سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو فوراً رہا کیا جائے


سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس وقت کوٹ لکھ پت جیل میں ہیں۔ پاکستان کی اکثریت کو معلوم ہے کہ وہ سیاسی قیدی ہیں اور کرپشن کا الزام صرف دکھاوا ہے۔ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں صرف ایک وہ ہی کرپٹ ہیں کیا؟ جو لوگ پاکستان کی سیاست اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب ضمیر کے قیدی ہیں۔ میاں صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ پاکستان آکر انہیں قید کر لیا جائے گا۔

وہ الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر وہ اپنے اصولوں کی خاطر بستر مرگ پر پڑی اپنی بیوی کو چھوڑ کر وطن واپس چلے آ ئے۔ اس وقت بھی میاں صاحب پاکستان کے اصل حکمران، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر اصولی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہیں اس لیے انہیں قید میں رکھ کر اس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف شوگر اور دل کے مریض ہیں۔ ایک ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے مجھے معلوم ہے کہ ان دونوں بیماریوں کا امتزاج کسی وقت بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوٖں نے جیل سے ہسپتال جا کر اپنا علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ میں اگر ان کی جگہ ہوتی تو یہی کرتی۔ پچھلے سال جب ان کو پمز لے جایا گیا تو پی ٹی آئی کے سپورٹروں نے ہسپتال کے باہر نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی کے سپورٹر ڈاکٹروں نے بھی ان کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ایک دو ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ پاکستان کی میڈیکل اور ڈینٹل ایسوسییشن کو ان ڈاکٹروں کے خلاف سخت قدم لینا چاہیے تھا اور ان ڈاکٹروں کو معطل کر دینا چاہیے تھا کہ پھر کسی ڈاکٹر کو میڈیسن کے اس بنیادی اخلاق کی خلاف ورزی کی ہمت نہ ہوتی جس کا حلف ہر ڈاکٹر اٹھاتا ہے۔

ڈاکٹر جب اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں تو ان کا کام ہر مریض کا مکمل طور پر پیشہ ورانہ طریقے سے دل جوئی کے ساتھ علاج کرناہے نہ کہ سیاست کرنا۔ بدقسمتی سے ملک میں کچھ سیاست دانوں نے گالی گلوچ اور بدتمیزی کی ایسی فضا قا ئم کر دی ہے کہ ان سیاست دانوں کے پیروکار ڈاکٹروں کو اپنے میڈیکل کے علم اخلاقیت کی بھی پروا نہیں رہی۔ جو لوگ یہ اصرار کرتے ہیں کہ میاں صاحب اپنا علاج پاکستان میں ہی کروائیں وہ سابق ملیٹری ڈکٹیٹر، جنرل مشرف پر یہ اعتراض کیوں نہیں کرتے۔

انہیں صرف بلڈی سولین کے رہنما پر ہی یہ اعتراض کیوں ہے۔ اگر میاں نواز شریف لندن میں اپنے پیسوں سے اپنا علاج کروا سکتے ہیں تو آپ اور میں اعتراض کرنے والے کون ہیں؟ میں اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو تنبیہ کرتی ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ماضی کی طرح سویلین رہنماؤں پر آپ کے اس طرح کے سلوک کا اب بھی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔ آپ اس زعم میں نہ رہیں کہ مسلم لیگ کا ورکر گلیوں اور کینٹینروں کی سیاست نہیں کرتا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہونے کی صورت میں شہباز شریف بھی ان کو کنٹرول نہ کر سکیں۔ مسلم لیگی ویسے بھی شہباز شریف اور دوسرے رہنماوٗں کی اس معاملے میں خاموشی کو دیکھ رہے ہیں اور انہیں اپنا اصل لیڈر نہں مانتے۔ اس وقت پاکستان کی اکثریت کو اس سب حربوں کی خبر ہے اور وہ شاید اس بار آپ کو معاف نہ کر سکے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کی حالت بہت خراب ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ملک جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور آپ اکثریت کے لیڈر کو انا کی وجہ سے سیاسی قیدی بنا کر اس کی زندگی خطرے میں ڈال کر بیٹھے ہیں۔

یہ نہ صرف اکثریت کے خلاف سازش ہے بلکہ ملک کی جمہوریت کے خلاف سازش ہے جس میں حصہ لینا کسی بھی محب وطن کو زیب نہیں دیتا۔ لہذا ملک کے سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو غیر مشروط طور پر رہا کر کے ان کو اپنے علاج کے لیے فوراً لندن جانے دیا جائے۔ یاد رہے کہ کسی بھی ملک کی طاقت اس کے اندرونی اتحاد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج عوام کی حمایت سے مضبوط ہوتی ہے، مہنگے ہتھیاروں اور فوجیوں کی تعداد سے نہیں۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi