نیا میثاق جمہوریت!


یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پابند سلاسل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے کوٹ لکھپت جیل میں پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو کی ملاقات باسی کڑی میں ابال ہو گی یا تاریخ ساز! پیپلزپارٹی کے مطابق بلاول بھٹو میاں نوازشریف کی مزاج پرسی کے لیے گئے تھے ، اس کے سیاسی محرکات نہیں تھے لیکن پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے بزرجمہروں کے درمیان ملاقات ہی ایک سیاسی قدم ہے۔

بلاول بھٹو نے کوٹ لکھپت جیل کے باہر جہاں جیالوں نے نہ جانے کیوں جشن کا سماں باندھا ہوا تھا،گھوڑوں کا ناچ ہو رہا تھا ، غبارے اڑائے جا رہے تھے انکشاف کیا کہ ملاقات میں میثاق جمہوریت کا دائرہ کار بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے ۔

خیال تو بڑا نیک ہے لیکن ایسی باتیں ہماری سیاسی جماعتوں کو صرف اپوزیشن میں بیٹھ کر ہی کیوں یاد آتی ہیں ۔پہلا میثاق جمہوریت مئی 2006ء میں لندن میں میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان اس وقت ہوا تھا جب دونوں رہنما پرویزمشرف کی عائد کردہ جلاوطنی کی سزا کاٹ رہے تھے ۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی برسر اقتدار آئی اور میثاق جمہوریت پرعمل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو مالی طور پر مضبوط کیا گیا اور 1973ء کے آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری کو تقویت دی گئی۔ ملک میں پہلی مرتبہ میڈیا پر کوئی قدغن نہیں تھی اور نہ ہی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔

قومی اسمبلی میں بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پیپلزپارٹی اور اپوزیشن میں اچھا تال میل تھا لیکن میاں برادران سے زیادہ صبر نہ ہوسکا اور وہی پرانے ہتھکنڈے آزمائے جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں اختلافات کا آغاز 2009 ء میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی نااہلی کے بعد صدر آصف زرداری کی جانب سے پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ اور اختیارات گورنر سلمان تاثیر کو دینے سے ہوا تھا ۔

بعدازاں میاں نوازشریف مقتدر قوتوں کی خوشنودی کے لیے کالا کوٹ پہن کر پاکستان کے امریکہ میں سفیر حسین حقانی کے خلاف میمو گیٹ کیس میں جس کا اصل ہدف آصف زرداری اور ان کی حکومت تھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

اس دور میں برادر خورد شہبازشریف کو حبیب جالب یاد آنا شروع ہو گئے اوراکثر اپنے جلسوں اور اجلاسوں میں ترنم کے ساتھ جالب کے شعر گنگنانے لگے ۔ ایسے دستورکو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا اس پر مستزادیہ کہ جوش خطابت میں شہبازشریف یہ کہتے ہوئے کہ زربابا اور چالیس چوروں کو نہیں چھوڑوں گا مائیک تک توڑ دیتے تھے ۔

جب میاں نواز شریف نے انتخابات جیتے تو آصف زرداری نے انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے انھیں خوشدلی سے ’جی آیاں نوں‘ کہا۔ میاں صاحب کی نیت صاف نہیں تھی اس کے باوجود 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے موقع پر آصف زرداری نے ان کی حکومت کو بچایا لیکن جب آصف زرداری کی اس وقت کی فوجی قیادت سے ٹھنی تو میاں صاحب صاف طرہ دے گئے اور ان کے اعزاز میں طے شدہ ظہرانہ بھی منسوخ کر دیا۔

بعدازاں لند ن میں جب میاں نوازشریف کا بائی پاس ہوا تو آصف زرداری نے ان کی مزاج پرسی نہیں کی تھی اور صحت یاب ہونے کے بعد میاں صاحب پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سے ملاقات کرنے کے لیے لندن کی خاک چھانتے رہے لیکن زرداری صاحب ان کے ہاتھ نہ آئے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی لغزش میثاق جمہوریت کی روح کے مطابق 1973ء کے آئین میں باقیات ضیاء ترامیم کو ختم نہ کرنا تھا۔ خاص طور پر آرٹیکل 62اور 63جن کے تحت کسی بھی سیاستدان کو صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح نیب کی جگہ منصفانہ ،بے لاگ اور شفاف احتساب کے نظام کے لیے پارلیمنٹ میں کوئی سعی نہیں کی گئی۔

اب جیل میں ملاقات کے دوران مبینہ طور پر نوازشریف نے یہ بات تسلیم کی کہ آرٹیکل 62اور 63کو ختم کر دینا چاہیے تھا لیکن جب میاں صاحب پراقتدار کا بھوت سوار تھا ان کی سوچ صرف اس حد تک تھی کہ کل کو ایسی شقیں ان کے خلاف نہیں بلکہ ان کے مخالفین کے خلاف استعمال ہونگی ،نیب کے بارے میں بھی یہی طرز عمل تھا لیکن یہ کہ دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ کو بعداز خرابی بسیار یہ احساس ہے کہ ’لو اپنے دام میں صیاد آ گیا‘ ۔

اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ اس وقت لاڈلے وزیراعظم عمران خان کا طوطی بول رہا ہے اور تمام اپوزیشن کو نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے دیوار سے لگا دیا گیا ہے ۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کا ایک دوسرے کو جپھی ڈالنا فطری ہے۔

دونوں جماعتوں کا دوبارہ مل کے کریں آہ وزاریاں‘کرنا فطری امر ہے ۔دونوں جماعتیں اس وقت کے انتظار میں ہیں کہ کب عمران خان کمزور ہوں اور یہ شب خون ماریں ۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا تجزیہ ہے کہ یہ گاڑی زیادہ عرصہ نہیں چلے گی لیکن فی الحال عمران خان کی حکومت کی اقتصادی اور گورننس کے محاذ پر کمزوریوں بلکہ کوتاہیوں کے باوجود موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان مثالی تال میل ہے ۔

جس کی روشنی میں پارلیمنٹ کی حد تک تو محاذ آرائی جاری رکھی جا سکتی ہے لیکن عوام کو سٹرکوں پر لانے کا وقت ابھی نہیں آیا کیونکہ ایسی کوششیں ایک مخصوص ماحول میں ہی باور آور ہوتی ہیں ۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ میاں نوازشریف واقعی شدید علیل ہیں اور دل کے مریض کا علاج تناؤ میں نہیں ہو سکتا۔

انھیں بہتر علاج کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔درحقیقت جو ڈاکٹرز میاں نوازشریف کے میڈیکل کیس سے بخوبی آگاہ ہیں ان کی مسلمہ رائے ہے کہ انھیں دل کے عارضے کے علاج کی فوری ضرورت ہے اور یہ معاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ اگرکوئی پروسیجر کرنا پڑا جس میں سٹنٹنگ یا انجیو گرافی شامل ہیں تو پاکستان کاکوئی بھی ڈاکٹر انھیں ہاتھ لگانے سے ہچکچائے گا ۔لندن میں جب ان کا دوسری بار دل کا پروسیجر کیا گیا تو ان کی ایک آرٹری پنکچر ہو گئی تھی اور خوش قسمتی سے ہی ان کی جان بچی تھی ۔

حکومت کو بھی اپنے زیراہتمام کروائے گئے متعدد میڈیکل بورڈزسے اس حقیقت کا کسی حد تک ادراک ہو گا ۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب پاکستان کے جس ہسپتال سے علاج کروانا چاہیں کروا سکتے ہیں لیکن شاید انھیں علاج کے لیے اپنے معالج کے پاس لندن بھیجنے کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا ، خواہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ذریعے ہو یا حکومت خود کرے۔

کیونکہ حکومت بھی نہیں چاہے گی جیسا کہ خورشید شاہ نے کہا کہ نوازشریف کو کچھ ہواتو ذمہ دار حکومت ہو گی ۔ جہاں تک بلاول بھٹو کی اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہو رہا ان کا تجزیہ درست ہو گا لیکن جی ٹی روڈ والے نوازشریف اور منہ سے آگ برسانے والی محترمہ مریم نواز کی خاموشی معنی خیز ضرورہے ۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی تو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).