فرائض سے غفلت اور حقوق خود ساختہ جنگ


مارچ کا مہینہ بچپن سے ہی ہمارے لئے اہم رہا ہے۔ کیونکہ اس روشن اور اجلی دھوپ والے مہینے کی 31 تاریخ کو ہماری کامیابی و نا کامی کا فیصلہ ہوا کرتا تھا۔ سرکاری سکولوں میں 31 مارچ کو کلاسز کا سالانہ رزلٹ نکلا کرتا اور کچھ لوگ کامیابی کے زینے طے کرتے اگلی کلاسوں میں منتقل ہو جاتے اور کچھ دوست مزید وہی تعلیم سیکھنے کے لئے اسی کلاس کا حصہ رہتے۔ اپنے فرائض نبھانے والے خوشی خوشی گھروں کو لوٹتے اور اساتذہ سے صرف اپنے حقوقِ کا رونا رونے والے نم آنکھوں کے ساتھ گھر کی راہ لیتے۔

بچپن سے لڑکپن کی دہلیز پہ پہنچے تو 23 مارچ 1940 کی قرارداد بھی کچھ سمجھ میں آنے لگی اور ”مارچ“ کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔ لڑکپن سے جوانی کی طرف آئے تو 8 مارچ ”خواتین کا عالمی دن“ کے متعلق معلومات ملیں کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک دن متعین کیا گیا ہے جس میں خصوصاً ان عورتوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے نہ صرف فلاح معاشرہ کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا بلکہ آزادی کی تحریکوں میں بھی اپنے وجود کا کردار درست ثابت کیا۔

8 مارچ 2019 کو گزرے پانچواں روز ہے اور حقوقِ نسواں کے حوالے سے پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا پہ اتنا کچھ دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملا ہے کہ آج لکھنے کے بھی جرات کیے بیٹھا ہوں۔

کچھ یار لوگ حقوقِ نسواں کو منوانے کے لئے اتنا آگے گئے کہ خود بھی خواتین کا روپ دھارے نظر آئے اور کچھ لوگ دوسری انتہا پہ کھڑے دکھائی دیے۔ بات عورتوں کے حقوق سے آگے نکل کر ہار اور جیت پہ منتج ہوئی۔ کوئی عورتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ عورتوں کے اٹھائے پلے کارڈز کو درست ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملا تے نظر آئے اور کچھ لوگ عورتوں کے فرائض پہ بحث کر کے مرد کو مظلوم بنا کر مردانہ برتری ثابت کرتے رہے۔ سب سے خوبصورت جملہ جو میری نظر سے گزرا ”حقوق نہ اسلامی ہوتے ہیں نہ غیر اسلامی حقوق صرف انسانی ہوتے ہیں“ ایک دوست نے لندن سے لکھا اور کیا کمال کا سچ لکھا۔

اور عورتوں کے حقوق کے حوالے جو سوال سب سے زیادہ سننے کو ملا ”کیا عورت کو وراثتی حقوق اسلام کے مطابق دیے جاتے ہیں“؟ تھا جس کو سن کر میرے جیسے لوگ بات کو دوسرے رخ پہ موڑنا غنیمت سمجھتے رہے۔

بے شک جنسی ہراسمنٹ اور عورتوں کے وراثتی حقوق غصب کرنا ہمارے معاشرے کی کریہہ شکل ہے مگر اس کے لئے ”ڈک کی پک پاس رکھو“ صحیح سے بیٹھ گئی ”بستر خود گرم کر لو“ جیسے قبیح پلے کارڈز اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو ایسی خبریں بھی نظر سے گزرتی ہیں جس میں مرد جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہوتا ہے مقصد چونکہ کسی ذات کو نیچا دکھانا نہیں صرف معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرنا ہے کیونکہ عورتیں ہی زیادہ جنسی شکار ہوتی ہیں اس لئے مظلوم بھی عورت ہی کو لکھوں گامیں۔

اپنے فرائض سے جو بھی غفلت برتیں (خواہ عورت ہوں یا مرد) ان کا حقوق مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حقوق کی بات انہی زبانوں سے اچھی لگتی ہے جو اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دیں۔ کچھ دن پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے فرمایا تھا کہ ڈیم فنڈ بنانے کا مقصد ڈیم بنانا تھوڑی تھا یہ تو صرف آگاہی مہم تھی آگاہی مہم کی آڑ میں اپنے منصب کو کتنا نقصان پہنچا گئے یہ اب ایک تلخ تاریخ ہے۔ بالکل اسی طرح عورتوں کے حقوق کے لئے متنازعہ بینرز اٹھانا بھی مقصد حقوق دلانا تھوڑی تھا یہ تو تشہیر تھی متوجہ کرنا تھا جو پورا ہوا۔

طالب شہرت ہوں مجھے وجہ سے کیا مطلب

بدنام ہوں گے تو۔ کیا نام نہ ہو گا

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا انسان پہ سب سے زیادہ حق کس کا ہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”ماں کا حق سب سے زیادہ ہے“ تین بار پوچھا گیا اور تینوں بار یہی جواب ملا کہ ”ماں کا حق سب سے زیادہ ہے“

”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“

ان حقوق سے زیادہ حقوق بھی چاہیے ہوتے ہیں کسی عورت کو کیا؟

مگر یہ جنت انہی ماؤں کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے جو اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتتیں۔ اور ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورتوں کے حقوق کا استحصال صرف مرد ہی نہیں عورت خود بھی کرتی ہے۔ ساس کب کسی بہو کو حق دیتی نظر آتی ہے یہ وہی عورت ہوتی ہے جو پلے کارڈز اٹھا کر گھروں کو آیا اور نوکرانیوں کے حوالے کر کے عورتوں کے حقوق کی خود ساختہ جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔ نہ عورتوں کا اسلام وراثتی حقوق سے آگے نکل سکا ہے اور نہ ہی مردوں کا اسلام چار بیویوں کی حدور پار کر سکا ہے۔

اگر اس معاشرے کو امن کی راہ پہ لانا مقصد ہے تو صرف انسانی حقوق جو ہر انسان (مرد وعورت ) کا پیدائشی حق ہے وہ ایک دوسرے کو دینے ہوں گے۔ معاشرے سے بغاوت کر کے نہ مرد ترقی کر سکتا ہے اور نہ عورت ہی فلاح پا سکتی ہے۔ جب دونوں گاڑی کے پہیوں کی مانند ہیں تو دونوں کو اپنا اپنا مخصوص کردار نبھانا ہو گا یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں ایک ٹائر کی جگہ لے لیں اور دوسری جگہ خالی چھوڑ دیں۔ تعلیم و تربیت انسان (مرد و عورت ) کا بنیادی انسانی حق ہے اگر یہ حق عورت کو۔

برابری کی سطح پہ دیا جائے گا تو مرد کے لئے مسائل سر نہیں اٹھائیں گے بلکہ مسائل ہوتے نظر آئیں گے۔ ضروری یہ نہیں ہوتا کہ خواتین نوکری کریں گی تو تبھی حقوق حاصل کر پائیں گی بلکہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ وہ مصلحت اور اپنی تعلیم و تربیت کے بل بوتے پہ کس طرح مردوں کے شانہ بشانہ چلیں گی کہ انتشار بھی نہ بنے اور مقصد بھی حاصل ہو جائے۔

سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے شاید انہی مصلحتوں کے لے کہا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).