عورتوں کے حقوق: حقیقت کا ایک پہلو


ابن آدم سہل پسند ہے بغیر تگ و دو کے میسر آنے والی ہر چیز اس کی فطرت کو خوب بھاتی ہے۔ بھوک لگنے کی صورت میں گھر بیٹھے ’فوڈ پانڈا‘ سے کھانا منگوا لینا کہیں جانے کے لیے ’کریم‘ یا ’اُبر‘ کی سہولت سے لطف اندوز ہونا یا کسی عزیز کی عیادت کے لیے جانے کی بجائے فون کال کے ذریعے طبیعت دریافت کرنا بھی اب انسان کی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔

لیکن یہ سہل پسندی علم حاصل کرنے کی راہ میں کئی مسائل کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ جب کبھی کوئی کالم نگار کسی موضوع پر اپنے خیالات قلم بند کرتا ہے عمومی طور پر وہ ایک کالم میں حقیقت کے کسی ایک پہلو پر بحث کرتا ہے جو کہ مکمل حقیقت نہیں ہوتی لیکن سہل پسندی کے عادی افراد اس ایک چند صفحات کی تحریر میں مزین کردہ ایک پہلو کو مسلم حقیقت تسلیم کر لیتے ہیں اور لائبریریوں میں موجود کتابوں کی گرد چھاننا تو دور کی بات بلکہ وہ صرف اسی ایک بات کو حتمی شکل دے کر اپنی آرا بھی قائم کر لیتے ہیں۔

عورت معاشرے کا ایک اہم جزو ہے اس کے حقوق کا نہ صرف خیال رکھنا بلکہ انہیں پورا بھی کرنا معاشرے کی اہم ذمہ داری ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جس نے نہ صرف معاشرے میں عورت کے مقام کو واضح کیا بلکہ ہر لحاظ سے عورتوں کے حقوق بھی وضع کیے۔ جب کہ دوسری جانب یورپ میں 1792 ء میں Mary WollStone Craft کے ایک مضمون ”A Vindication of the Rights of women“ کے عنوان سے شروع ہونے والی حقوق نسواں کی تحریک اب تک کئی الجھنوں کا شکار ہے۔ اب تک مغربی معاشرہ عورت کے درست مقام اور اس کے حقوق متعین کرنے میں ناکام ہے یہی وجہ ہے کہ آئے دن مغرب میں عورتوں کے حقوق سے متعلق قوانین بدلتے رہتے ہیں۔

8 مارچ پوری دنیا میں حقوق نسواں کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کے لیے سیمینار اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں کی جانے والی کئی باتیں تو درست ہیں مگر کئی اصلاح طلب ہیں۔ مثال کے طور پر حقیقت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ معاملہ ہر جگہ نہیں ہے۔ ماہواری، رضاعت اور بچے کی پیدائش وغیرہ چند معاملات ایسے ہیں جہاں ایک عورت کی گواہی ہی قابل قبول ہے لیکن جہاں فساد اور جھگڑے کا خوف ہو صرف وہا ں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا گیا۔

اسی طرح ایک اور حقیقت کا ایک پہلو جو قارئین کے لیے بطور ایک مسلم حقیقت کے پیش کیا جاتا ہے وہ وراثت کے معاملے میں ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے جو کہ نہ صرف حقیقت کا ایک پہلو بلکہ ادنیٰ سا پہلو ہے۔ شریعت اسلامیہ میں کسی شخص کے مر جانے کے بعد اس کے مال میں سے اس کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائی اور وصیت نافذ کرنے کے بعد جب مال وارثوں میں تقسیم کرنے کی باری آتی ہے تو اسلام میت کے وارثوں کو مختلف مدارج میں تقسیم کرتا ہے جن میں پہلا نمبر اصحاب فرائض (وہ لوگ جن کا حصہ قرآن میں یا حدیث میں مقرر کر دیا گیا ہے) کا آتا ہے جن کی مکمل تعداد 12 ہے جن میں 8 عورتیں اور 4 مرد شامل ہیں۔

اگر ان اصحاب فرائض میں مال تقسیم کرنے کے بعد مال بچ جائے تو پھر وہ مال عصبات میں تقسیم کیا جائے گا اور دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر حصہ دیا جانا اس مسئلے کا تعلق اس عصبات والے حصے سے ہے جس کا مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا جانا گویا اسے ایک مسلم حقیقت میں ڈال دینا ہے حالانکہ یہ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).