ستائیس فروری کو دراصل کیا ہوا تھا؟


بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جس روز پاکستانی حکام نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا تھا اور اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی اور ہتھکڑیوں والی تصویر بھارتی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اسی شام بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے ایک ’محفوظ‘ ٹیلی فون لائن پر پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ عاصم منیر سے بات بھی کی تھی۔ جس میں اجیت دوول نے بغیر اہداف کی تخصیص کیے پاکستان پر کم از کم چھ میزائل فائر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جواب میں جنرل عاصم منیر نے اجیت دوول کو صاف صاف بتا دیا کہ، اگر آپ ہم پر ایک میزائل فائر کریں گے تو جواباً ہم سے تین میزائلوں کی توقع رکھیں۔

اجیت دوول کے پاس جنرل عاصم کی بات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا، کیونکہ پاکستان ستائیس فروری کی صبح ہی اپنی جوابی وار کرنے کی صلاحیت ہندوستان پر اچھی طرح سے ثابت کر چکا تھا۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی، جب مقبوضہ کشمیر میں لیتھ پورہ ضلع پلوامہ میں جموں سری نگر ہائی وے سے گزرنے والے نیم فوجی دستوں کے کانوائے کی ایک بس کو ایک مقامی حریت پسند نوجوان عادل احمد ڈار نے خودکش حملہ کر کے بارود سے اڑا دیا۔ اس واقعے میں چالیس سے زیادہ نیم فوجی اہلکار مارے گئے۔ حسب معمول اس حملے کے فوراً بعد بھارت کی طرف سے پاکستان پر اس حملے کی پشت پناہی کرنے کا الزام تھوپ دیا گیا۔

دراصل اس واقعے سے بہت عرصہ پہلے سے ہندوستانی میڈیا کے ذریعے سے حکمران جماعت بی جے پی نے بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت کو عروج پر پہنچا دیا تھا، تاکہ آمدہ انتخابات میں ہندو اکثریتی ووٹرز کو لبھایا جا سکے۔ اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پہلے سے پھیلائی گئی نفرت کے ساتھ غصہ اور بدلہ لینے کے مطالبات بھی شامل ہو گئے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے چھپن انچ کی چھاتی دکھانا اب ضروری ہو گیا تھا۔ دراصل پاکستان کے نرم اور معذرت خواہانہ رویے اور خراب اقتصادی صورت احوال نے بھی بھارتی رہنماؤں کی جارحیت کی خواہش کو شہہ بخشی تھی۔

پچیس اور چھبیس فروری کی درمیانی شب ہندوستانی فضائیہ کے میراج 2000 طیارے رات کی تاریکی میں پاکستانی فضائی حدود میں ساٹھ کلومیٹر تک اندر چلے آئے تھے اور بالاکوٹ کے نزدیک جابہ کے مقام پر بم برسا کر بحفاظت واپس چلے گئے۔ چھبیس مارچ کی صبح آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے اس حملے کی خبر ایک ٹویٹ کے ذریعے سے دی، جس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کوئی جانی نقصان نہی ہوا۔ جبکہ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے فارن سیکیرٹری وجے گوکھلے نے چھبیس مارچ کی صبح ایک پریس کانفرنس میں بالاکوٹ کے مقام پر جیش محمد کے ایک ٹریننگ کیمپ پر حملے کی خبر دی، جس میں ان کے مطابق بھارت پر ایک اور حملے کی منصوبہ بندی میں مصروف جیش کے جہادیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں بہت سے جہادی مارے گئے اور ان کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا تھا۔

اگرچہ بین الاقوامی میڈیا کو ہندوستانی دعووں کے کوئی ثبوت نہی ملے۔ مگر اس حملے کی علامتی حیثیت بہت زیادہ تھی، جس نے پاکستانی افواج اور فضائیہ کی دفاعی صلاحیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیے تھے۔ ادھر اس عمل سے بظاہر مودی پورا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے تھے، پورے ملک میں جشن کا سماں تھا۔ مٹھائیاں بانٹی جاتی رہیں اور بدھائیوں کا شور برپا ہو گیا۔ پاکستان کو خاصی خفت اٹھانا پڑی تھی اور بھارتی پاکستان سے کسی بھی طرح کے جوابی وار کی کوئی توقع نہی رکھتے تھے۔

بھارتی ٹی وی چینلوں میں وار روم بنا دیے گئے تھے اور ایک آدھ ٹی وی چینل پر تو اینکر باقاعدہ فوجی وردی پہن کر شام تک بکرے بلاتے رہے۔ پاکستان میں عام لوگ خاصا دباؤ محسوس کرتے رہے۔ بے شبہ ستائیس فروری کی صبح پاکستانی فضائیہ کی بھر پور جوابی کارروائی نے بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بھی چونکا کر رکھ دیا۔ سب سے پہلے آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے پہلے ٹویٹ کر کے ہندوستانی فضائیہ کے دو جہاز مار گرائے جانے کی خبر دی، جن میں سے ایک کا ملبہ پاکستان اور دوسرے کا مقبوضہ کشمیر میں گرا، اور ان کی اطلاع کے مطابق دونوں جہازوں کے پائلٹس کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس کے بعد ہندوستان سمیت پوری دنیا کے میڈیا پر جلتے ہوئے ہندوستانی جہازوں کی تصاویر اور ویڈیوز گردش کرنے لگیں۔ ہندوستان کی طرف سے ان کی فضائیہ کے ایک مگ 21 جہاز کے فضائی معرکا میں ضائع ہونے کی تصدیق کی گئی، جس کا پائلٹ بے پتا ہونے کی خبر دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی فضائیہ کی طرف سے ایک پاکستانی ایف سولہ جنگی جہاز کو مار گرانے کا دعوا بھی کیا گیا۔ اسی دوران بھارتی میڈیا پر پہلے سوخوئی 30 ایم کے آئی اور پھر مگ 21 کے تیکنیکی خرابی کی وجہ سے گرنے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

یہ جہاز بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بڈگام کے مقام پر گرا۔ اس جگہ پر عینی شاہدین اور بھارتی میڈیا کے مطابق دو پائلٹس اور ایک مقامی شخص کفایت اللہ جو کہ جلتے ہوئے طیارے کی زد پہ آ گیا تھا کے ہلاک ہونے کے شواہد ملے۔ اسی دوران مقبوضہ کشمیر ہی میں ہندوستانی فضائیہ کے ایک ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے کی خبریں بھی چلنے لگیں۔ دوپہر سے پہلے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ “ہم نے ایل او سی کے پار چھے ٹارگٹس سیٹ کیے تھے جن کو پاکستانی فضائیہ نے کامیابی سے نشانہ بنایا، لیکن یہ خیال رکھا گیا کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو، اس دوران پاکستانی فضائی حدود میں در آنے والے ہندوستانی فضائیہ کے دو جہازوں کو مار گرایا گیا۔ ان میں سے جہاز کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتمان اس وقت پاکستانی فوج کی حراست میں ہے”۔

اس پریس کانفرنس کے کچھ دیر بعد ہی پاکستانی میڈیا پر پائلٹ کی اعترافی ویڈیو بھی جاری کر دی گئی۔ اس وقت تک ہندوستانی حکومت اور میڈیا پاکستان کی طرف سے کیے گئے دعووں کا انکار کرتے رہے، لیکن سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سے پہلے بھارتی پائلٹ کی پٹائی اور اس کے بعد گرفتاری کی خبریں ہندوستان کے گھر گھر تک پہنچ چکی تھیں۔

ناچار دیر گئے ہندوستانی حکومت کو بھی بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کی تصدیق کرنا پڑی۔ ستائیس فروری کی صبح سے لے کر شام تک بھارتی حکومت اور میڈیا کو کئی بیان بدلنا پڑے۔ دراصل وہاں اب تک آئی ایس پی آر کی طرح کا کوئی منظم ادارہ تشکیل نہیں پا سکا جو ہندوستانی افواج سے متعلق صحیح صورت احوال دنیا کے سامنے پیش کر سکے، اسی وجہ سے کبھی وزارت خارجہ تو کبھی وزارت دفاع کے افسران کو آگے آکر صورت احوال کو سنبھالنے کی کوشش کرنا پڑی۔

ایک پریس کانفرنس میں ہندوستانی فضائیہ کی مفربی کمان کے سربراہ تو موجود تھے لیکن انہیں بولنے نہیں دیا گیا تھا۔ بہرحال شام تک بھارتی ٹی وی چینلز پر فوجی وردی میں ملبوس آگ اگلتے اینکرز اور جنگ پسند ریٹائرڈ جرنیلوں کی جگہ منجھے ہوئے سفارت کار اور قانون دان لے چکے تھے جو جینیوا کنوینشن میں جنگی قیدیوں کو دیے گئے حقوق کی باریکیاں سمجھا رہے تھے۔ اس دن مودی جی منہ سر لپیٹ کر میڈیا سے دور رہے، جب کہ عمران خان منظر نامے پر چھائے رہے۔

اٹھائیس فروری کو ہندوستانی میڈیا پر کچھ معقول آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ پاکستان کے ایک ہی چانٹے سے بھارتی سورماؤں کا جنگی بخار اتر چکا ہے۔ اب سارا زور ہندوستانی پائلٹ کی واپسی پر لگایا جانے لگا۔ اس دن مودی سرکار سخت داخلی دباؤ کا شکار نظر آئی۔ لوگوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ بالآخر سہہ پہر کو پاکستانی وزیر اعظم نے پارلیمان میں ہندوستانی کو جنگ سے گریز کا مشورہ دینے ساتھ ہی خیر سگالی کے طور پر بھارتی پائلٹ کو واپس وطن بھجوانے کا اعلان کیا۔

اس سارے طوفان کے گزر جانے کے بعد شام تک تینوں ہندوستانی افواج کے نمایندوں نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں پاکستان کی طرف سے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بمباری کا اعتراف کیا گیا۔ جب ان سے ہندوستانی فضائیہ کی طرف سے گرائے جانے والے پاکستانی ایف سولہ جنگی جہاز کے ملبے اور پائلٹ کے بارے سوال کیا گیا، تو وہ پاکستان کی طرف سے فائر کیے گئے ایک امریکی ساختہ میزائیل کا ایک ٹکڑا لے آئے، جو ان کے دعوے کے مطابق صرف ایف سولہ جہاز ہی استعمال کر سکتے ہیں۔

اس پریس کانفرنس میں بھی اس دن ہندوستانی فضائیہ کے باقی مارے جانے والے آٹھ افراد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا نہ ہی ان مرنے والوں کے لئے کوئی دکھ کا اظہار کیا گیا، اور تمام زور اور سوالات واحد مگ 21 اور اس کے پائلٹ کے گرد ہی گھومتے رہے۔ دراصل ایک ہی دن میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اپنے سے کئی گنا چھوٹی پاک فضائیہ کے ہاتھوں اپنے دو جنگی جہازوں اور ایک ہیلی کاپٹر کی تباہی کی خبر اس قدر شرمندہ کر دینے والی تھی کہ اس کو دبانا ہی پڑا۔

یاد رہے پاکستان نے ہندوستانی فضائیہ کے دو طیاروں کو نشانہ بنانے کی تصدیق کی تھی، جب کہ ہندوستانی فضائیہ کے اسی دن کریش ہونے والے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کو گرانے کا کوئی دعوا نہی کیا تھا۔ پاکستان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ یہ ہیلی کاپٹر بدحواسی میں ہندوستانی جنگی جہازوں کے فرینڈلی فائر کا شکار ہوا تھا۔ اس بھارتی ہیلی کاپٹر میں مرنے والے ہندوستانی فضائیہ کے چھے اہلکاروں کے نام ونگ کمانڈر سدھارتھ شرما، سکواڈرن لیڈر نناد مندگونی، سارجنٹ وکرانت شیراوت، کارپورل دیپک پانڈے، کارپورل پنکج کمار اور کمار پانڈے تھے۔

بڈگام میں گرنے والے ہندوستانی فضائیہ کے جہاز کے دو زندہ جل جانے والے پائلٹس کے نام کبھی سامنے نہیں لائے گئے۔ غالب امکان یہ ہے کہ گرنے والا جہاز جدید ترین روسی ساختہ سوخوئی ایس یو 30 ایم کے آئی ہی تھا۔ کیونکہ یہ جہاز ٹوین سیٹر ہوتا ہے جسے اڑانے کے لئے پائلٹ اور کو پائلٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگ 21 کے ٹرینر ویریینٹ میں دو سیٹر جہاز ضرور ہوتے ہیں، لیکن عام طور پر یہ سنگل پاِئلٹ جہاز ہی ہوتا ہے۔ لگتا نہیں کہ اس طرح کے فضائی معرکے میں ہندوستانی فضائیہ نے ایک کم تر درجے کے پرانے ٹوین سیٹر مگ 21 کو فضا میں بھیجا ہو۔

باقی رہا ہندوستان کی طرف سے مگ 21 کے پائلٹ ابھی نندن کے ہاتھوں پاکستانی ایف سولہ جہاز گرانے کا دعوا، تو ہندوستان اس کا کوئی ثبوت کبھی بھی پیش نہی کر سکا۔ حتیٰ کے پاکستان سے رہائی پا کر وطن واپس جانے والے پائلٹ ابھی نندن ورتمان نے بھی کبھی ایسا دعوا نہیں کیا، جس کے بعد اسے فضائی اڑان کے لئے غیرموزوں قرار دے کر طویل رخصت پر گھر بھیج دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).