بھارت کی ہزیمت مودی کی ناکامی نہ بن سکی تو۔۔۔


بھارت سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پلوامہ سانحہ کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی ناکام عسکری چپقلش کے بعد نریندر مودی کوسخت تنقید کا سامنا تو کرنا پڑ ا ہے لیکن سیاسی طور سے انہیں 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملہ اور اس کے بعد رونما ہونے والے حالات سے فائدہ ہؤا ہے۔ انہیں اس وقت پاکستان کے خلاف قومی مفاد کا محافظ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے ساتھ تصویروں کو بھارت میں پہلی بار سیاسی اشتہاروں کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بھارت کے انتہا پسند سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مختلف شہروں میں کشمیریوں پر حملوں و تشدد کو دیش بھگتی کے نام پر درست قرار دے رہے ہیں۔ ایک ایسی ہی تنظیم وشوا ہندو دل کے سربراہ امبواج نگم نے کہا ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں اپنے پچاس ہزار کارکنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کشمیریوں پر نظر رکھیں اور کسی بھی مشتبہ کشمیری کی پڑتال کریں۔

گزشتہ روز لکھنو میں اس تنظیم کے کارکنوں نے دو کشمیری ریڑھی بانوں کو مشکوک سمجھتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا اور لوگوں کی مداخلت پر پتہ چلا کہ ان دونوں افراد کا واحد قصور کشمیری نژاد ہونا تھا۔ پولیس نے بعد میں موقع پر پہنچ کر ایک شخص کو حراست میں لیا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ عادی مجرم ہے اور مارپیٹ اور قتل کے متعدد مقدمات میں مطلوب ہے۔ تاہم اب وشوا ہندو دل کے لیڈر کہتے ہیں کہ کشمیری ہمارے فوجیوں پر پتھر پھینکتے ہیں اور پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ یہ حرکتیں عوام کو مشتعل کرتی ہیں اور ان کی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو اطلاع دی جائے تو وہ بروقت کارروائی نہیں کرتی جس کی وجہ سے بعض اوقات قانون کو ہاتھ میں لینا پڑتا ہے۔

اس صورت حال میں یہ بات اہم نہیں کہ بعض انتہا پسند ملک کی اعلی ترین عدالت کے حکم کو مسترد کرتے ہیں یا قانون شکنی پر آمادہ ہوچکے ہیں بلکہ پریشانی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس بیانیہ کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ میڈیا ایسے عناصر کا بھانڈا پھوڑنے کی بجائے، ان کی قانون شکنی کو گلوری فائی کرتا ہے۔ نریندر مودی اس جذباتی کیفیت کو انتخاب میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے استعمال کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کا قانون بھی اقلیتوں کو ہدف بنانے والے عناصر کی گرفت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان سے انتقام لینے کے نعرہ کو نریندر مودی نے انتخابی سلوگن کے طور پر استعمال کیا تھا۔ وہ اس طرح بالواسطہ طور سے ملک کے دفاع اور پاکستان دشمنی کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنا کر انتخاب جیتنے کا عزم کئے ہوئے تھے۔ پلوامہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں مودی کو گزشتہ پانچ برس کے دوران اپنی ناکامیوں کا جواب دینے کی بجائے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کی سیاسی پیش رفت کو روکنے کا موقع ملا۔

اگرچہ بعض سیاسی لیڈروں نے مودی کے اس سیاسی ہتھکنڈے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی لیکن مودی اپنی زبان درازی اور اشتعال انگیزی سے باز نہیں آئے۔ اس طرح وہ بھارت میں اپنے حامیوں کو ایک ایسے مقام پر لے آئے کہ اگر بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کوئی عسکری کارروائی نہ کی جاتی تو مودی کے خود اپنے حامیوں کے غم و غصہ کا نشانہ بننے کا امکان پیدا ہو گیا تھا۔ اسی لئے شاید 26 فروری کو بھارتی فضائیہ کی طرف سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے ’جائزہ مشن‘ پر طیارے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ پاک فضائیہ کی مستعدی کا اندازہ بھی ہو سکے اور حکومت کو ’انتقام‘ لینے کا اعلان کرنے کا موقع بھی مل جائے۔

پاک فوج کے ترجمان نے البتہ اس بھارتی مہم جوئی کی حقیقت، بھارت کی طرف سے فضائی کامیابی اور سینکڑوں دہشت گردوں کو مارنے کے اعلان سے پہلے ہی بیان کر دی تھی۔ اس طرح جھوٹ کے اس غبارے کے فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہی اس کی ہوا نکال دی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اگلے چوبیس گھنٹے کے دوران نریندر مودی اور ان کے ہمنواؤں نے پاکستان پر فتح حاصل کرنے کے بلند بانگ دعوے کرنا ضروری سمجھا۔ بھارت میں کامیابی کے شادیانے بجنے لگے اور نریندر مودی انتخابی تقریروں میں سینہ پھلا کر اپنی برتری اور قائدانہ صلاحیت کی ڈینگیں مارنے لگے۔ البتہ اگلے ہی روز پاک فضائیہ کے ساتھ ڈاگ فائٹ میں دو بھارتی مگ طیاروں کی تباہی کے علاوہ ایک بھارتی پائلٹ کی گرفتاری سے بھارتی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا۔

مودی اس کے باوجود پاکستان پر کوئی بڑا عسکری حملہ کرنے کے خواہش مند تھے۔ تاکہ وہ خود کو پاکستان پر بالادست قرار دیتے ہوئے انتخابات میں زیادہ بڑی کامیابی کو یقینی بنا لیتے۔ نریندر مودی کی یہ خواہش بظاہر دم توڑ چکی ہے کیونکہ بھارتی حکومت کی جنگ جوئی کے نعرے ہر سطح پر مسترد ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے بھارتی جارحیت کے باوجود امن قائم کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بھارت کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے بھی عسکری تصادم کی مزاحمت کی۔ کیونکہ جنگی ماہرین جانتے ہیں کہ کوئی بھی معمولی جھڑپ کسی وقت خوفناک جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اسی لئے عمران خان نے بھی مودی کو پیغام دیا تھا کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر تصادم کا آغاز ہو گیا تو معاملات پاکستانی یا بھارتی وزیر اعظم کے اختیا رمیں نہیں رہیں گے اور شدید تباہی برصغیر کا رخ کر لے گی۔

دوسری طرف عالمی طاقتوں کو بھی خوف لاحق ہؤا کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ان دو ملکوں کے درمیان تصادم عالمی امن اور خطے کی بہبود و خوشحالی کے لئے شدید ضرر رساں ہوگا۔ اس لئے بھارت کو امریکہ کے علاوہ دیگر ملکوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ جنگ کی باتیں ترک کی جائیں اور صورت حال کو خراب ہونے سے روکا جائے۔ اس کا حوالہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران دے دیا تھا اور پاکستا ن کے وزیر خارجہ نے اب تصدیق کی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو کی سفارت کاری کی وجہ سے برصغیر میں جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔

فوری طور پر پاکستان کے ساتھ تصادم کی صورت حال تو ضرور ختم ہوئی ہے لیکن اب سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اس کے باوجود پلوامہ سانحہ کے بعد رونما ہونے والی صورت حال میں سیاسی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یعنی وہ جس مقصد سے پاکستان کے ساتھ تصادم چاہتے تھے اسے بہرحال حاصل کر چکے ہیں۔ انتخابی دوڑ میں شکست کی طرف جاتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی کے ڈگمگاتے قدم اب پراعتماد ہو چکے ہیں اور اس کے لیڈر نہیات ڈھٹائی سے یہ اعتراف کررہے ہیں کہ بی جے پی پاکستان کے ساتھ جنگ جوئی کی وجہ سے انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں جیتے گی۔ مبصرین اگرچہ اس حوالے سے محتاط ہیں تاہم تین ہفتے قبل نریندر مودی کی انتخابی ناکامی کا خطرہ ٹلنے کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔

نریندر مودی بھارتی فضائیہ کی پاکستان کے خلاف ناکام کارروائی اور پا ک فضائیہ کے ساتھ ڈاگ فائٹ میں شکست کی شرمندگی مٹانے کے لئے پاکستان کے ساتھ مختصر جنگ چاہتے تھے۔ تاکہ وہ بھارت کی کامرانی کا نعرہ لگاتے ہوئے انتخابات میں ووٹروں کو متاثر کرسکیں۔ وہ بظاہر یہ مقصد تو حاصل نہیں کرسکے تاہم اسے پروپیگنڈا کے زور، بھارتی میڈیا کی جانبدارانہ اشتعال انگیزی اور ہندو انتہا پسندی کے بل پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اگر مودی اس حکمت عملی کے سبب اگلے ماہ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو برصغیر میں متوازن رائے سامنے آنے کی امید اور مفاہمانہ ماحول بحال ہونے کی توقع ختم ہوجائے گی۔ وزیر اعظم کے طور پر مودی کی دوبارہ کامیابی بھارت میں سیکولر روایت کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنے گی۔

پاکستان میں عمران خان کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے امید ظاہر کی ہے کہ بھارت میں موجودہ ہیجان اور نفرت کا طوفان انتخابات کی وجہ سے برپا ہے۔ اسلام آباد کا خیال ہے کہ ایک بار انتخابات مکمل ہوگئے تو نئی دہلی میں برسراقتدار آنے والی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہی علاقے میں کشیدگی ختم کرنے اور کشمیر میں بے چینی پر قابو پانے کا واحد راستہ ہے۔ لیکن انتہا پسندی اور جنگ جوئی کے نعروں کی بنیاد پر کامیاب ہونے والے نریندر مودی کی طرف سے اس قسم کی دانشمندانہ پیش قدمی کی توقع کرنا آسان نہیں ہونا چاہئے۔ نریندر مودی اگر نفرت اور تعصب پر استوار حکمت عملی کے باعث دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہیں تو نہ نفرت میں کمی ہوگی اور نہ ہی وہ پاکستان کے ساتھ کسی طویل المدت امن معاہدے کے لئے کام کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ کیوں کہ ایسا کوئی بھی اقدام ان کے ووٹروں کو ناراض کرے گا۔ یوں بھی نفرت کاشت کرنے والے لیڈر خود ہی اس پر قابو پانے کا حوصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔

پاکستان کو ان حالات میں صرف اس امید پر اپنی سفارتی حکمت عملی تیار نہیں کرنی چاہئے کہ بھارت کے ساتھ موجودہ بحران صرف متوقع انتخابات کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے اور ان کے منعقد ہوتے ہی یہ ختم بھی ہوجائے گا۔ پاکستان کو بھارت کے علاوہ اقوام عالم کے ساتھ اپنے تعلقات کو  ایسی بنیادوں پر آگے بڑھانا ہوگا جو پاکستان کو معتدل، متوازن اور امن پسند ملک کے طور پر سامنے لائیں اور دنیا واقعی یہ تسلیم کرنے لگے کہ پاکستان مسائل کا سیاسی اور سفارتی حل چاہتا ہے اور کسی قسم کی پراکسی جنگ عسکریت پسندی کا حامی نہیں۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور تمام ریاستی ادارے محض ماضی کی غلطیوں کا ذکر کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس کی بجائے مستقبل کے لئے بہتر منصوبہ بندی اور طویل المدت حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد سے اگرچہ انتہا پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے اشارے سامنے آئے ہیں لیکن انتہا پسندی، مذہبی عصبیت، نفرت اور معاشرتی افتراق کے خلاف کام کرنے کی ٹھوس حکمت عملی کا کوئی واضح منصوبہ سامنے نہیں آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali