ایوارڈ کتنے سستے دے دیے جناب نے


حکومتِ پاکستان ہر سال تئیس مارچ کو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اعلیٰ سول ایوارڈز سے نوازتی ہے۔ ہر سال چودہ اگست کو منتخب افراد کے ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے اور آئندہ سال تئیس مارچ کو صدرِ پاکستان ان افراد کو ایوارڈز سے نوازتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اس سال تئیس مارچ کے دیے جانے والے ایوارڈز کی فہرستوں کا اعلان کیا ہے۔ یقین مانئیے کہ اس فہرست کو دیکھ کر پہلا تاثر یہی تھا کہ کتنے سستے بیچ دیے صاحب۔

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں ایوارڈ ملنے سے ایوارڈ کی اپنی وقعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عموماً پرائیڈ آف پرفارمنس اور نشانِ امتیاز وغیرہ پانے والے افراد اپنے اپنے شعبوں میں لیجنڈ کا درجہ رکھتے ہیں۔

ان لوگوں کی ملک کے لئے گرانقدر خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ ان ایوارڈز کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عبدالستار ایدھی کو نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جو اس ایوارڈ کے لئے باعثِ فخر ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب کو ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز   سے نوازا گیا۔ جن لوگوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملتا ہے، یقین مانیے کہ وہ بہت ہی بڑے نابغہ روزگار لوگ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر انتظار بٹ، ڈاکٹر امجد ثاقب وغیرہ کو تو ابھی کسی ایوارڈ کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بلامبالغہ لاکھوں زندگیاں بہتر بنا چکے ہیں۔

گزشتہ کچھ عشروں سے جیسے ہمارا پورا معاشرہ روبہ زوال ہے، اسی طرح ایوارڈ پانے والی شخصیات کا معیار بھی کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی دور میں ان ایوارڈ کی نیلامی، جسے آپ ایوارڈز کی عزت کی نیلامی بھی کہہ سکتے ہیں کو سلسلہ شروع ہوا اور ایسے ایسے عامیوں کو ایوارڈز دیے گئے کہ خدا کی پناہ۔ رحمٰن ملک اور شرمیلا فاروقی جیسے لوگوں کو ایوارڈز ملے، ڈاکٹر عاصم، ڈاکٹر محمد علی شاہ کو بھی ایوارڈز ملے۔ کئی بزنس مین، مضبوط لابنگ والی این جی اوز اور جانے کون کون۔

اس سال ایوارڈز کی فہرست دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اداکارہ بابرہ شریف بلاشبہ اپنے وقت کی بہترین اداکارہ تھیں، لیکن پچھلے قریب تیس سال سے فلم انڈسٹری سے باہر ہیں، گذشتہ ایک سال میں یا تین عشروں میں کوئی نمایاں کام نہیں، اس کے باوجود ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ اداکارہ مہوش حیات کسی بھی طرح اس درجے تک نہیں پہنچتی۔ اس کی واحد وجہ شہرت آئٹم نمبر ہیں۔ اداکاروں کے موجودہ دور میں اگر کوئی اداکار یا اداکارہ لیجنڈ کا درجہ رکھتا یا رکھتی ہے تو وہ حنا دلپذیر صاحبہ ہیں۔ (ماضی کے معروف اداکار جو ابھی بھی کام کر رہے ہیں کے علاوہ) ۔

کھیلوں کے شعبے میں وسیم اکرم اور وقار یونس کو نشانِ امتیاز اور یاسر شاہ کو ستارہ امتیاز سے نوازا جائے گا۔ وسیم اکرم اور وقار یونس اپنے وقت کے لیجنڈز ہیں۔ اگرچہ جسٹس قیوم رپورٹ کو نظر انداز کرنا آسان نہیں، لیکن وسیم اور وقار نوجوانوں کے لئے لیجنڈز کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن یاسر شاہ؟ ٹیسٹ میچوں میں تیز ترین دو سو وکٹیں۔ کیا یہ ایک لیجنڈ کا درجہ پانے کے لئے کافی ہے؟

صحافت کے شعبے میں سب سے برا حال ہے۔ ہارون الرشید، حسین نقی، سجاد میر، مجاہد بریلوی وغیرہ کے پائے کے لوگوں کو نظرانداز کر کے ارشد شریف کو پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملنا تعجب کا باعث ہے۔ ارشد شریف کی واحد قابلیت اے آر وائے پر مسلسل عمران خان کی کمپین کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے؟ ادب کے شعبے میں ایسے ایسے نابغے ہیں کہ فہرست طویل ہو جائے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایوارڈز کی فہرست بنانے والے ادب سے بالکل نا آشنا ہیں۔

سماجی خدمت کے شعبے میں ڈاکٹر ادیب رضوی جو لاکھوں لوگوں کے گردوں کا مفت علاج اور ٹرانسپلانٹ کر چکے ہیں، ڈاکٹر امجد ثاقب جو مائکروفنانس کے ذریعے پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کر چکے ہیں، ڈاکٹر انتظار بٹ جو سفید موتییے کے ڈیڑھ لاکھ مریضوں کا مفت آپریشن کر چکے ہیں، غزالی ٹرسٹ، سیلانی، چھیپا اور بلقیس ایدھی صاحبہ، ایسے لوگ کسی فہرست بنانے والے کو نظر نہیں آئے۔

شہید سراج رئیسانی کو تمغہ شجاعت دیا جائے گا، کو کہ مستحسن فیصلہ ہے۔ لیکن کیا ہارون بلور اسی الیکشن میں اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنا؟ محض اس لئے کہ اس کا تعلق مخالف پارٹی سے ہے، آپ اسے ایوارڈ نہیں دیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).