میڈیا قاعدے قرینوں سے ماوراء کیوں


موجودہ دور میں میڈیا کا کردار جہاں مثبت ہے وہی اس نے معاشرے پر کئی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ آئیے آج جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ میڈیا کس کس طرح قانون اور اخلاقی حدود و قیود کو توڑتا ہے۔

ہتک عزت

ہمارے ہاں خبروں اور رپورٹ و پیکجز، کالم اور تحاریر میں کسی کے بارے میں توہین آمیز الفاظ لکھنے میں کسی قسم کی کوئی احتیاط نہیں برتی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں لوگوں کو بدنام کرنے کا نام صحافت بن گیا ہے۔

خبروں میں خبر کم جذبات، ذاتی رائے، افواہ اور سنسنی زیادہ ہوتی ہے۔ خبر افواہ جذبات اور رائے سے ماوراء ہوتی ہے۔ کسی کو بھی چور، ڈکیت خبر میں یا رپورٹ میں لکھنے پر اگلہ یہ قانونی حق رکھتا ہے کہ وہ آپ کو لیگل نوٹس بھیج کر ہتک عزت کا دعویٰ کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسا ہوگا چونکہ بین الاقوامی میڈیا میں قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔

میڈیا کچھ خبروں میں جذبات کا بے انتہا استعمال کرکے لوگوں کو جذبات کو بھڑکانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ بہت سارے کیسز میں ابھی عدالت ملزم پر فرد جرم عائد ہی نہیں کرتی اس پر جرم ثابت ہی نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے اس کی تصاویر وڈیوز انٹرویوز چلا دیے جاتے ہیں۔ جو کہ کسی بے قصور شخص کی زندگی پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے۔ اگر بعد ازاں عدالت اسے باعزت بری کرتی ہے اور اس پر جرم ثابت نہیں ہوتا تو کیا میڈیا اس کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرسکتا ہے۔

اگر کسی شخص پر الزام ہے اور ابھی اس پر قانونی کارروائی چل رہی ہو اس سے پہلے ہی اسے مجرم بنادینا اس پر فیصلہ صادر کرکے اس کی تصاویر ویڈیوز وائرل کردینا اسی دوران کسی شخص نے جذبات میں آکر اسے قتل کردیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ میرے خیال میں وہی جو اس سارے معاملے میں اس شخص کو عدالت میں فرد جرم عائد ہونے سے پہلے فیصلہ کرلے جبکہ وہ بے قصور ہو اس میں میڈیا کا کردار انتہائی بھیانک اور افسوسناک ہے۔ جو معاشرے میں اشتعال انگیزی پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا شخص میڈیا پر ہتک عزت کا کیس بھی کرسکتا ہے۔ میڈیا کو اس بابت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

کسی کی تصویر، ویڈیو کو چلانے سے متعلق ہمارے ہاں بہت بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔ سری نگر میں واقعے سے متعلق ایک بڑے میڈیا ادارے نے ایک نوجوان کی تصویر چلادی جس کے بعد اس کی جان خطرے پڑگئی۔ صحافی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کسی کی تصویر اور ویڈیو کو چلانے سے پہلے خوب خیال رکھے کہ کیا اس سے کسی کو نقصان تو نہیں ہوگا۔

توہین عدالت۔

جج کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ان کے خلاف خبر نہیں چل سکتی۔ عدالت کسی سے متعلق کوریج، خبر یا رپورٹنگ نہ کرنے سے متعلق عدالتی حکم آجائے تو اس پر اگر خبر لگادی جائے تو توہین عدالت کا کیس ہوسکتا ہے۔ عدالت میں زیر سماعت کیس سے متعلق خبر دینا بھی توہین عدالت میں آسکتا ہے۔

جج کی ذاتی زندگی پر بھی کوئی خبر نہیں چلائی جا سکتی۔

کورٹ روم میں موبائل کے بجنے پر بھی توہین عدالت کا نوٹس آسکتا ہے۔

عدالت کے کسی فیصلے سے متعلق مس رپورٹنگ کرنا ہمارے ہاں معمول کی بات ہے۔ اس پر بھی توہین عدالت کا کیس بن سکتا ہے۔

ایسے کیسز میں نوکری جانے، جرمانہ، قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس لیے صحافی کو اپنی قانونی حدود یاد ہو۔

پرائیویسی کی خلاف ورزی کرنا۔

پرائیویسی کی خلاف ورزی سے مراد کسی کی چاردیواری کی حدود کو پار کرتے ہوئے اس کی ویڈیو یا ریکارڈنگ کرنا اور پھر اسے وائرل یا لیک کرنا۔ یہ خلاف قانون اور صحافتی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

ہمارے ہاں میڈیا میں کسی پرائیویسی کی خلاف ورزی کرنا اور اسے پبلک کرنا معمول کی بات ہے۔ جو کہ صحافت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

آپ کسی کی ریکارڈنگ کرکے ویڈیو اس کی اجازت کے بغیر نہ لے سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔

کسی بھی ملزم کا گھر پتہ، نام تصویر یا شناخت ظاہر کرنا بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب زمرے میں آتا ہے۔

بچوں سے متعلق ریپ کیسز یا کوئی بھی متنازع خبروں میں خبر چلاتے ہوئے بہت احتیاط برتنی چائیے۔ تصاویر ویڈیو ان کیسز میں میں بالکل نہیں چلائی جاسکتی۔

اسی طرح کسی بھی ریستوران میں کوئی واقعہ ہوتا ہے اس کے نام کے ساتھ خبر چلانا بھی غلط ہے۔ چونکہ ایک شخص ساری زندگی لگاکر کاروبار بناتا ہے۔ جہاں ایک لمحے میں مس رپورٹنگ کرکے اس کے کاروبار کا ستیاناس کردیا جاتا ہے۔

اسی طرح کسی کے ریستوران، ہوٹل، یا کیفے ٹیریا میں بغیر اجازت داخل ہونا بھی ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ میڈیا کا کام خبر دینا خبریں پیدا کرنا نہیں۔ یہ کام فوڈ اتھارٹی کا ہے وہ وہاں جا سکتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی کے ساتھ میڈیا کا جانا بھی غلط ہے۔ میڈیا اپنے حدود نہیں جانتا اور لوگ اپنے حقوق سے ناواقف ہے جب ایسا ہو معاشرے میں ایسا ہوتا ہے۔

فکسنگ کیس اور کسی کی فون کی ریکارڈنگ کو ٹیپ کرکے لیک کرنا۔ یہ سب کسی بھی اصول و ضوابط کے تحت درست نہیں۔ ماضی میں اس طرح کرنے والے بہت سے اخبارات اور چینلز پر کیسز ہوئے ہیں۔

میڈیا یا صحافی کسی بھی معاملے میں فریق نہیں بن سکتا۔ یہ بھی صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں بہت سے میڈیا چینل و نام نہاد صحافی کرائم شو اور چھاپا مار پروگرامات عام ہیں یہ سب صحافت نہیں۔ یہ کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت یا کسی معاملے میں فریق بننے کے مترادف ہے۔

کاپی رائٹ

کسی کی تحریر، تصویر، ویڈیو، کو اس کی اجازت کے بغیر شئیر کرنا یا استعمال کرنا۔ اس پر کاپی رائٹ کا کیس بن سکتا ہے۔ موجودہ دور میں آنلائن میڈیا میں کاپی رائٹ ایک کاروبار بن چکا ہے۔

اس طریقے سے آپ کاپی رائٹ سے بچ سکتے ہیں۔

کریڈٹ

اچھا استعمال

کریڈٹ

کسی کی تصویر، تحریر کو اس کے نام کے ساتھ چلانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اس طرح کاپی رائٹ سے بچا جا سکتا ہے۔

Fair use

تیس سیکنڈ کی ویڈیو تین دن تک چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ڈاون کرنا پڑتا ہے۔ مگر شرط ہے کہ ویڈیو پر لکھا ہو fair use اس کے علاوہ چلانے پر کاپی رائٹ کا کیس بن سکتا ہے۔

معاشرتی و تہزیبی اقدار کا خیال نہ کرنا۔

میڈیا میں اخلاقی اقدار کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ ڈرامہ، فلم، ٹاک شوز، رمضان ٹرانسمیشن، مارننگ شوز اور کرائم و جرائم سے متعلق ہونے والی ٹرانسمیشن میں معاشرتی و اخلاقی اقدار کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ مہزب معاشرے میں اخلاقی اقدار بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں میڈیا کی صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ مشرقی معاشرے میں پرائم ٹائم ایسے اوقات ہوتے ہیں جن میں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے کی روایت ہے۔ ایسے اوقات میں بھی ایسے اشتہارات یا ٹرانسمیشن کا چل رہی ہوتی ہے جنہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ صحافی و میڈیا ہاوسز کو چائیے کہ وہ قانونی، اخلاقی و معاشرتی اقدار کا خیال رکھے۔ تاکہ معاشرے میں میڈیا اپنا مثبت کردار ادا کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).