روایت پسند، دیسی لبرلز اور خواتین


یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب ہم نے سنا کہ سیانے کہتے ہیں کہ ”مرد اور عورت زندگی کے دو پہیے ہیں“ جس پر کچھ شرارتی لوگوں نے کہا کہ ایک پہیہ کسی بھی وقت پنکچر ہو سکتی ہے لہٰذا اضافی پہیہ ساتھ میں رکھنی چاہیے۔ اب یہ بات ہم سوچ ہی رہے تھے کہ یہ اضافی پہیہ عورت ہی کیوں ہوتی ہے کہ ایک روایت پسند دوست نے ہماری مشکل حل کر دی کہ ”عورت وہ پہیہ ہے جس کے پنکچر ہونے کے چانسس زیادہ ہوتے ہیں“، اسی لیے تو شریعت نے چار پہیے رکھنے کی اجازت صرف مردوں کو دی ہے، اب نا اصافی کا شور مچانے والے دیسی لبرلز کے لیے عرض ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ مرد وہ پہیہ ہے جو کبھی پنکچر نہیں ہوتا۔

ہماری کنفیوژن دیکھ کر مزید وضاحت کی کہ عورت وہ پھول ہے جس کی حفاظت کے لیے ساتھ میں ایک کانٹے یعنی مرد کی ضرورت ہوتی ہے اور اردگرد خار دار تاروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو بھی مرد ہی بن سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید سمجھایا کہ قیمتی اشیا کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ورنہ چور ڈوکوؤں کا خطرہ رہتا ہے، اسی لیے تو عورت کو چادر و چار دیواری میں مقید رکھنے کا حکم ہے۔ ساتھ دیسی لبرلز کی بھی خوب کلاس لی کہ ”عورت کی آزادی کی باتیں کرنے والے دراصل عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں“۔ گویا عورت کوئی شے اور مرد اس شے پر ہاتھ صاف کرنے والا کوئی چور جو دوسروں کی قیمتی چیزوں کو چرانے کی کوشش میں ہیں ہر وقت۔ ثقافت کے محافظ نے مزید کنفیوژن پھیلا دی تھی۔

اسی کنفیوژن کے عالم میں فیسبک پر کچھ دیسی لبرلز سے واسطہ پڑا۔ بڑے عجیب لوگ تھے بھئی عجیب عجیب منطق، دانشوروں اور ان کی کتابوں کا حوالہ دے رہے تھے۔ بحث میں ہم نے ثقافت سے جو سیکھا تھا انڈیل دی، بات نہ بنی تو روایات پسندوں کے اوپر بیان کی گئی ساری منطق بھی بتا دی مگر مجال تھا کہ انتہا پسند لبرلز جو کوئی بات مانتے۔ یہی طے پایا کہ ان دیسی لبرلز کو مات دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ”ان کے جتنا پڑھا جائے“۔

وقت کے ساتھ کچھ عمرانیات کا کمال اور کچھ ذاتی کاوشوں سے کچھ پڑھ جب ہم دیسی لبرلز کو مات دینے کا سوچتے، اس سے پہلے خود ہم پر بھی روایت پسندوں نے دیسی لبرل کا لیبل چسپان کر دیے تھے۔ رہی بات دیسی لبرلز کی تو لڑنے کی نوبت ہی نہیں آئی، نظریات و خیالات میں مماثلت جو آ گئی تھی ”نکما کرکے جو رکھ دیے“ کفار کے کتابوں نے اور ”نکموں“ کے لیے ہمارے رسم و رواج میں کوئی جگہ نہیں۔

کتابیں پڑھنے کو صحت مند دماغ کے لیے شرط قرار دی گئی ہے مگر ہمارے ہاں وہ ماغ ہی صحت مند ہے جو ہمارے رسم و رواج کے تابع ہوں۔ ایسے رسم و رواج جہاں عورت ایک جلدی پنکچر ہونے والی پہیہ، زیادہ سے زیادہ ایک قیمتی شے جسے چھن جانے کا خطرہ مردوں سے ہی لاحق ہے۔ عورت ہمارے ہاں وہ پھول ہے جس کا رس پینے کی ہوس ہر مکھی یعنی مرد کو ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ عورت کے عشق میں زمین و آسمان ایک کرنے والے، پہاڑوں کو کھود کر دودھ و شہد کی نہریں بہانے ک دعویٰ کرنے والے اور ”وجود زن کو کائنات کی رونق“ قرار دینے والے اقبال کے شاہین خواتین کو برابری دور کی بات بنیادی حقوق دینے کے بھی روادار نہیں۔

ایسے میں جو عورت کو پہیہ اور پھول کی بجائے انسان کہنے کا مطالبہ کرنے والے دیسی لبرلز روایت پسندوں کی نظر میں آستیں کے سانپ، غدار اور نہ جانے کیا کیا مفروضات ہیں ان کے بارے میں۔ عجیب و غریب دماغ ہے ہم مردوں کے، ٹھیکہ دار بننے کا بیڑا اٹھا رکھے ہیں۔ خود کا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا، اوپر سے خواتین کے ہاتھ پیر توڑ کے اپاہج کرکے اپنے ہی بوجھ میں اضافے کرنے پر تلے ہوئے پیں۔ سادہ سی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنے ہی جیسے مردوں سے اپنے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے سیکورٹی گارڈ بننے کی بجائے کیوں نا خواتین کو اس قابل بنائیں کہ انھیں کسی مرد سیکورٹی گارڈ کی ضرورت نہ پڑے جسے اکیڈیمیا کی زبان میں وومن ایمپاورمنٹ کہا جاتا ہے۔ اگر پہیے ہی ہیں ہو تو دونوں پہیے برابر اور ہوا بھرے ہوئے ہونا چاہیے ورنہ گاڑی صحیح نہیں چلی گی جس طرح ہمارے ہوا ہے۔ یہ ہم مردوں کی کمزوری ہی ہے کہ خواتین کو کمزور سمجھتے ہیں اور ایمپاور خواتین سے خوف محسوس کرتے ہیں ورنہ خواتین کے برابری کے نغروں سے ہمیں کیا تکلیف ہونی چاہیے۔

اگر غور سے دیکھ جائے تو ہمارے معاشرے میں اکثریت روایت پسندوں کی ہے جن کے نزدیک حقوق کی بات کرنے والے دیسی لبرلز معاشرے کے دشمن انتہا پسند ہیں۔ ان سے اگر دائرے بنا کر مارنے والوں اور مارنے کی فتویٰ لگانے والوں کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر مگر کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ یہ خود کو اعتدال پسند اور وقت کے ساتھ ہم آہنگ بھی ظاہر کریں گے، جدید سہولیات اور جدید طرز زندگی کے دلدادہ بھی ہوں گے، بحث اگر سے شروع ہو کہ مگر پر ختم ہوں گی۔

اوریا مقبول جان اور فیاض چوہان کی طرح ان میں سے بغض بحث میں بھی تگڑے ہوں گے جو سائنس اور فلسفے کی طاقت کا معترف ہونے کے ساتھ ساتھ بغض سازشی تھیوریوں کے ذریعے اپنے روایات کے لیے بھی گنجائش نکال لیں گے۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے مگر قول و فعل میں تضاد والے ہوں گے تو نظریات اور کتابی باتوں کو تجربات اور زمینی حقائق کی بھٹی میں جلا کر پختہ کرنے کا مشورہ دیں گے، ایسی بھٹی جہان سب کچھ جل کر راگ ہو جاتا ہے کیونکہ بھٹی اور ایندھن دونوں روایت پسندوں اور کچھ فاشسٹوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور معاشرہ خاص کرخواتین روایات و رسومات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).