ناک پہ غصہ دھرا ہوا


8 مارچ کو گزرے کئی روز ہو گئے۔ کوئی خواتین مارچ ہوا تھا۔ کوئی پلے کارڈز کا مسئلہ تھا۔ کچھ کے لیے ان پہ لکھے نعرے درست تھے، کچھ کے لیے نہیں، کچھ کی نگاہ میں معیوب تھے کچھ کی نظر میں دلچسپ۔ کچھ نعرے گذشتہ برس کے تھے جیسے ”میں کھانا گرم نہیں کروں گی“ کچھ نئے تھے جیسے ”اپنا بستر آپ گرم کرو“ اگرچہ یہ نعرہ ناقابل فہم ہے، اور جو سمجھا جا سکا وہ ناقابل عمل۔ میں Misogynist نہیں ہوں مگر چونکہ آگاہ ہوں کہ فیمینزم کی تحریک کیوں شروع ہوئی، کیسے شروع ہوئی، کس طرح آگے بڑھی اور اس کا انجام کیسے ہوا۔

فیمینزم کی کتنی روئیں Waves چلیں، ہر ایک کے پیچھے کیا عوامل تھے، اب اس کی کون سی رو ہے اور اس سے بھی آگاہ ہوں کی فیشن نما تحریک چاہے ملبوسات سے متعلق ہو یا کسی سنجیدہ مقصد کی خاطر اس کی شروعات مغرب سے ہوتی ہیں، پھر وہ ترقی پذیر ملکوں کے فیشن ایبل متمول طبقے میں سرایت کرتی ہے، جب تک وہ نچلے متوسط طبقے تک پہنچتی ہے، متمول طبقے میں فیشن کی کوئی نئی رو جگہ پا چکی ہوتی ہے جیسے نچلے متوسط طبقے کی لڑکیاں اب جینز پہن رہی ہیں جبکہ متمول فیشن ایبل حلقے کی لڑکیوں کے ملبوس میں جینز پہننا آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا، اس لیے میں فیمینزم کا حامی تو ہوں مگر فیمینسٹ نہیں ہوں۔

وجہ وہی ہے کہ یہ تحریک یہاں اس وقت وقتی نعرہ بازی سے آگے نہیں گئی۔ ترنگ میں آ کر میں نے ایک ایک کرکے فیس بک پر تین فی البدیہہ شعر پوسٹ کر دیے۔ پہلا شعر تھا :” نہ کھانا گرم کرنا ہے نہ بستر گرم کرنا ہے تجھے بس اتنا کرنا ہے کہ لہجہ نرم کرنا ہے“ دوسرا شعر تھا : ”تمہیں اس مرد سے ہوں گے بہت سارے گلے شکوے مگر اپنے تخاطب پہ تمہیں بھی شرم کرنا ہے“۔ ابھی میں نے تیسرا شعر: ”تجھے مجھ ایسے مردوں نے بغاوت پہ کیا مجبور مگر کیوں سارے مردوں کو یونہی بے شرم کرنا ہے؟“ پوسٹ کیا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست کی صاحبزادی نے جو خاصی فعال فیمنسٹ ہے مجھے پیغام بھیجا کہ انکل میں آپ کو انفرینڈ کر رہی ہوں۔ آپ کو اس بارے میں بتانا میری اخلاقی مجبوری ہے۔ پہلا اور دوسرا شعر ایک سے ہی ہیں، ان میں کسی میں ایسی بات نہیں جس میں خواتین کی توہین ہوتی ہو البتہ زباں درازی سے روکا جانا اگر زیادتی ہے تو پھر مہذب انداز کیا ہو سکتا ہے۔ تیسرے شعر میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ میری سزا بہت سے مردوں کو دینے کی بھلا کیا تک ہے۔ اس پر بھی ناراض ہونا نہیں بنتا۔ میں نے بھی بچی کا شکریہ ادا کیا کہ مجھے دوستی کی فہرست سے نکالے جانے سے مطلع کرنا اخلاقیات کا تقاضا جانا۔

اپنے رویوں میں شدت پسند ہونا اچھی بات نہیں چاہے وہ میں ہوں، آپ ہوں یا کوئی بھی ہو۔ نوجوان بھتیجی سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ اس کی عمر میں جذباتی ہونا ہارمونز کے وفور کی ضرورت ہے۔ مغرب میں فیمینزم کی تحریک کا آغاز کرنے والی معروف خواتین نے بعد میں مردوں سے ہی بیاہ کیے تھے اور سماج میں فعال بچوں والی خواتین بن کے زندگی بسر کی تھی۔ مگر ایسی عمر میں جو سنجیدہ عمر کہلاتی ہے، تمام مردوں یا تمام عورتوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا بالکل بے جا ہے۔ جیسے انہی دنوں میں نے ایک مرد ماہر نفسیات اور ایک خاتون افسانہ نگار کی باہمی خط و کتابت کا مجموعہ پڑھا تو اس میں خاتون نے تمام مردوں کو ایک ہی لڑی میں پرویا ہے اگرچہ وہ ایک مرد سے ہی مخاطب تھیں۔ پھر مرد کو ایسا جنسی بھیڑیا مصور کیا ہے جو دانت نکوسے بس جھپٹنے کو بے چین ہے۔ کسی سیانے نے کہا ہے کہ عموم کو خصوصی پن، ہا خصوصی پن کو عموم بنا کے پیش کرنا کسی صورت درست نہیں ہو سکتا۔

میں اگر ماہر نفسیات ہوتا تو پہلے خاتون کا نفسیاتی تجزیہ کرتا پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی نفسیات کے پہلووں کو مدنظر رکھتا۔ دیکھیے نا وہی بات ہوئی کہ میں ان ماہر نفسیات جیسا نہیں ہوں جن سے موصوفہ نے خط و کتابت کی اور میں چونکہ ماہر نفسیات نہیں اس لیے شاید میں نے ایسا سوچا ہو۔ اب یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ پاکستان کے سارے مرد ایک جیسے ہوں یا لاہور، کراچی، فیصل آباد کہیں کے بھی تمام مرد ایک جیسے ہوں۔

کم از کم پڑھے لکھے حلقوں کے تمام مرد رالیں بہاتے ہوئے جنسی احمق نہیں قرار دیے جا سکتے۔ طلاق یافتہ ہو کر بہتر زندگی گذارتے ہوئے خوش تب رہا جا سکتا ہے جب خاتون بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ برتر عہدے پر بھی ہو جس کے ساتھ کسی کو فلرٹ کرنے کی ہمت نہ ہو سکے۔ ویسے فلرٹ کرنا فیمینسٹ حلقوں میں معیوب نہیں سمجھا جاتا البتہ ہراسانی کا کوئی کنارہ نہیں کہ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم۔ قصہ مختصر ہراساں کسی کو بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔

جنسی طور پر تو خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ مرد عورت سے ہراساں ہو تو چھوڑنے کی ہمت کر لے مگر عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہراساں ہونے، سختیاں اور زیادتیاں سہنے کے باوجود اپنوں اور غیروں میں رہنے بلکہ ان کے ساتھ زندگیاں بتانے پر مجبور ہیں۔ اس سب کو روکنے کی خاطر طرز زندگی بدلنا ہوگا، طرز زندگی بدلنے کے لیے طرز حکومت بہتر بنانا ہوگا اور طرز حکومت بہتر بنانے کی خاطر معیشت بہتر کرنا ہوگی، معیشت بہتر کرنے کے لیے صنعت کاری کرنا ہوگی، صنعت کے فروغ کی خاطر امن اور سکون کی فضا قائم کرنا ہوگی، امن اور سکون کی فضا بنانے کے لیے سیاست کو فروغ دینا ہوگا تاکہ مناسب قوانین بنائے جا سکیں۔ یوں کوئی بھی خواتین بلکہ سبھوں کی زندگیاں بہتر بنائے جانے کا مخالف نہیں ہے بس نقطہ نگاہ کا فرق ہے۔ ایک چھوٹا سا گروہ سمجھتا ہے کہ بس سال میں ایک بار بات کرنے سے معاملات سنور جائیں گے جبکہ بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ سب کچھ سنورتے سنورتے سنورتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).