”پنجاب دے لجپال پتر“ اور نواز شریف


”پنجاب دے لجپال پتر“ اقبال اسد کی پنجابی زبان میں تحریر کردہ تصنیف ہے۔ اس تصنیف میں پنجاب دھرتی کے ان بیٹوں کا تذکرہ ہے جو اپنے وقت کی ان قوتوں سے ٹکرائے جن کے پاس طاقت اور اختیار تھا۔ یہ فرزندان پنجاب مزاحمت کا نشان اور استعارہ تھے۔ پنجاب کے ان بہادر سپوتوں نے مصالحت کی بجائے مزاحمت کی راہ چنی۔ راہ مزاحمت کو انہوں نے راہ عزیمت بنایا جس کی پاداش میں زنداں، کوڑے، پھانسیاں ان کا مقدر بنیں۔ دنیا بھر کی طرح پنجاب کے ان جری سپوتوں کو با اختیار قوتوں کے ہاتھوں ہر نوع کا ظلم سہنا لڑا۔

پنجاب کے یہ فرزند جابر قوتوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کا خاکی وجود تو تحلیل ہو گیا لیکن تاریخ میں ان کا نام امر ہو گیا۔ اپنے وقت کی با اختیار قوتیں کسی کا جسمانی وجود تو مٹانے پر قادر ہوتی ہیں لیکن تاریخ پر ان کا بس نہیں چلتا، تاریخ کسی کا ادھار نہیں رکھتی اس لیے تو ان کے نام زندہ جاوید کر دیتی ہے جو اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور تمام تر ترغیب و تحریص، جبر اور دباؤ کے باوجود نہیں جھکتے۔

پنجاب کی تاریخ ایسے بے شمار کرداروں سے مزین ہے جو قوت و اختیار کی حامل قوتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور جھکنے سے انکار کیا۔ پنجاب کے یہ کردار لوک کہانیوں کا حصہ بنے جن کی شجاعت و بہادری کی داستانیں سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ان جری سپوتوں کے قصے پنجاب کی لوک کہانیوں کا کچھ یوں لازمہ ہیں کہ لوک کہانیاں ان کے ذکر کے بغیر ادھوری لگتی ہیں۔ دلا بھٹی پنجاب کا ایک تاریخی کردار ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے دور میں وقت کی جابر قوتوں سے ٹکرایا۔

دلا بھٹی پنجاب کی لوک داستانوں میں اس طرح امر ہو گیا کہ آج تک اس کی بہادری کی داستانیں زندہ جاوید ہیں۔ جب اکبر نے دلا بھٹی کو سر عام پھانسی دی تو اس کا مقصد یہ تھا کہ بھٹی خوف سے کانپے گا تاہم وہ جوانمردی سے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ رائے احمد نواز خان کھرل بھی پنجاب کا سپوت تھا جو انگریز سامراجی قوت کے سامنے مزاحمت بن کر ابھرا۔ یہ جری شخص انگریز کے سامنے کچھ یوں سینہ تان کر کھڑا ہوا کہ اس کا نام تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ کے لیے شجاعت و بہادری کی وجہ سے ثبت ہو گیا۔ اس کی بہادری کی داستان کچھ یوں رقم ہوئی کہ آج تک کہا جاتا ہے

ڈھوکاں یاد کریندیاں

رائے کھرل دیا احمد خاناں

بھگت سنگھ بھی پنجاب کی دھرتی کا سپوت تھا جو انگریزی حکومت کے خلاف انقلابی بن کر ابھرا اور پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ بھگت سنگھ آج بھی آزادی کے متوالے کے طور پر تاریخ کے اوراق میں تابندہ ہے۔ پنجاب کے ان سپوتوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے ماضی میں اختیار و طاقت کی حامل قوتوں کے خلاف جدو جہد کی اور اور راہ عزیمت پر چل کر تکالیف اور مصائب کو گلے لگایا لیکن اپنی گردن نہیں جھکائی۔ ماضی کے ان کرداروں کے ذکر کو یہیں ختم کرتے ہیں اور زمانہ حال میں جھانکتے ہیں۔

پنجاب کی دھرتی پر جنم لینے والا ایک فرد ایک فوجی آمر کے سایہ شفقت تلے سیاست میں وارد ہوتا ہے۔ اپنی سیاست کے لیے وہ ”جاگ پنجابی جاگ“ کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ وقت کی مقتدر قوتوں سے سازباز کر کے برسر اقتدار آتا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد اس کی مڈبھیڑ انہی قوتوں سے ہوجاتی ہے جنہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے اس کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ ڈکٹیشن لینے سے انکار کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

یہ ایک بار پھر اقتدار سنبھال لیتا ہے لیکن اس وقت کی مقتدر قوتوں سے اس کی پھر نہیں بنتی اور وہ اس کی دو تہائی اکثریت کو آمریت کے کلہاڑے سے کاٹ ڈالتے ہیں۔ یہ اسیری کاٹ کر ہمدردیاں سمیٹ رہا ہوتا ہے کہ اچانک جلا وطنی اختیار کر لیتا ہے۔ ملک سے باہر جانے کے لیے ڈیل کر کے یہ ہر طرف سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ ایک بار پھر معاہدے کے ذریعے ملک واپس آتا ہے اور قصر اقتدار میں پہنچ جاتا ہے۔ اب پھر اس کی مقتدر قوتوں سے نہیں بنتی۔

مقتدر قوتیں اسے اقتدار سے باہر کرنے کے لیے پھر ایک بار کمربستہ ہوتی ہیں اور آخر کار اسے اقتدار سے باہر کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ یہ فرد جو اس وقت پس زنداں ہے وہ پاکستان کا تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود ہے۔ اس سے ملاقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف اب ایک بدلا ہوا شخص ہے۔ یہ شخص اب جیل سے نہیں ڈرتا اس لیے مقتدر قوتوں سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

یہ شخص وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ اپنی شریک حیات کو بھی کسمپرسی کی حالت میں کھو چکا ہے اس لیے اب اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تو وہ اس لیے ڈٹا ہوا ہے کہ وہ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرے گا۔ اس کا بھائی اور جماعت مصالحت کے حق میں ہیں جب کہ یہ مزاحمت کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہو چکا ہے۔ اس شخص کو یقین ہو چکا ہے کہ اس کی سیاسی وراثت اب اس کی بیٹی کے ہاتھوں میں محفوظ ہوچکی ہے اور وہ بھی اس کی طرح مزاحمت کی حامی ہے۔

یہ شخص اب سوچتا ہے کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ سازباز کر کے اقتدار حاصل کیا لیکن اختیار سے محروم رہا اس لیے اب ایسے اقتدار کا متمنی نہیں جو اختیار سے خالی ہو۔ اس کے ملاقاتی اب اس کے بارے میں جیل سے باہر آکر جو باتیں بتاتے ہیں تو قیاس ہوتا ہے کہ کسی انقلابی کی روح اس کے اندر حلول کر چکی ہے۔ یہ نواز شریف شاید وزیراعظم بن کر میڈیا کی سرخیوں میں نہیں بلکہ تاریخ میں امر ہونا چاہتا ہے۔ تاریخ کسی کا ادھار نہیں رکھتی۔ کیا تاریخ نواز شریف کے مقدمے میں بھی ایسا کرے گی؟ کیا ”پنجاب دے لجپال پتر“ کی فہرست میں نواز شریف کی صورت میں نیا اضافہ ہونے جا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).