت سے بہت شاداں و فرحاں دکھائی دیتے ہیں اور اس کے جاہ و حشم کا ان کی طبیعت پر بہت خوش گوار اثر مرتب ہوتا ہے۔ مصر پہنچ کر انہیں اس صدمہ سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے کہ ابونواس اور متنبی کے زمانے کی عربی بولنے والے مفقود ہو چکے ہیں۔

مولانا کا سفر نامہ پڑھتے ہوئے یہ خیال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ اگر سفر کا ارادہ کر ہی لیا تھا تو لگے ہاتھوں پیرس اور لندن بھی ہو آتے تاکہ انہیں سلطان عبد الحمید کے عہد میں ہونے والی شاندار ترقی کی حقیقت بھی معلوم ہو جاتی۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں اگر آپ اس بات پر فخر کریں کہ میٹرک کے سکولوں کی تعداد 96سے بڑھ کر 504ہو گئی ہے تو اس پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ ترقی تو شاید اس وقت ہندوستان میں ہو چکی ہو گی۔ اسی طرح اگر وہ لندن اور پیرس کی لائبریریوں کی زیارت کر لیتے تو انہیں استنبول اور قاہرہ کی لائبریریوں سے تقابل کرنے میں اور بھی آسانی ہو جاتی۔ جس سلطان کی شان و شوکت اور جاہ و حشم سے وہ بہت مرعوب ہوئے تھے اس کی حیثیت مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے تھوڑی ہی بہتر تھی اور تقریباً ایک دہائی بعد ہی نوجوان ترکوں نے اس کا تختہ الٹ دیا تھا۔

شبلی جس برس دنیا سے رخصت ہوئے اسی سال یورپ میں وہ جنگ شروع ہو گئی جسے پہلی عالمی جنگ کا نام دیا گیا۔ اس جنگ میں ترکی جرمنی کا اتحادی تھا۔ مسلمانان ہند کی صورت حال عجب تھی۔ ایک طرف دھڑا دھڑ برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہو رہے تھے اور حجاز میں ترکوں پر گولیاں برسا رہے تھے، دوسری طرف مساجد میں ترکی کی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ غازی انور پاشا اور غازی مصطفی کمال پاشا کی تصاویر آویزاں کر رہے تھے۔ میرے بچپن تک یہ تصاویر پان سگرٹ کی دکانوں پر آویزاں ہو تی تھیں۔ خود ان دونوں غازیوں میں کیا اختلافات تھے کسی کو ان کی خبر نہ تھی۔ خیرجرمنی کے ساتھ ترکوں کو بھی شکست ہوئی تو ہم نے خلافت کی بقا کی تحریک چلانا شروع کر دی جو عملاً جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی انجمن اتحاد و ترقی کے انقلابیوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی تھی۔ آج کتنے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ علامہ اقبال نے یہ شعر نوجوان ترکوں کے بارے میں کہا تھا نہ کہ مصطفی کمال کے بارے میں:

چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

جس خلافت کے احیا اور بقا کی خاطر مسلمانان ہند اپنی انتہائی خراب مالی حالت کے باوجود بے پناہ مالی ایثار کا مظاہرہ کر رہے تھے اور لاکھوں روپے خلافت کمیٹی کو چندے میں دے رہے تھے، اس کے بارے میں کسی نے یہ سوال پوچھنے کی زحمت نہ اٹھائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا اس خلافت سے تعلق کیا تھا۔ 1517 ء میں جب عثمانی سلطان سلیم نے مصر پر قبضہ کیا تو وہاں پر موجود نام نہاد عباسی خلیفہ کو گرفتار کرکے استنبول لے جایا گیا اور اس پر جبر و تشدد کے بعد اس سے خلافت سے دستبرداری کا پروانہ لکھوا کر سلطان سلیم نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اس کے آٹھ برس بعد،  1526 ء میں، فرغانہ کے ترک نسل سے تعلق رکھنے والے ظہیر الدین بابر نے سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں اپنی شہنشاہیت کا اعلان کر دیا۔ آج ہمارے مطالعہ پاکستان کے طالب علموں کو یہ فرق شاید ہی معلوم ہو کہ مغلوں سے پیشتر کے مسلم حکمرانوں کے دور کو عہد سلاطین کیوں کہا جاتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ مغل حکمران شہنشاہ کہلاتے تھے ۔ مغلوں نے عثمانی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت کسی فقیہ یا مفتی نے یہ فتویٰ دیا ہو کہ خلیفہ وقت کی اطاعت لازمی ہے اور مغلوں کا شہنشاہ کہلانا از روئے شریعت جائز نہیں۔ عثمانیوں سے مغلوں کاکیا تعلق تھا اس کا ایک نمونہ شہنشاہ ہند، ظل سبحانی حضرت نور الدین جہانگیر نے اپنی خود نوشت، تزک جہانگیری، میں پیش کیا ہے۔

’’جب میں بادشاہ ہوا تو خیال ہوا کہ مجھے اپنا نام[سلیم] بدل دینا چاہیے کیونکہ اس نام سے قیصر روم کے نام کا دھوکا ہوتا ہے۔ ملہم غیبی نے میرے دل میں ڈالا کہ بادشاہوں کا کام جہاں گیری ہے، اس لیے میں اپنا نام جہانگیر رکھوں اور چونکہ میں سورج نکلنے اور سارے عالم کے روشن ہونے کے وقت تخت نشین ہوا تھا، اس لیے اپنا لقب نور الدین اختیار کروں۔‘‘

گویا محبت کا یہ عالم تھا کہ نام کی مشابہت بھی گوارا نہ تھی۔ لیکن چار سو سال گزرنے کے بعد ہمیں  یاد آیا کہ ہمارا خلیفہ تو استنبول میں براجمان ہے اور اس کی خلافت کی بقا کی جدو جہد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس پر مزید ستم ظریفی یہ کی کہ مصطفی کمال کے پاس خلافت کی بحالی کا مطالبہ کرنے جو وفد بھیجا گیا وہ سر آغا خان اور سید امیر علی پر مشتمل تھا۔ سفارت کی تاریخ میں اس سے بڑا لطیفہ شاید ہی کوئی اور ہو۔اس وفد کو دیکھ کر اتاترک حیران ہی نہیں بلکہ سخت ناراض بھی ہوا تھا۔ایک طرف ہمارے عوام اور شاعر مصطفی کمال کے گیت گا رہے تھے کہ تیریاں دور بلائیں ۔ دوسری طرف ہمارے مذہبی طبقے نے شاید ہی کوئی حرف دشنام ہو جو جدید ترکیہ کے اس بانی کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔ کبھی اسے استعمار کا ایجنٹ قرار دیا گیا تو کبھی دونمہ یہودی کہا گیا۔ تاہم ترک عوام کا کمال ہے کہ انہوں نے اسلامیان ہند کے اس جذبے کی ہمیشہ قدر کی ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے جنگ عظیم اول کے زمانے میں کیا تھا۔

وطن عزیز میں ایک بار پھر ترکی کی محبت کا سمندر موجزن ہو رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں اس خیال کی ترویج کی جارہی ہے کہ وہ اتاترک کے سیکولرازم کو رد کرکے خلافت بحال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا ہمیں صبا رفتاروں کی محبت میں ایک اور تحریک خلافت کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا ہماری دیواروں پر ایک بار پھر یہ نعرے درج ہوں گے: استنبول کو جانا ہے ، خلافت کو واپس لانا ہے۔ جگہ جگہ خلافت کی بحالی کے لیے چندے کے ڈبے پڑے ہوں گے۔ بس ایک ہی امید باقی ہے کہ اب قیادت کے لیے کوئی مہاتما جی موجود نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments