پنجابی، پنجابی بولنے سے کیوں شرماتے ہیں


ہم نے پنجابی بولنے والوں پہ پینڈو یا کم مہذب ہونے کا داغ کافی حد تک دھو ڈالا کہ اب خاصی خواتیں اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتیں۔ ہمارے واپس آنے کے بعد ہماری دوست نے ہمیں بتایا کہ لوگوں کو بعض دفعہ یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنا پڑھا لکھا ہو کے پنجابی بول سکتا ہے۔ ”طاہرہ جی! تسی تے ایتھے دا کلچر ای بدل چھڈیا“۔

وقت اور آگے بڑھا۔ اب ہم ایک ایسے اسپتال میں کام کر رہے تھے جہاں دنیا کے مختلف ممالک کے علاوہ، بھارت کی مختلف ریاستوں کے لوگ بھی کام کر رہے تھے۔ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ انہیں اپنی مادری زبان اور انگریزی کے علاوہ اپنی قومی زبان، ہندی کی الف بے بھی پتا نہ تھی، ملیالی، تیلگو، مدراسی، تامل، گجراتی۔ سب اپنی اپنی زبانوں کا جادو چلا رہے تھے۔ بنگالی، بنگلا کے ساتھ خوش تھے۔ ایرانی اپنی فارسی پہ نازاں، اطالوی، فرانسیسی، سپینی اپنی پہ اور عرب تو ویسے ہی اپنی زبان کو جنت کی زبان مانتے ہیں۔ اور ان سب میں بیچارہ پنجابی، انتہائی کنفیوزڈ، اپنے ڈھیلے ڈھالے لہجے پہ شرمندہ، اپنے بچوں کو پنجابی تلفظ کے ساتھ اردو سکھانے کا شوقیں، اردو دانوں کی تمسخر بھری نظروں کا شکار، اپنی زبان کو ترک کرنے کا متمنی۔

آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک بھرپور ثقافت، اور زبان کی حامل قوم کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ وہ اپنی زبان بولنے سے کترانے لگی، اپنی زبان کو کم تر سمجھتے ہوئے اپنی نسلوں تک اپنی زبان کی منتقلی روک دی گئی۔ ایسا تقسیم کے بعد پاکستانی پنجاب کے ساتھ ہوا۔ جب بھارتی اردو دان مسلمان ہجرت کر کے آیا اور پنجاب میں آباد ہوا، اسے پنجابی سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور اسے لگا کہ پنجابی کا درجہ اردو سے نیچے ہے اور یہ اردو کی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہے کیوں کہ بہت الفاظ ملتے جلتے تھے۔

دوسرا پنجابی کلچر تھوڑا لاؤڈ تھا۔ لہجہ اونچا تھا، الفاظ تھوڑے ڈھیلے پن کے ساتھ بولے جاتے تھے سو تصور یہ کیا گیا کہ یہ اجڈ زبان ہے، شایستگی اور شستگی سے دور اور یہ احساس دیہاتی رہن سہن والے پنجابیوں میں بہت کامیابی سے منتقل بھی کر دیا گیا۔ اور پنجابی قوم جو ہجرت کرنے والوں کی تعلیم و مرتبے سے مرعوب تھی فورا ہی ہتھیار ڈالنے پہ تیار ہو گئی اور پنجابیوں کی اگلی نسل کی زبان فورا اردو میں بدل گئی۔ ایسا سندھیوں، بلوچیوں اور پٹھانوں کے ساتھ نہ ہو سکا کہ ان کی زبان سمجھ میں ہی نہیں آتی تھی۔ سو ان پہ حملہ کرنے سے پہلے ان کی زبان سیکھنا ضروری تھا۔

اردو دان طبقے کا فخر بالکل ہی خود ساختہ نہیں تھا، وہ زبان جو بھارت کی بہت سی زبانوں میں سے ایک تھی، مملکت خداداد کی قومی اور سرکاری زبان قرار پائی تھی۔ اب اردو دان ہی زیادہ تر ارباب اختیار تھے جو کسی اور زبان کے لئے دامن وا کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ بنگالی جو اس وقت کے اکثریت کے عوام کی زبان تھی، کو نظر انداز کیا گیا، ان کے انیس سو باون کے احتجاج کو قوت سے دبایا گیا اور نتیجہ بہت سالوں بعد سب نے دیکھا۔

بھارتی پنجاب اس تعصب سے محفوظ رہا اور آج بھی سکھوں کے گھروں میں پنجابی ہی کا دور دورہ ہے۔ اور وہ لوگ اپنی زبان پہ نازاں بھی ہیں کہ مادری زبان سب کو اچھی ہی لگا کرتی ہے چاہے آپ اپنے پروفیشن اور تعلیم کے لئے کتنی ہی زبانیں سیکھ لیں۔ میں ایک محفل میں موجود تھی جہاں بھارت سے تعلق رکھنے والے کافی لوگ تھے۔ میرے پنجابی میں کوئی جملہ بولنے پہ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون پوچھنے لگیں ”لگتا ہے آپ سکھ ہیں“۔ میری حیرانی کے بعد گویا ہوئیں کہ پنجابی تو سکھوں کی زبان ہے نا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کا اردو پہ احسان ہے۔ ہم نے اردو بولی اور اردو کو اپنا مانا۔ چاہے مذاق اڑا ہمارے لہجوں اور تلفظ کا، مگر بچوں کو اپنی قومی زبان سے روشناس کروایا۔ اور اپنی مادری زبان قربان کر ڈالی۔ پنجابیوں کے ظرف کا، اہل زبان کو مذاق اڑانے کی بجائے اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اور پھر اردو کے عظیم ترین شاعر، اقبال اور فیض بھی تو پنجابی ہی ٹھہرے۔ جو اپنے قلم سے اردو کو حیات جاوداں بخش گئے۔ دوسری طرف یہ غور کیجیے کیا اردو دانوں نے پنجاب کو اپنا وطن بنانے کے بعد پنجابی سیکھنے کی کوشش کی۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیے، نئے آباد کار مقامی زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فاصلے مٹانے کی سب سے پہلی کوشش یہی ہے۔

حضور! احساس برتری کے بجائے ذرا دو لفظ پنجابی کے بول کے تو دکھائیے۔ ہم بھی دیکھیں دلی اور لکھنو کے پروردہ پنجابی بولتے ہوئے کیسے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2