میں ڈِک پکس کیوں نہ بھیجوں؟


چین میں میرا ایک سینئیر بیجنگ کی دیواروں پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس تحقیق کے لیے وہ پورے شہر میں گھومتا تھا اور دیواروں پر لکھے الفاظوں اور تصاویر کو نوٹ کرتا تھا۔ ان الفاظوں اور تصاویر پر مبنی اس کا مقالہ بہت دلچسپ تھا۔ جبر باغیوں کو جنم دیتا ہے۔ بیجنگ کی دیواروں پر انہی باغیوں کی سوچ موجود تھی۔ اس سوچ کو بار بار مٹایا جاتا تھا۔ یہ باغی پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے بیجنگ کی دیواروں پر اپنی سوچ کے نشان چھوڑ جاتے تھے۔

جب اس نے اپنا مقالہ مجھے پڑھایا تو میں نے بھی لاہور سے متعلق ایسی ہی تحقیق کرنے کا سوچا جو فوراً ہی رَد کر دیا۔ زندگی کے چھبیس سال لاہور میں گزارے تھے۔ پورا شہر نہ سہی بیشتر تو دیکھ ہی رکھا تھا۔ لاہور کی آدھی دیواروں پر مردانہ کمزوری کے علاج و معالجہ کی جو تفصیلات درج ہیں، اگر وہ میری تحقیق کا حصہ بن کر کسی بین الاقوامی جریدے میں شائع ہو جاتیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مردوں کے وقار کو جو ٹھیس پہنچتی، اس کا سوچ کر ہی میرا دل بیٹھ سا گیا تھا۔ فوراً اپنے اس ارادے سے توبہ کی۔ میری طرف سے مردوں کے حقوق کے لیے اس سے بڑا کام شاید ہی کبھی کیا جائے۔

دنیا بھر میں انسان کی عزت اس کے دماغ کی بنیاد پر کی جاتی ہے، ہمارا اس معاملے میں اپنا ہی معیار ہے۔ خواتین کے ساتھ یہاں بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ خواتین اپنا جسم لمبی سی چادر سے چھپا کر رکھیں جبکہ مرد فخریہ اپنے عضو خاص کی نمائش کر سکتے ہیں۔ جو زیادہ نمائش کرے وہ اتنا ہی دبنگ اور کسی خاتون کا دوپٹہ ہی سرک جائے تو وہ آوارہ اور بد چلن۔

اسی لیے جب بھی خواتین اپنے لیے وہی حقوق مانگتی ہیں جو یہاں کے مردوں کو حاصل ہیں تو ہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ عورت مارچ نے پاکستان کی ثقافت پر حملہ کیا ہے۔ ہم ان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان کا کلچر کیا ہے اور سڑکوں پر لگے مردانہ کمزوری کے اشتہارات، ننگ دھڑنگ بیٹھے ملنگ، خواتین کو دیکھ کر اپنے عضو کو سہلاتے مرد اس کلچر کو کس طرح اجاگر کرتے ہیں، ہم اوریا مقبول جان سے اس پر ایک تفصیلی پروگرام کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔

ہماری ایک دوست رکشہ پر یونیورسٹی آتی تھی۔ ایک دن بہت گھبرائی ہوئی یونیورسٹی پہنچی۔ تھوڑے حواس بحال ہوئی تو کہنے لگی کہ جیسے ہی وہ رکشے میں بیٹھی رکشے والے نے شیشے سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ہاتھ زیرِ ناف چلا گیا اور حرکت کرنے لگا۔ اس نے ڈر کے مارے اسے رکشہ روکنے کا کہا جس پر رکشے والے نے انکار کر دیا اور اس سے معیوب گفتگو کرنے لگا جس پر اس نے پولیس کو کال ملا دی۔ پولیس تو نہ آئی مگر رکشے والے نے موٹی موٹی گالیاں دیتے ہوئے اسے بیچ سڑک اتار دیا۔ بے چاری پھر کیسے یونیورسٹی پہنچی وہ ایک الگ داستان ہے لیکن اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی رکشے میں نہیں بیٹھی۔ ہم نے اس سے مردوں کے بنیادی حقوق پر بات کرنا چاہی لیکن وہ ہونہہ کہتی آگے چلی گئی۔

انٹرنیٹ کے آنے کے بعد مردوں کی اس معاملے میں آزادی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اپنے خاص عضو کی دو چار تصاویر ہر وقت ان کے موبائل میں رہتی ہیں۔ خود بھی دیکھ کر اپنے ہی اوپر فخر کرتے رہتے ہیں۔ تب بھی دل نہ بھرے تو جانے کس داد و تحسین کے لیے انجان لڑکیوں کے ان باکس میں وہ تصاویر بھیجتے رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق انہیں ہر ماہ سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن پر ایسی تصاویر موصول ہونے کی کئی شکایات موصول ہوتی ہیں۔

عورت مارچ میں ایک لڑکی اپنے پوسٹر پر یہی کچھ لکھ لائی تھی۔ اس پوسٹر پر بہت لے دے ہوئی۔ سب سے زیادہ شور اوریا مقبول جان نے مچایا۔ اپنے پراگرام میں وہ اس پوسٹر پر کافی آگ بگولہ ہوتے نظر آئے۔ ان کا غصہ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر مرد مارچ ہوا اور اس میں انہوں نے شرکت کی تو ان کے پوسٹر پر ’میں ڈِک پکس کیوں نہ بھیجوں؟ ‘ لکھا ہوگا۔

پاکستانی خواتین کے سینکڑوں مسائل ہیں جو گرچہ ہمیں مارچ کے مہینے میں ہی یاد آتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں انہیں اجاگر کرنا زیادہ ضروری تھا۔ ہمارے ملک میں خواتین کو لڑکوں کو ناچتے دیکھ کر تالیاں بجانے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ کسی سے پسند کی شادی کر لیں تو عدالت کے احاطے میں انہیں مارا جاتا ہے۔ ان کے حصے کی جائیداد خاندان سے باہر نہ چلی جائے، اس ڈر سے ان کی شادی کبھی بچے سے کر دی جاتی ہے تو کبھی قرآن سے۔ زیادہ پڑھ لکھ کر سر پر نہ چڑھ جائیں اس لیے انہیں زیادہ پڑھنے سے روک دیا جاتا ہے۔ نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو نوکری کر رہی ہیں ان کے لیے حنا شاہنواز کی نعش ایک مثال ہے۔ تصاویر گوگل پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

عورت مارچ میں شامل خواتین کو چاہیے تھا کہ وہ ان مسائل پر روشنی ڈالتیں مگر نہیں وہ تو اپنے برابر کے حقوق لینے کے چکر میں مردوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے پر تُلی ہوئیں تھیں۔ ہمیں کسی نے بتایا کہ کچھ خواتین ان مسائل پر بھی پلے کارڈز بنا کر لائیں تھیں لیکن ہم جیسے ان مسائل کو پورا سال نظر انداز کیے رکھتے ہیں، ویسے ہی اب بھی کریں گے۔ ہمیں اگر کچھ دیکھیں گے تو بس یہ ایک پوسٹر جس میں مردوں کو ان کی حد بتانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اس پر اوریا مقبول جان غصہ کیوں نہ کرتے؟

ہم مرد مارچ والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اوریا مقبول جان کی سرپرستی میں ملک بھر کے پریس کلبز کے باہر اس پوسٹر کے خلاف احتجاج کریں اور ان بے حیا خواتین کو بتا دیں کہ مرد اتنی آسانی سے اپنی آزادی ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اس احتجاج کے لیے میڈیا کوریج چاہیے ہو تو خاتون حاضر ہیں۔ اوریا مقبول جان ایسے مردوں کے حقوق کے لیے اتنا تو میں کر ہی سکتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).