نیوزی لینڈ میں دہشت گردی اور ایک پاکستانی ہیرو


”بچپن سے ہی وہ کہا کرتا تھا کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی دوسروں کی مدد کرتے ہوئے بسر کرے، اور جب وہ مرے تو لوگ اس پر فخر محسوس کریں۔ “ نعیم راشد کے بھائی خورشید عالم نے نیوزی لینڈ کی النور مسجد میں نہتا ہونے کے باوجود خودکار دہشت گرد سے بھڑ کر نمازیوں کی زندگی بچانے کی کوشش کرنے والے ہیرو کے بارے میں بتایا۔

عام طور پر دنیا میں کہیں دہشت گردی کی خبر آتی ہے تو سب سے پہلے یہی دعا دل سے نکلتی ہے کہ اس میں پاکستان کا نام نہ لیا جائے۔ افغان جنگ نے پاکستان کو بدنام کر دیا ہے۔ دنیا بھر سے انتہاپسند یہاں اکٹھے ہوئے اور دنیا بھر میں پھیلے۔ ایسے میں جب نیوزی لینڈ میں مسجد پر دہشت گرد حملے کے ساتھ یہ خبر آئے کہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے تین سو مسلمانوں میں سے جس واحد شخص نے نہتے ہوتے ہوئے بھی خودکار گن سے مسلح شخص کو روکنے کی کوشش کی، وہ ایک پاکستانی نعیم راشد تھا تو اس المیے سے بجھا ہوا دل کچھ تسلی پاتا ہے۔

ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے نعیم راشد تقریباً دس گیارہ برس پہلے نیوزی لینڈ گئے۔ حملہ آور کی بنائی ہوئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی نیم خودکار گن گولیاں برسا رہی ہے ایسے میں اچانک ایک شخص اس پر جھپٹتا ہے اور اسے قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ناکام ہو جاتا ہے لیکن ایک ہیرو کے طور پر امر ہو جاتا ہے۔ نعیم راشد کو گولیاں لگیں اور وہ بعد میں ہسپتال میں شہید ہو گئے۔ ان کا اکیس بائیس برس کا بیٹا بھی شہدا میں شامل تھا۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں النور مسجد اور لنوڈ مسجد پر حملہ کرنے والے اٹھائیس سالہ آسٹریلوی شخص برینٹن ٹارینٹ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات رکھتا تھا اور اس کے حملے کا محرک تارکین وطن سے نفرت تھی۔ اس نے ایک 74 صفحات پر مشتمل مینی فیسٹو چھوڑا ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ ”حملہ آوروں کو دکھانا چاہتا ہے کہ ہماری زمین کبھی بھی ان کی زمین نہیں بنے گی“۔

جہاں دنیا بھر میں برینٹن ٹارنٹ کے اس فعل کی مذمت کی جا رہی ہے، وہیں جمعے کو امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔ ٹرمپ نے نیشنل ایمرجنسی کو بلاک کرنے والے کانگریس کے ایک بل پر اپنا پہلا صدارتی ویٹو اختیار استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کیوں تارکین وطن کی امریکہ آمد کے خلاف ایک نیشنل ایمرجنسی کے خواہاں ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”لوگوں کو لفظ ’حملہ‘ سے نفرت ہے، لیکن یہ حملہ ہی تو ہے“۔

یہ نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کے خلاف پھیلنے والی نفرت ہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ اور کئی دیگر مغربی سیاست دان اقتدار تک پہنچے ہیں۔ دائیں بازو کے یہ انتہا پسند نظریات استعمال کرتے ہوئے سیکولر مغربی ممالک کی کئی سیاسی پارٹیاں اپنا ووٹ بینک بڑھا رہی ہیں۔

اس نفرت کی تاریخ دلچسپ ہے۔ سنہ ساٹھ کی دہائی سے امریکہ اور اس کے اتحادی مسلم ممالک میں نوجوانوں کو انتہا پسند جنگجو بنانے کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سرمایہ دار مغربی ممالک کے لئے سب سے بڑا خطرہ سوویت یونین کا کمیونسٹ بلاک ہے۔

امریکی صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبیگنیف برزنسکی نے 1998 میں ایک فرانسیسی جریدے ”لا نویل آبزرویتر“ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کا دلچسپ جواب دیا تھا۔
سوال: اور آپ کو مسلم انتہاپسندی کی حمایت کرنے کا بھی افسوس نہیں ہے، جس نے مستقبل کے دہشت گردوں کو اسلحہ اور سمت دی؟
برزنسکی: دنیا کی تاریخ میں اہمیت کس چیز کو حاصل ہے؟ طالبان کو یا پھر سوویت سلطنت کے خاتمے کو؟ کیا اہم ہے، چند مشتعل مسلمان یا پھر وسطی یورپ کی آزادی اور سرد جنگ کا خاتمہ؟

سوال: ”کچھ مشتعل مسلمان“؟ لیکن یہ کہا جاتا ہے اور بار بار اس کی تکرار سننے میں آتی ہے کہ اسلامی انتہاپسندی آج دنیا کے لیے ایک عذاب ہے۔ [نوٹ: یہ نائن الیون سے پہلے کی بات ہے ]۔

برزنسکی: خرافات۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب کی اسلام کے متعلق ایک عالمی پالیسی ہے۔ یہ احمقانہ بات ہے کیونکہ عالمی اسلام نامی چیز وجود نہیں رکھتی ہے۔ اسلام پر جذباتی خطابت کا شکار ہوئے بغیر ایک منطقی نظر ڈالیں۔ یہ دنیا کا ایک ممتاز مذہب ہے جس کے ڈیڑھ ارب ماننے والے ہیں۔ لیکن بنیاد پرست سعودی عرب، اعتدال پسند مراکش، عسکریت پسند پاکستان، مغرب نواز مصر، اور سیکولر وسطی ایشیا میں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس کی بنا پر عیسائی ملک جڑتے ہیں۔

اس انٹرویو کے محض تین برس بعد امریکہ کے تیار کردہ یہی ”مشتعل مسلمان“ جب نیویارک کے ٹوین ٹاورز پر حملہ آور ہوئے تو مغرب کو احساس ہونے لگا کہ وہ کمیونسٹوں کا خاتمہ کرنے کے چکر میں اس سے زیادہ بڑی مصیبت مول لے بیٹھے ہیں۔

جب اس حملے کے بعد مغربی شہریوں کا طرز زندگی بدلنے لگا تو اس وقت انہیں یہ لگنے لگا کہ ان کے مصائب کا سبب مسلمان ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کرنے والے چند مسلمانوں کو ہی تمام مسلمانوں کا حقیقی چہرہ قرار دینا شروع کر دیا۔ پھر جب امریکہ اور پھر یورپ میں بھی پے در پے دہشت گرد حملے ہونے لگے تو مغربی عوام میں اس خوف نے شدت پکڑ لی جسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے۔

جس طرح مغرب نے عام مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر نفرت سکھا کر سوویت یونین کے کمیونسٹ نظریات سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی، اور نتیجے میں وہ سوویت یونین کے بعد امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ویسے ہی اب مغرب کے عام نوجوان بھی القاعدہ اور داعش کی دہشت گردی سے متاثر ہو کر عام مسلمانوں سے نفرت کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اہل مغرب بھی ہماری طرح انسان ہیں۔ روز بروز ان کی نفرت بڑھتی جائے گی۔ خاص طور پر امریکہ میں ہتھیار بھی عام ہیں۔ ادھر کے انتہاپسند بھی مسلمانوں کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کرنے کی طرف آئیں گے۔ یہ سلسلہ آسانی سے نہیں رکے گا بلکہ خدشہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ نیوزی لینڈ میں حملے کی خبر آتے ہی لندن کی ایک مسجد کے باہر چند انتہا پسند برطانوی افراد نے ایک نمازی کی گاڑی پر ہتھوڑوں سے حملہ کیا۔ وہ بمشکل جان بچا کر بھاگا مگر اس کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔

ایف بی آئی کے ایک سابقہ اعلی عہدے دار علی صوفان نے جو انسداد دہشت گردی پر کام کرتے رہے ہیں، کہا ہے کہ دائیں بازو کی اس انتہا پسندی کو بھی اسی انداز سے دیکھا جانا چاہیے جیسے مذہبی انتہا پسندی کو دیکھا جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈن کا کہنا ہے کہ ” (مسجد میں ) قتل کا ملزم انتہا پسندی کے ذیل میں انٹیلی جنس اداروں کی نظر میں نہیں آیا تھا، اور نہ ہی پولیس کی“۔
نیوزی لینڈ کی آبادی چھیالیس لاکھ کے قریب ہے۔ ادھر بارہ لاکھ رجسٹرڈ ہتھیار ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ادھر آتشیں ہتھیاروں سے قتل کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ سنہ 2007 سے اب تک آتشیں ہتھیار سے قتل ہونے والوں کی تعداد ہر برس دس سے کم رہی ہے، سوائے 2009 کے جب یہ نمبر گیارہ تھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈن نے ہتھیاروں کی پالیسی پر نظرثانی کا اعلان کیا ہے۔

لیکن مسئلہ ہتھیاروں کا نہیں ہے۔ مسئلہ نفرت کا ہے۔ جب نفرت ہو تو لندن کے حملے کی طرح ہتھوڑا بھی ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس نفرت کے خاتمے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ مسلمان مغرب میں محفوظ نہیں رہیں گے۔ اور یہ نفرت انتہا پسندوں کو مغرب کا حکمران بنا کر مسلم اکثریتی ممالک میں رہنے والوں کو مزید تباہی کا شکار بھی کرے گی۔ لیکن کیا ہم اپنی مغرب سے نفرت ختم کیے بغیر اہل مغرب کی خود سے نفرت ختم کر سکتے ہیں؟ ہم انہیں اپنے جیسا انسان نہیں سمجھیں گے تو کیا وہ ہمیں اپنے جیسا انسان سمجھیں گے؟

اس سلسلے میں ایک بہت دلچسپ کام ہو رہا ہے۔ مغرب میں دائیں بازو کے انتہا پسند مسلمانوں کے علاوہ جس کمیونٹی پر حملہ کر رہے ہیں، وہ یہودی ہیں۔ یہودیوں کے لئے ہفتے کا دن عبادت کا دن ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی یہودی عبادت گاہوں نے مساجد میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ہفتے کے دن مسلمانوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے سائنا گاگ بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ آسٹریلیا کی صیہونی فیڈریشن نے تمام یہودیوں سے یوم سبت پر کرائسٹ چرچ کے مسلمانوں کے لئے دعا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس نے کہا ہے

”ہم یہودی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ خوف کے عالم میں زندہ رہنا کیسا ہوتا ہے۔ پٹس برگ میں ٹری آف لائف کا قتل عام ابھی تک ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ ہم نے اس وقت بھی ایکشن کا مطالبہ کیا تھا اور ہم اس مرتبہ بھی ایکشن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہودی کمیونٹی دہشت گردی کے اس شاکنگ واقعے اور نسلی بنیاد پر ہونے والے نفرت آمیز جرم پر مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہے۔ دعا ہے کہ ان (مقتولین) کی یاد ایک رحمت ثابت ہو۔ سبت کی سلامی“۔

مغرب کے انتہا پسندوں کے خلاف مسلماوں کے اتحادی یہودی بن رہے ہیں۔ جیسے اندلس پر انتہا پسند مسیحیوں کے حملے کے وقت یہودی اور مسلمان اتحادی بنے تھے اور اندلسی یہودیوں کو خلافت عثمانیہ نے پناہ دی تھی، بظاہر وہی منظرنامہ دوبارہ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف ہم ہر برے کام پر یہودیوں کو الزام دیتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی پالیسی بدلنی ہو گی، اسرائیل یا بھارت کی بدمعاشیوں پر ہمیں عام یہودیوں اور ہندوؤں کو مورد الزام ٹھہرانے اور ان سے نفرت کا درس دینے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar