بلاول کی ماں کا نام
جیسا کہ ہم پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں کہ ہم نے کوئی خاص کتابیں نہیں پڑھ رکھیں۔ ہم سے پڑھی ہی نہیں جاتیں۔ دوست احباب اپنی سی کوشش کر کے تھک رہے لیکن ہمارے پلے کیا پڑتا۔ ایک وقت تھا کہ اردو زبان میں لکھنا بھی جوئے شیر کے مترادف تھا۔ ایک ایک بلاگ کو گھنٹوں لگ جاتے تھے۔ خیر سے گواہی بھی آدھی ہے۔ لہذا کسی خاص فلسفیانہ یا علمی ادبی گفتگو کی توقع عبث ہے۔ سچ مانیے تو ہمیں لکھنا بھی نہیں آتا۔ بس طبیعت اس قدر حساس ہے کہ ہر بات کو بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں اور دل کا غبار کاغذ پر رقم کر دیتے ہیں۔ اس نالائقی کی وجہ سے ہم سے یہ بھی نہیں ہوتا کہ کسی کی فرمائش پوری کر پائیں۔ باتیں کرنے کا مرض ہے اس لئے موضوعات کی ہمیشہ سے بہتات رہی ہے۔ لیکن اس پر لکھنا کیسے ہے یہ ایک کٹھن سمسیا ہے۔
آج مانو کا فون آیا۔ اب آپ کہیں گے کہ مانو کون ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ مانو مانو ہے۔ ہماری وہ سہیلی جس نے ہمیں لکھنے کی پٹڑی پر ایسا ڈالا کہ واپسی ناممکن ہے۔ مانو کی عادت ہے کہ اپنی ذات میں خوش رہتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اس کے اندر ایک ملنگ بسا ہے جسے کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ مانو کبھی کوئی فرمائش بھی نہیں کرتی۔ لیکن آج جانے دل میں کیا آئی کہ بولی
’تم نے بلاول کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ لکھو نا۔ ‘
’کیا لکھوں؟ ‘
’کچھ بھی۔ جو بھی دل کہے۔ ‘
مانو مختصر بات کرتی ہے۔ اس نے تو فون رکھ دیا لیکن ہمیں کشمکش میں چھوڑ گئی کہ کیا لکھیں۔ لکھیں بھی یہ نہ لکھیں؟ کہیں لکھ ہی نہ دیں۔
شاید اسی فون کا اعجاز تھا کہ ہمیں بلاول بھٹو زرداری کی اسمبلی میں کی گئی تقریر یاد آئی جس میں اس نے نہایت برجستہ انداز سے نہ صرف حکومت وقت کو لتاڑا بلکہ کالعدم تنظیموں کے بارے میں بھی کھل کر غم و غصے کا اظہار کیا۔ اپنی ماں کی طرح بلاول بھی طنز و مزاح کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ غالبا اس کے مزاج کی شائستگی بھی ماں ہی کی دین ہے۔ اس تقریر کو سن کر ایک لمحے کو تو ایسا لگا کہ شاید بی بی ہی کچھ دیر کو پارلیمنٹ میں لوٹ آئی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ یا شاید تھا۔ ہمیں اتنا نہیں معلوم۔
اس کے بعد جو ہوا اس کو دیکھ کر ایک لمحے کو تو ہم بھی ٹھنک گئے۔ وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے لٹھ مار انداز میں وہ زبان استعمال کی جو کم سے کم ان سے تو متوقع نہیں تھی۔ ہاں ان ہی کی جماعت میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ایسی گفتگو میں ملکہ حاصل ہے لیکن اسد عمر بھی ان ہی کے ہم عمر نکلیں گے یہ اندازہ نہیں تھا۔ خواتین کے عالمی دن سے چند روز قبل ہی کی جانے والی اس تقریر میں انہوں نے ہاتھ نچا کر پہلے تو بلاول کو یہ طعنہ دیا کہ وہ اپنی ماں کا نام اپنے ساتھ کیوں لگاتے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کو ہرانے والے ممبر قومی اسمبلی کو ’نر‘ کا بچہ بھی کہا۔ یہ اصطلاح ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ ہم نے آج تک کسی مرد کو بچہ پیدا کرتے نہیں دیکھا۔ بلاول کی انگریزی پر بھی اعتراض تھا۔ آٹا گوندھتے ہوئے ہلنا تو ایک قومی مسئلہ تھا ہی۔
بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے بھی تھر کے دورے میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ جو قلعی بھارتی حملوں کے دنوں میں چڑھی تھی جھٹ اتر گئی۔ چلئے اچھا ہی ہوا۔ انسان کو اپنی ہی حقیقت سے کیا پردہ کرنا۔ کنٹینر ہے تو کنٹینر ہے۔
جہاں بہت سے لوگوں میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی وہیں ہمیں تو حکومت پر ترس بھی آیا۔ اپنی کارکردگی پر دکھانے کا کچھ نہ ہو تو انسان اسی طرح حواس باختہ ہو کر ارد گرد والوں پر الزام دھرتا ہے۔ کمزور لوگوں کا شیوہ بھی یہی ہے اور روایت بھی۔
ماں کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا سبکی کی بات کیوں ہے یہ ہماری ناقص عقل سے باہر ہے۔ اگر قیامت کے دن لوگوں کو ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا تو زندگی میں کیا قباحت ہے۔ بلاول کی وہی ماں جس نے ان بچوں کو ساتھ لے جا کر نہ صرف گیارہ سال جیل میں بچوں کو باپ سے ملوایا بلکہ دو بار وزارت عظمی کے فرائض بھی سنبھالے۔ سیسہ پلائی دیوار کی طرح موت کا مقابلہ کیا۔ اقوام عالم میں آج بھی بے نظیر ایک سیاسی لیڈر کے طور پر جو مقام رکھتی ہے وہ غالبا آپ کے لئے تمام عمر ممکن نہ ہو۔ جب خدا نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی تو اس کا نام رکھنے میں کیا مضائقہ ہے؟
معاف کیجئے گا اگر اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹے لیکن کیا خان صاحب کے اپنے بچے میانوالی میں رہ کر سرائیکی بولتے ہیں جو بلاول کی انگریزی پر اعتراض ہے؟ بلاول نے اپنی ماں کا نام رکھ کر جو جرم کیا کیا وہی جرم آپ کی اپنی بیٹی نے بھی نہیں کیا؟ کالعدم تنظیموں کے بارے میں بلاول نے جو کہا کیا وہ پہلی بار کہا گیا ہے؟ کیا آپ ہی کے روحانی پیشوا جنرل مشرف اور درانی صاحب اسی گفتگو کے مرتکب نہیں ٹھہرے؟ نام تو آپ کا بھی عمران احمد خان نیازی ہے۔ پھر عمران خان کا سرکاری نوٹفیکیشن کیوں؟
کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ حکومت وقت محض ایک انتقامی مہم پر مامور ہے۔ آپ کا حقیقی کام قانون سازی اور معیشت کو سنبھالنا ہے۔ کبھی وفاقی وزیر اطلاعات سیاسی مخالفین کے بارے میں ہرزہ سرائی کیے جاتے ہیں تو کبھی سابقہ صوبائی وزیر اطلاعات کوئی ایسا طبقہ نہیں چھوڑتے جس کے لیے سطحی زبان استعمال نہ کریں۔ وزیر خزانہ صاحب معیشت کو سنبھالنے کی فکر کیے بغیر بلاول بھٹو زرداری کے شجرہ نسب اور مردانگی کے معیار کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
وزیر خارجہ صاحب کو مسعود اظہر کی صحت کی فکر ہے تو وزیر دفاع صاحب بھارتی حملے پر غائب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی جیسا کہ ’ٹرینڈ‘ نہیں ہیں ان کی جگہ یہی کسر ان کے ترجمان پوری کر دیتے ہیں۔ پچھلی حکومت کے خواتین سے تشدد کے انسداد کے لئے بننے والے ایشیا میں اپنی نوعیت کے پہلے سینٹر کو محض نظروں کا دھوکہ قرار دے دیتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب خود ہمہ وقت کنٹینر پر چڑھے رہتے ہیں کہ حکومت ان کا کام کہاں ہے۔
عین نوازش ہو گی کہ حکومتی عہدے داران اس طرح کی گفتگو کی بجائے ملک کی ترقی میں اپنا آئینی کردار ادا کریں۔ تاکہ تقریروں میں اپنے پراجیکٹس کا ذکر کر سکیں۔ دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کرنے پر بات کر سکیں۔ معیشت کو سہارا دینے کا فریم ورک بیان کر سکیں۔ اپنی کارکردگی پر فخر کر پائیں۔
اپنے مخالفین کی ہر بات سے اس قدر خائف ہونا اور اس پر اپنا ہی اخلاق و حواس کھو بیٹھنا آپ کے منصب کو زیب نہیں دیتا۔ آپ کو خدا نے جو سنگھاسن عطا کیا ہے اس کے شایان شان گفتگو کیجئے۔ آپ ان سب باتوں سے بہت بلند ہیں۔
ہم ذرا مانو کو فون کر کے آئے۔
- بری عورت کا انقلاب - 21/01/2024
- زندگی گزارنے کا سب سے آزمودہ نسخہ - 17/12/2023
- کہانی بدلنی ہو گی - 15/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).