خون کے آنسو


سکوت سا لگ رہا تھا جیسے سالوں سے ہوا کا جھونکا نہ آیا ہو۔ آرام سکوں سب تھا۔ کوئی دقت نہیں تھی۔ مگر آج کوئی دن تھا جس کا ہر مہینے مجھے انتظار رہتا تھا اور یاد بھی تھا۔ مگر میں اسے یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ دل کرتا تھا بھول جاؤں۔ یا وہ دن آے ہی نہ۔ مگر پھر وہ آجاتا۔ اپنے وقت پر۔ کیوں آجاتا تھا؟

آج ابھی تک وہ نہیں آیا تھا۔ میں منتظر تو تھی لیکن میں دل سے نہیں چاہتی تھی کے وہ آئے۔ شاید میں اپنے اندر ایک تبدیلی کو محسوس کرنا چاہتی تھی۔ دھیرے سے ہولے سے ایک سانس میرے ساتھ سانس لے۔ ایک نازک سی کونپل مجھ سے پھونٹے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا؟

میں کسی سے منسوب نہیں تھی میں کسی کے ساتھ نہیں تھی کوئی میرا نہیں تھا۔ کوئی میرا کیسے ہو سکتا تھا؟ میں نے کسی کا ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔ مجھے زندگی کے دستور نہیں آتے تھے۔ میں تیری دنیا میں تنہا آئی تھی اور تنہا جانے والی تھی۔ سب تنہا ہی تو آتے ہیں اور تنہا ہی چلے جاتے ہیں اس میں کون سی اچنبھے کی بات ہے؟

خون بہہ جاتا ہے اور سب اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ تمہارا وجود بھی۔ میں اسے بہتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ پتا نہیں کیوں۔ مجھے انتظار بھی تھا اور نہیں بھی۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا تھا ہر بار؟

میں اپنے آپ سے سوال کر رہی تھی بار بار۔ کہ اگر وہ نہ آئے اس بار تو کیسا ہو گا۔ میری زندگی بدل جائے گی۔ میں کیسے اپنی سانس میں تمہاری سانس سنو گی؟ میں کیسے تمہاری دھڑکن میں اپنی دھڑکن محسوس کروں گی؟ میں کیسے تمھہیں گرم سرد ہواؤں سے بچاؤں گی؟ میں کیسے تمہیں دنیا سے چھپا لوں گی۔ کیسے؟

تم پریشان نہ ہونا میں ہوں نا۔ میں سب سنبھال لوں گی۔ میں کافی ہوں تمہارے لیے۔ تم پریشان نہ ہونا۔ میں سب سنبھال لوں گی۔ بس تم میرے سینے سے لگے رہنا کوئی تمہیں نہیں دیکھ سکے گا۔ میں کام کروں گی تو تمہیں آپنے اندر چھپا کر۔ کسی کو کیا مطلب تم کون ہو؟ کیا ہو؟ کہاں سے ہو؟ بس تم میرا وجود ہو مجھے اتنا پتا ہے۔ اس سے آگے نہ مجھے جانا ہے، نا ہی کچھ جاننا ہے۔ کوئی کون ہوتا ہے سوال کرنے والا؟

میں تمہیں اتنی دور لے جاؤں گی بہت دور، بہت بہت دور۔ تم خوش رہو گے میرے ساتھ صرف میرے ساتھ۔ پورا دن میں اُس سے باتیں کرتی رہی۔ اُسے بتاتی رہی دیکھنا میں تمہارے لیے بہت سے پیسے کماؤں گی۔ میں بہت پیارا گھر بناؤں گی جس میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہو گا اُس میں ہر رنگ کا پھول ہو گا ہر رنگ کا۔ اور پھل بھی لگا لیں گے تمہاری پسند کے سب پھل۔ اور ایک جھولا بھی لگائیں گے جس پر روز ہم بیٹھ کر بہت ساری باتیں کیا کریں گے بہت ساری۔ دیکھو تم مجھ سے کچھ نہ چھپانا سب بتا دینا مجھے، میں تم سے کبھی کسی بات پر ناراض نہیں ہوں گی کسی بھی بات پر نہیں، وعدہ پکا وعدہ۔ اُسے سمجھاتی رہی بس ڈرنا نہیں ہے۔ تم ایک بہادر ماں کی اولاد ہو تم کیسے گھبرا سکتے ہو۔ میری جان

شام ہونے لگی میری ساری تیاری مکمل تھی۔ ہر طرح سے۔ سب کیسے سنبھالنا ہے سب تیاری مکمل تھی۔ میں قد آور آئینے کے سامنے جا کر آپنے جسم کا معائنہ کرنے لگی۔ ابھی تو اعصار واضع نہیں ہیں۔ لیکن اتنا جلدی کیسے ہو سکتا ہے؟ آج تو پہلا دن ہے۔ آج کیسے نظر آئے گا؟ آ جائے گا پریشان نہ ہو میں خود کو تسلی دی اب مجھے کھانا کھا لینا چاہیے۔ تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی نہ؟ میں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور سو گئی۔

صبح میں دیر سے جاگی۔ غسل خانے گئی تو میرا دل دھک سے رہ گیا۔ آ ج پھر سب لال ہو گیا۔ میرے سب خواب لال ہو گئے۔ میری جان میرے لال تم پھر بہ گئے؟ میں نے تمہں سمجھایا تھا کتنا سمجھایا تھا میں سب سنبھال لوں گی تم پھر بھی نہیں رکے؟ تمھیں مجھ پر بھروسا نہیں تھا؟ بولو؟

ایک بار بھروسا تو کرتے؟ میں آپنی آخری سانس تک تمھیں سینچ کر آپنے سینے میں چھپائے رکھتی۔ تمھیں مجھ پر یقین کرنا چاہیے تھا۔ میں مردہ دل سے سرخ قطروں کو دھونے لگی۔ ایک اور مہینہ گزر گیا۔ ہر مہینے کی طرح

نوٹ : یہ افسانہ فرضی نہیں ہے یہ ایک روح میں چھپی عورت کی پکار ہے، یہ ایک عورت کے ان احساسات کی ترجمان ہے جو وہ ہر ماہ محسوس کرتی، کیسے اس کے اندر کی عورت اس سے تقاضے کرتی ہے، کیسے وہ اپنے وجود کو بکھرنے اور پھر سے جڑنے کے عمل سے گزارتی ہے، کیسے اس کا وجود اس سے انوکھے تقاضے کرتا ہے۔ وہ سائنس اور بائیولوجی کے تمام اصول بھول جاتی ہے۔ اسے اس وقت صرف ایک احساس جکڑ لیتا ہے۔ ”تخلیق کا“۔ وہ اندر ہی اندر اپنے آپ سے باتیں کرتی ہے اور خود ہی جواب دیتی ہے۔

اسے احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ تخلیق کرنے کی اس خواہش کو اپنے وجود میں کب سی چھپاے بیھٹی تھی مگر اچانک اس کی یہ خواہش کسی بوتل کی جن کی طرح نکل کر سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا وہ کیا کرے۔ تخلیق کا دیوتا اسے سکون نہیں لینے دیتا۔ مگر معاشرے کی رسم و رواج، عقائد، نظریات اور اتنا کچھ جو ہمیشہ سے اسے ساتھ لے کر چلنا سکھایا گیا ہوتا ہے کہ وہ بے بس ہو جاتی ہے۔ وہ لڑتی ہے اپنے آپ سے۔ اس دنیا سے۔ اپنی اس اولاد سے جیسے وہ اس ماہ بھی سینچ نہیں سکی، وہ اس کے جسم میں پنپ نہیں سکا اور لال خون بن کر بہ گیا۔ اس بار بھی

ڈاکٹر خالد سہیل جو کے ایک ماہر نفسیات، شاعر، ادیب اور نہایت خوبصورت دل رکھنے والے انسان دوست معالج ہیں، آپ نے اس موضوع پر کیا خوبصوت نظم لکھی ہے، جسے یہاں بیان کیے بنا میری تحریر نا مکمل ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے میں آپ کی یہ نظم جو آپ نے آج سے کوئی تیس برس قبل لکھی تھی نکل کر رہی ہوں۔ یہ آپ کی کتاب ”تلاش“ سے لی گئی ہے۔ بہت خوبصورت پیرائے میں آپ نے عورت کے ان احساسات کی ترجمانی کی ہے جو شاید میں بھی نہیں کر سکی۔ نظم عرض ہے

عورتیں وقت سے ہر آن لڑیں

عورتیں خون کی ہولی کھیلیں

ہر مہینے جو وہ حالات کی زد میں آئیں

اپنے جسموں میں پگھلتا ہوا لاوا پائیں

عورتیں زیست سے ہر ماہ جو نامہ لائیں

اپنی تقدیر کو یوں اس میں نوشتہ پائیں

عورتیں اپنی حقیقت جانیں

عورتیں بچے جنیں مائیں بنیں

اپنی آغوش بھریں

اور اگر اس سے وہ انکار کریں

ایک دوراہے سے آواز سنیں

یا تو وہ بانجھ رہیں

یا ہر اک ماہ وہ سب خون کے آنسو روئیں

اپنے رستے ہوئے زخموں کی فضا میں سوئیں

عورتیں درد کی تصویریں ہیں

عورتیں کرب کی تفسیریں ہیں

عورتیں خون میں ڈوبی ہوئی تحریریں ہیں

خالد سہیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).