نواز شریف کی علالت اور اس کے مضمرات


سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علالت سنگین صورت اختیار کرچکی ہے اور حکومت پریشانی اور ہمدردی کا اظہار کرنے کے باوجود ان کے معاملے میں کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یہ کہنا محال ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم اپنے سیاسی مخالف اور سابق وزیر اعظم کوبہر صورت جیل میں بدترین حالت میں مقید رکھنا چاہتے ہیں۔ بظاہر نواز شریف کی صحت اور ان کے علاج معالجے کے حوالے سے ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں اور وہ چاہنے کے باوجود بہتر سہولیات فراہم کرنے یا ہمدردی ظاہر کرنے کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ نواز شریف کو نیب کے دائر ریفرنسز میں احتساب عدالتوں نے سزائیں دی ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ میڈیکل گراؤنڈ پر ان کی ضمانت لینے سے انکار کرچکی ہے۔ اب نواز شریف کی طرف سے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

ملک بھر میں نواز شریف کے سیاسی مخالفین اور حامیوں میں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے لئے یہ مشکل صورت حال ہے۔ وہ اگر اپنے منتخب کردہ صدر کے ذریعے سابق وزیر اعظم کی سزا کو معاف کروانے کا اعلان کرتی ہے تو کرپشن کے خلا ف عمران خان کے بیانیے کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اور اگر وزیر اعظم اس معاملہ پر کوئی قدم اٹھانے سے معذور رہتے ہیں اور جیل کی صعوبت اور بیماری کی شدت سے نواز شریف کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو یہ سیاسی طور سے حکومت اور تحریک انصاف کے لئے ایک خطرناک اور مشکل صورت ہوگی۔ لیکن اس بحران سے نکلنے کا راستہ بھی حکومت کو ہی کھوجنا ہے۔

نواز شریف کی سنگین بیماریوں کے بارے میں دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن ان کے علاج کے حوالے سے شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کو ملک میں دستیاب بہترین سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں اور سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل متعدد میڈیکل بورڈ ان کا معائینہ کرچکے ہیں۔ اب مریم نواز کی خواہش اور مطالبہ پر کوٹ لکھپت جیل میں ایک خصوصی میڈیل کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے جس میں دل کے امراض کا کوئی ماہر ڈاکٹر ہمہ وقت دستیاب ہو گا۔ حکومت نواز شریف کو ان کی مرضی کے ہسپتال میں منتقل کرنے کا وعدہ بھی کررہی ہے۔ اس قسم کے اعلانات سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سیاسی اختلاف کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم کی صحت سے لاپرواہی نہیں برت رہی۔

تاہم نواز شریف اور ان کے لواحقین جن میں ان کی صاحبزادی مریم اور بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف بھی شامل ہیں، نواز شریف کے ناقص علاج کا شکوہ کرتے ہیں۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ کہ ان کامعائنہ کرنے کے لئے بورڈ ضرور بنائے جاتے ہیں لیکن ان کی سفارشات پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک سے دوسرے ہسپتال لے جا کر اور ایک کے بعد دوسرا میڈیکل بورڈ بنا کر حکومت دراصل ان کی تذلیل کررہی ہے۔ اسی لئے اب انہوں نے کسی بھی ہسپتال میں منتقل ہونے سے انکار کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ پر شاکر ہو کر جیل ہی میں رہیں گے اور وہیں اپنی بیماری کا علاج کروائیں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا طبی لحاظ سے یہ دانشمندانہ فیصلہ ہے یا نہیں لیکن سیاسی طور سے یہ فیصلہ حکومت کے لئے ایک ایسے وقت میں ایک مختلف قسم کی مشکل میں اضافہ کا سبب ضرور بن رہا ہے جب وہ پہلے ہی دگرگوں معاشی صورت حال کے علاوہ، بھارت کی طرف سے جاری جارحیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

طبی سہولتوں کے حوالے سے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ کے آخر میں نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انہیں بہترین سہولتیں فراہم ہیں اور کسی رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ تاہم کوئی بھی ڈاکٹر اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتا کہ بیک وقت دل کے عارضہ، ذیابیطس اور گردوں کی تکلیف میں مبتلا شخص کی حالت بگڑ نہیں سکتی۔ یہی نکتہ ملک کے بیشتر لوگوں اور خاص طور سے حکومت وقت کے لئے تشویش اور پریشانی کا سبب ہونا چاہیے۔

نواز شریف کے معاملہ میں یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کہ قیدی کے طور پر انہیں جو سہولتیں حاصل ہیں، ملک کی جیلوں میں سزا بھگتنے والے ہزاروں دوسرے لوگ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نواز شریف نہ تو عام قیدی ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ رونما ہونے والے کسی ناگہانی سانحہ کے نتائج کسی عام قیدی کی جیل میں موت کے مماثل ہوں گے۔

یہ بات فنی طور سے درست ہے کہ نواز شریف کو احتساب عدالت نے مالی بدعنوانی کے الزام میں قید کی سزا دی ہے۔ تاہم ایک تو یہ فیصلہ ابتدائی عدالت سے صادر ہؤا ہے۔ اس پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو ابھی اپنا فیصلہ دینا ہے۔ تاہم ملک کے مروج قانونی نظام میں یہ دورانیہ کئی برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اس معاملہ پر بات کرتے ہوئے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جیلوں کے حالات ہوں یا قانونی نظام کی پیچیدگیاں، ان کو درست نہ کرنے کی ذمہ داری بھی انہی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے جو اس وقت اس نظام کی شکایت کررہے ہیں۔ یہ اعتراض اٹھانے کے باوجود یہ نکتہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ نواز شریف یا کسی دوسرے سیاسی لیڈر کے ساتھ ملک کا نظام عدل جو رویہ اختیار کرے گا اس کے سیاسی مضمرات ہوں گے۔ لیڈر کی مقبولیت جتنی زیادہ ہوگی، نتائج اتنے ہی سنگین ہو ں گے۔

اس طرح کسی طویل بحث میں پڑے بغیر یہ حقیقت خود کو تسلیم کروا رہی ہے کہ نواز شریف کوئی عام مجرم نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو ملنے والی سزا کو صرف ان کے جرم کی سزا کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ بلکہ کسی بھی سیاسی لیڈر کے ساتھ عدالتوں اور جیلوں میں جو سلوک ہو گا وہ ملک کے سیاسی حالات پر اثر انداز ہو گا۔ نواز شریف کے قد و قامت کے لیڈر کے ساتھ برا سلوک یا انہیں شدید بیماریوں کے باوجود جیل میں قید رکھنے پر اصرار کسی طور ملک کے موجودہ بحران اور خطرناک صورت حال میں وسیع تر قومی مفاد میں نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم عمران خان نے شدید سیاسی مسائل، معاشی چیلنجز اور ہمسایہ ملک کی جارحیت کے باوجود اپوزیشن کے ساتھ مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے اور مسائل سے نمٹنے کے لئے اشتراک عمل پیدا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ اس کا تازہ ترین اظہار بلاول بھٹو زرداری کی قومی اسمبلی میں بزبان انگریزی تقریر کا تمسخر اڑانے کی ناقابل فہم کوشش سے بھی ہؤا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ملک جب کسی بیرونی خطرہ کا سامنا کرتا ہے تو اس کی سب سیاسی قوتیں مل کر اس کا مقابلہ کرتی ہیں۔

پاکستان میں یہ اشتراک صرف اس حد تک دکھائی دیتا ہے کہ بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیزی کے خلاف سب پارٹیوں نے آواز اٹھائی ہے لیکن حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کے لئے ایک بڑا سیاسی پلیٹ فارم بنانے اور سیاسی مخالفین سے مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کا اظہار وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی تقریروں سے بھی ہوتا رہتا ہے۔

یہ رویہ عمران کی غیر ضروری خود اعتمادی کا مظہر ہونے کے علاوہ اس حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ خارجہ اور سلامتی امور میں فوج پوری طرح اس کے ساتھ ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں حکومت اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو فوج اختیار کرنا چاہتی ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران، امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات فوجی سربراہ کی رائے کے مطابق تشکیل پارہے ہیں اور اب انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے بھی وہی لائحہ عمل اپنایا جارہا ہے جو فوج کی گائیڈ لائن کے مطابق ہے۔

فوج کے ساتھ اس پر اعتماد اشتراک کی صورت میں عمران خان ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کے ساتھ کسی مفاہمت یا مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ پالیسی جمہوری ضرورتوں کے برعکس ہونے کے باوجود اس وقت تحریک انصاف کے اقتدار کے لئے اہم بنیاد بنی ہوئی ہے۔ تاہم عمران خان اگر یہ باور کرسکیں کہ انہیں جب بھی کوئی سیاسی خطرہ لاحق ہؤا تو اس میں ان کی سیاسی دور اندیشی اور سمجھ بوجھ ہی کام آئے گی۔ ایسی صورت میں فوج بہت دیر تک ان کا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ ایسی کوئی صورت حال جیل میں نواز شریف کے ساتھ برتی جانے والی بدسلوکی کے نتیجے میں رونما ہو سکتی ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ نواز شریف کو کن جرائم میں سزا دی گئی ہے، یہ بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں احتساب کا نظام ناقص ہے اور اس پر سیاسی لیڈروں کے علاوہ عدالتوں کی طرف سے بھی سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی بدعنوانی کو قومی سیاسی ایجنڈا میں سر فہرست لانے کا مقصد اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے اگر ان کے خلاف قائم مقدمات میں مکمل شفافیت ہو۔ اس کے علاوہ حکومت اور عدالتوں کو مل کر کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرسکتی ہیں کہ سیاسی لیڈروں کے خلاف احتساب عدالتوں کے مقدمات پر کسی خاص مدت کے اندر فیصلے کیے جائیں۔ اہم لیڈروں کو ایسے مقدمات پر اعلیٰ ترین عدالت سے حتمی فیصلہ آنے سے پہلے جیل بھیجنے سے گریز کیا جائے۔

ملک کے اہم سیاسی لیڈروں کے خلاف مقدمات دہائیوں پرانے ہیں۔ ان معاملات پر انصاف سے زیادہ سیاست کی جاتی رہی ہے۔ عمران خان نے خود اس معاملہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم نواز شریف کی علالت اور جیل میں مقید ہونے کی وجہ سے جو مشکل صورت سامنے آرہی ہے، اس سے سبق سیکھتے ہوئے یہ طریقہ بدلنے اور قانون کو شفاف طریقے سے اپنا راستہ بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔

جس طرح سیاسی لیڈروں کو مشکوک مقدمات میں جیل میں ڈالنے سے معاملات طے نہیں ہوسکتے، اسی طرح کرپشن کو سیاسی ایجنڈا بنانے سے انصاف کی شفافیت کامقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان اگر اس پہلو کو سمجھ سکیں تب ہی وہ نواز شریف کی صورت میں سامنے آنے والے اندیشے سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali