گلگت بلتستان کی سیاحت دہشتگردی کی لپیٹ میں


نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کی دو مساجد میں گھس کر 49 نمازیوں کو شہید کردیا گیا۔ تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہوگا جہاں دنیا بھر میں امن و امان کے لحاظ سے معروف علاقے میں اس قسم کی وحشت بھری کارروائی کی گئی ہے کہ جس میں باقاعدہ کیمرہ لگا کر سوشل میڈیا میں لائیو دکھاتے ہوئے کارروائی کی گئی ہو۔ اس دردناک واقعہ کے مرکزی ملزم کی ’برنٹن ٹارنٹ‘ نام سے نشاندہی کی جارہی ہے جبکہ کارروائی میں اس کے علاوہ ایک خاتون سمیت دیگر لوگ بھی ملوث ہیں۔

سوشل میڈیا میں وائرل ہونے ہونے والی ویڈیو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ’مسلمانوں‘ پر دہشت گردی کے دھبے کی وجہ سے آسان ہوگیا تھا کہ کسی بھی مذہبی شخصیت یا عبادت گاہ میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا تو اسے فوری مسلمانوں کے سرتھوپا جاتا تھا اور اگر بدقسمتی سے اس قسم کے کسی واقعے میں مسلمان ملوث بھی ہوتا تو طوفان بدتمیزی ہی برپا ہوتا تھا۔ لیکن اب مسلمانوں کے جمعہ کے اجتماع اور نمازیوں پر ہونے والی اس بدترین دہشتگردی میں پوری دنیا کے میڈیا نے ’برنٹن ٹارنٹ‘ کا مذہب اور عقائد جانچنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی عالمی میڈیا میں اس کے نام کے ساتھ دہشت گرد استعمال ہو رہا ہے۔

نیوزی لینڈ کے شہرکی مسجد النور میں سفاکانہ واقعہ کے مرکزی ملزم برنٹن ٹارنٹ نے اس حملے سے قبل اپنی تخریبی کارروائیوں کے حوالے سے ایک کتابچہ بھی جاری کر دیا جس میں خود کو متعصب نسل پرست قرار دیا لیکن کارروائی مکمل طور پر مذہبی کی۔ اس واقعہ کی پوری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے اور مسلم حلقوں میں یہ بات بھی محسوس کی جارہی ہے کہ 50 بے گناہوں کی قربانی دے کر انہیں اپنے چہرے سے دہشت گرد کا دھبہ صاف کرنا پڑ رہا ہے جو یقینا بہت بڑی قربانی ہے۔

مسلم ممالک میں بھی اس واقعہ کے ردعمل میں توڑ پھوڑ یا دہشت گرد کارروائیاں دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جو کہ ایک نیک شگون ہے لیکن سفارتی سطح پر جن لوگوں کو یہ بات اٹھانی ہے وہ ایک مرتبہ پھر روایتی طور پر کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اپنائے ہوئے ہیں۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز ہو یا سعودی عرب کی سربراہی میں موجود مسلم ممالک کا اتحاد ہو انہیں مسلمانوں کے ان مسائل پر سفارتی سطح پر آواز بلند کرتے ہوئے اپنا جاندار کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر مسلمانوں پر دہشتگردی کا دھبہ لگتا رہے گا۔ خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے نکلنے کے لئے عام لوگ کوئی بھی حرکت کرنے سے کتراتے نہیں ہیں۔

28 سالہ آسٹریلوی برنٹن ٹارنٹ گزشتہ سال گلگت بلتستان میں بطور سیاح آیا ہوا تھا جس کی تصدیق مقامی ہوٹل مالکان نے کردی ہے۔ اس قسم کے وحشیانہ سوچ رکھنے والے لوگ اگر سیاحوں کی شکل میں گلگت بلتستان آئیں اور اداروں کو علم بھی نہ ہوں تو یہ پریشان کن معاملہ ہے۔ گلگت بلتستان میں جہاں سیاحت کے بے شمار مواقع موجود ہیں وہاں یہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے انتہائی حساس اور خطرناک بھی ہے۔ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ، دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر ملکی اور بین الاقوامی سطح کے منصوبوں کی یہاں سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی طور پر یہ خطہ پاکستان دشمن ممالک کے نظروں میں ہے کیونکہ دنیا میں پاکستان کے دشمن ممالک کا موجود ہونا بعید نہیں۔

تین سال قبل روزنامہ اوصاف ہی کی خبر تھی کہ گلگت بلتستان میں سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہندوستان نے ابتدائی طور پر 36 لاکھ ڈالر مختص کر دیے ہیں۔ ہندوستان نے اس رقم کو خفیہ طور پر گلگت بلتستان پہنچانے کے لئے آف شور کمپنیوں کی مدد لینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی رو سے یہ رقم افریقی ممالک، ترکی، دبئی اور دیگر ممالک کے ذریعے افغانستان منتقل ہوگی جہاں سے سیاحوں کے ذریعے مذکورہ رقم پاکستان اور پھر بعد میں گلگت بلتستان منتقل کردی جائے گی۔

اس خبر پر کسی بھی حلقے کی جانب سے تردید نہیں آئی۔ اس سال گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کی بھرپور نگرانی کرنے کی کوشش کی گئی تاہم گلگت بلتستان میں نگرانی کے لئے اتنی افرادی قوت نہیں تھی کہ جس کے ذریعے ہر سیاح کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جا سکے یا نگرانی کی جا سکے جس پر حساس اداروں کو بڑی مشکلات بھی پیش آئیں۔ اُنہی دنوں میں وفاقی حکومت نے غالباً ان وجوہات کی بنا پر غیر ملکی سیاحوں کے لئے این او سی لازمی قرار دیا تھا لیکن شدید احتجاج کے بعد فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ موجودہ حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لئے ایک قدم بڑھ کر کئی ممالک کے لئے ’پاکستان پہنچنے پر ویزہ‘ کی سہولت کا اجرا کر دیا ہے جو سیاحت کی بہتری کے لئے بہت بڑا قدم ہے لیکن سیکیورٹی کے زاویہ کو نظر انداز کردیا گیا۔ گلگت بلتستان کی صورتحال کراچی، لاہور اور اسلام آبادسے یکسر مختلف ہے۔

اس ضمن میں دو رائے نہیں کہ قدرتی حسن، صاف فضائی، تاریخ، ثقافت اور دیگر سیاحتی علامات و اجزا کا حامل علاقہ سیاحوں کے لئے ہمیشہ کشش رکھتا ہے جس کی وجہ سے مقامی طور پرلوگوں کو روزگار، ملازمت اور ایک معاشی قوت مل جاتی ہے جس کے ذریعے وہ معیار زندگی کو بلند کرتے ہیں۔ سیاحت کا شمار دنیا بھر میں ’بڑے پیمانے کی سرگرمیوں‘ میں ہوتا ہے اور سیاحت سے شغف رکھنے والے لوگوں کے لئے ہر فارغ لمحہ، ہر اہم لمحہ سیاحت کے لئے موزوں ہوتا ہے اور ان کی ترجیح ہوتی ہے کہ درج بالا لوازمات کے حامل علاقوں کی طرف رخ کریں۔

آسٹریلوی شہری جس نے نیوزی لینڈ میں بربریت اور سفاکیت کی ایک داستان رقم کردی ہے، کی گلگت بلتستان میں بطور سیاح گزشتہ سال آنے کے بعد اس بات میں کوئی بھی شک شبہ باقی نہیں رہتا کہ کل سیاحت کی آڑ میں اور سیاحوں کی شکل میں کوئی بھی گلگت بلتستان آسکتا ہے جس کے عزائم کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کا معاملہ اس لئے بھی دیگر علاقوں سے یکسر مختلف ہے کہ جب انڈیا نے بالاکوٹ میں اپنا ہوائی جہاز بھیج کر ایک ناٹک کے ذریعے تین سو دہشت گردوں کو مارنے کا اعلان کیا اور پوری دنیا میں اس کو ثابت نہ کر پانے کی وجہ سے سبکی اٹھانی پڑی تو امریکہ میں مقیم نام نہاد گلگت بلتستانی سنگ حسنین نے اس بات کی تصدیق کرکے پاکستان مخالف حلقوں میں اپنا قد اونچا کرنے کی ناکام کوشش کی جو کہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

سنگ حسنین سرنگ نامی اس انڈین نمک خوار کے جی بی کے حوالے سے اوٹ پٹانگ بیانات پہلے ریکارڈ پر آچکے تھے اب وہ پاکستان کے خلاف بھی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر اتر آ گیا۔ سنگ حسنین سرنگ کے بیان کے ذریعے انڈین میڈیا ہندوستان پر پاک فوج کے بھرپور جوابی کارروائی کے دھبے اور ناکام سرجیکل سٹرائیک کے دھبے کو مٹانا چاہتا ہے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ پوری دنیا نے پاک فوج کی صلاحیتوں کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

گلگت بلتستان صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو سیاحت کے حوالے سے کڑوی پالیسی بنانی پڑے گی بصورت دیگر حساس اور نازک معاملات پر پتھر مار کر ہلچل پیدا کرنا مشکل کام نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).