روتی عورت کے سرہانے سوئی ریاست


پاکستان میں موجود صرف دو فی صد آبادی پر مشتمل ہندو برادری  پر چند فقرے بولے گئے اور وزیراعظم پاکستان نے وزیر سے استعفی طلب کر کے پوری دنیا میں واہ واہ کروا لی۔ لیکن پاکستان کی 49 فی صد آبادی پر مشتمل عورت پر پچھلے تین چار دن سے ہر سمت سے ہر طرح کے حملے چل رہے اور حکومت خموش بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔ کوئی عورت کی حمایت میں اس کا تماشا بنا رہا تو کوئی اس کی مخالفت میں۔ کیا عورت کی طرف اس ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں؟

کیا عورت کے سلسلے میں ریاست کسی کو بھی جواب دہ نہیں؟ پچھلے کچھ دنوں کے خصوصاً دونوں طرف برپا ایک طوفان بدتمیزی میں سب کچھ نظر آیا سوائے حکومت کی طرف سے عورت کے لئے کسی بھی قسم کی داد رسی کے۔ عورت کا وہ تشخص، کردار اور اس کا وجود جو ان کچھ دنوں میں مسخ کر کے رکھ دیا گیا۔ جس طرح کشمیر اور پاکستان کی جنگ میں کشمیر پس کر رہ گیا اسی طرح لبرلزم اور کنزرویٹو، کی اس لڑائی میں جس میں جانے کن کن قوتوں نے اپنا حصہ ڈالا قربانی کی گائے بننا اسی مشہور زمانہ گائے کے حصے میں آیا جس کا نام عورت ہے۔

عورت آزادی مارچ کی بات بہت ہوچکی جس نے عورت کی نمائندگی کر ے کی کوشش میں عورت کی بے بسی اور حرمت کا مذاق بنا ڈالا۔ مگر یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ایک مافیا آیا جس نے دھڑا دھڑ پوسٹرز کے اوپر اپنی مرضی کے غلیظ فقرے اور شکلیں فوٹو شاپ کیں اور دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر پھیلا دیں۔ وہ کون لوگ تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ پھر پاکستانی مرد اپنی بھرپور مردانگی، غیرت اور طاقت کے ساتھ میدان میں اترا اور اس نے وہ وہ نعرے لگائے، وہ وہ زبان اور گالیاں نکالیں، گندی زبان اور ذو معنی فقروں کا ایسا گھمسان کا رن برپا کیا کہ الامان الحفیظ۔

عورتوں کی والز پر، ان کی تصویروں پر خوب لعنت ملامت ہوئی، گھٹیا زبان استعمال ہوئی، فتوے دیے گئے، نام لے لے کر کردار کشی کی گئی، اور وہ مرد جو ایک ماں بہن والے پوسٹر پر تلملا اٹھے تھے انہوں نے حقیقی معنوں میں سب کی ماں بہن ایک کر دی۔ تب نہ کوی کسی کا باپ رہا نہ بھائی، ! صرف عام آدمی نہیں وزیروں مشیروں تک نے اس میں خوب حصہ ڈالا۔ یوں لگا کہ یہ سب لوگ صرف اسی لمحے اس وقت کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ کہیں جو ان کو ذرا سا موقع ملے اور وہ عورت پر اس کے کردار پر دھاوا بول دیں۔

پھر میڈیا پر ایک ایک متنازع پوسٹر کو ہزار ہزار بار دکھا کر یہ آواز دور دور تک پہنچا دی گئی کہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے دو، ان کو بڑے شہر وں میں بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنے مت بھیجو ورنہ قیامت آ جائے گی، خاندان اجڑ جائیں گے، عورتیں ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ جانے اس بار صرف اس ماحول کی وجہ سے کتنی لڑکیاں اعلی تعلیم کے لئے، اور کتنی تعلیم یافتہ ضرورت مند عورتیں نوکری کے لئے گھروں سے نہ نکل سکیں۔

اور اس ساری جنگ میں وہ مشہور زمانہ سائبر کرائم سویا رہا جس کے کچھ دن پہلے بہت چرچے ہوئے۔ کیا وہ سائبر کرائم صرف حکومتی مفادات کی خاطر بنایا گیا ہے؟ عورت کا نام چار دن تک اس طوفان بادو باراں میں پستا رہا اور ذلیل ہوتا رہا اور حکومت، سائبر کرائم، پیمرا سب خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے کہ یہ تو روز روز کی چخ چخ ہے۔ تو وہ خاص نوعیت کی چخ چخ کیا ہے جس کے لئے سائبر کرائم بنایا جاتا ہے؟ کیا کھلے عام دوسروں کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے ان کو پھیلانا ایک جرم نہیں؟

کیا دوسروں کی تصاویر اور تحاریر کے نیچے گالم گلوچ کرنا جرم نہیں؟ صرف متحدہ عرب امارات میں ہی کسی کو سوشل میڈیا پر گالی نکالنا سیدھا سیدھا جیل جانے کا باعث ہے۔ کیا ہمارے پاکستان کے سائبر کرائم کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں؟ ان کے قتل کے فتوے دینا ان کو مرنے کی بددعائیں دینا، ان کی کردار کشی کرنا، یہ سب اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پچھلے کچھ دنوں میں آخیر ہوا اگرچہ عام حالات میں بھی اسے ایک عام کارروائی اور مشغلہ تصور کیا جاتا ہے مگر ایک مدینہ کی سلطنت کے خواب دکھانے والی حکومت میں کسی وزیر کی زبان بندی کی گئی، نہ کسی کو غلط رپورٹنگ پر ٹوکا گیا، کسی کو فوٹو شاپ پر پوسٹرز بگاڑ کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا، نہ عورتوں کے ناموں کے نیچے آ کر لعنتیں بھیجنے والوں کی زبان پکڑی گئی۔

کیا ان سب نے مل کر عورت کی حرمت کی اور عزت کی حفاظت کی؟ کیا صرف چند پوسٹرز اس کے ذمہ دار ہیں یا حالات وواقعات نے ثابت کیا ہر طبقے اور حلقے نے اس میں حد درجہ حصہ ڈالا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران ریاست سو رہی تھی۔ کیا اس سارے وقت میں سائبر کرائم کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی اس عظیم الشان ہراسمنٹ کا نوٹس لیتا؟ عورتوں کے پوسٹرز پر ضرور کارروائی کریں، حساس مسئلوں کو ذاتی کوریج اور مشغلے کے طور پر استعمال کرنے والوں سے ضرور باز پرس ہونی چاہیے مگر ساتھ سوشل میڈیا صارفین، میڈیا اورعام عوام پر بھی بہت سی ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔

کیا کردار ہر شخص کے لئے نہیں ہوتا یا یہ صرف عورت ہی کا زیور ہے؟ جس طرح عورت مرد کو للکارتے اچھی نہیں لگتی اسی طرح کھلے عام عورتوں پر چیختا چلاتا گالیاں بکتا، فتوے دیتا مرد کہاں کے اسلام اور امن پسند معاشرے کی نمائندگی کر رہا؟ یہ ایک کھلا سچ ہے کہ عورت پاکستانی معاشرے کا ایک مظلوم کردار ہے، جس پر ضرورت سے زیادہ بے جا بوجھ، ذمہ داریاں اور پابندیاں، معاشرے، روایات، تہذیب اور مذہب کا نام لے لے کر لادی گئی ہیں۔

اور پھر ایک دو جلوسوں کے مقابلے میں پوری ریاست کا میڈیا اور مرد لگا دیا جائے اور اس کے نام پر پورے ملک کی عورت کو ہراساں کیا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کوئی وزیراعظم صاحب کو جگائے اور ان کو بتائے کہ اقلیتی برداری کا ضرور تحفظ کیجئے مگر ایک اکثریت ایسی بھی ہے جو اقلیت نہ ہو کر بھی اقلیت سے بدتر ہے اور اس کا پچھلے کچھ دن عظیم مظاہرہ ہوا۔ کچھ اپنے لوگوں کچھ اداروں کو ہلائیے، کیا وہ جانتے بھی ہیں کہ عورت کے حقوق کیا ہیں؟

اور اگر نہیں جانتے تو پلیز پہلے ان کو بتا کر بھیجا جائے کہ عورت کے حقوق کیا ہے۔ اب ہمیں اسلام، مذہب، اور روایت کے نام پر مزید لوگوں کے ذاتی فتوے، خیالات اور تصورات نہیں چاہیے۔ انٹرنیٹ پر ہوئی اس ساری دھما چوکڑی کا نوٹس لیجیے، گالم گلوچ کرنے والوں کو گرفتار کیجیے، غلط پراپگینڈا کرنے والوں کا احتساب کیجیے، اور تصویروں اور پوسٹرز کے نام پر فتوے جاری کرنے والوں اور کردار کشی کرنے والوں سب کا مواخذہ کیا جائے۔ اگر صرف اسی ایک کام کا ذمہ اٹھا لیا جائے کہ سوشل میڈیا پر کوئی کسی کو گالم گلوچ نہ کر سکے تو یقین کریں صرف اسی کام کے لئے آپ ہزاروں نوکریاں تخلیق کر سکتے ہیں جو اس ملک کے بیکار بیٹھے مردوں کو نکیلیں ڈالکر کام پر لگائیں اور عورتوں کے لئے بھی اک باعزت روزگار کا باعث ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).