نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار شہباز شریف ہوں گے


سیاسی و سماجی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جرائم میں ملوث کسی سیاسی رہنما کی حمایت مہذب سماج میں تو ممکن نہیں ہوتی ہے۔ عوامی سطح پر احتجاج بھلے نہ ہو۔ عوام بے شک لاتعلقی کا اظہار کریں۔ سٹرکوں پر نہ نکلیں۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ قریبی رشتہ دار اور متعلقین بھی لاتعلق رہیں۔ خاموش رہیں۔ زیرعتاب سیاسی رہنما اگرکسی پارٹی کا سربرا ہ یاقائد ہو توپھر سیاسی رفقاء، پارٹی عہدے دار اور کارکن ساتھ دیتے ہیں۔ دفاع کرتے ہیں۔ ساتھ دینے اور ساتھ  نبھانے کا مروجہ سیاسی طریقہ احتجاج، مظاہرے، ہڑتالیں ہیں۔ یورپی، امریکی ممالک سمیت دنیا بھر میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی سیاسی رہنما کو کردہ ناکردہ جرم میں اقتدار چھین کر گرفتار کیا جاتا ہے تو بڑے بڑے احتجاج مظاہرے ہوتے ہیں۔ پہیہ جام ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ شہر کے شہر بند کر دیے جاتے ہیں۔ جیل بھرو تحریک شروع کردی جاتی ہے۔ عوامی دباؤ بڑھا کر جیل سے رہائی کرائی جاتی ہے۔

مگر نواز شریف کے معاملے میں صورتحال مختلف ہے۔ قبرستان سی خاموشی ہے۔ حالانکہ نواز شریف ڈکٹیٹر نہیں تھے۔ اقتدار پر شب خون نہیں مارا تھا۔ اقتدارکو غیر آئینی طول نہیں دے رہے تھے۔ چلی کے پنوشے یا عراق کے صدام کی طرح لمبے عرصے سے اقتدار پر قابض نہیں تھے کہ عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوچکی تھی۔ بلکہ خاص مدت کے لئے عوام کے منتخب وزیراعظم تھے۔ عوام میں ان کے خلاف کسی بنیاد پر نفرت نہیں تھی۔ دوسری جانب ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ تھے۔

وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے گئے، احتجاج نہیں ہوا۔ پارٹی قیادت سے ہٹا دیا، احتجاج نہیں ہوا۔ گرفتار ہوئے، احتجاج نہیں ہوا۔ جیل میں ہیں۔ پارٹی خاموش ہے۔ رفقاء چپ سادھے ہوئے ہیں۔ کارکنان غائب ہیں۔ بھائی شہباز شریف مست ہیں۔ پارٹی قیادت کررہے ہیں۔ نواز شریف کی جگہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر حکمرانی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی نئی قیادت کی جانب سے خاموشی اور اطمینان اس امر کو واضح کرتا ہے مخالفین کے موقف کو سچ سمجھا جارہا ہے کہ نواز شریف گناہ گار ہیں۔ انہیں وزارت عظمیٰ اور پارٹی سربراہی سے ہٹانا درست ہے۔ پانامہ سمیت تمام الزامات ٹھیک ہیں۔ بصورت دیگر مسلم لیگ ن وہی سیاسی جماعت ہے۔ جس نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی یا پھر اس وقت شہباز شریف کے لئے حالات موافق نہیں تھے کہ بڑے بھائی کو پچھاڑ سکتے۔ آج حالات نے پلٹا کھایا ہے تو شہباز شریف شیر بن کر سامنے آگئے ہیں۔ نواز شریف کو بھیگی بلی بنا دیا ہے۔ عدالتوں میں ایسے پیشیاں بھگت رہے ہیں جیسے پاکستان میں ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔

نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا ہے۔ نواز شریف کی سیاسی پوزیشن پر کون کھڑا ہے۔ حالات کا ستم ہے کہ بھائی ملک کی حکومت کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔ بھتیجا پنجاب اسمبلی کا قائد حزب اختلاف ہے۔ ملک کی بڑی پارٹی جس کے نام سے چل رہی ہے۔ وہ بیماری کی حالت میں جیل میں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ شہباز شریف نے پلٹی مار کر ثابت کردیا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے۔

سیا ست بے رحم ہوتی ہے۔ جنہوں نے ملک کے مقبول اور واحد بڑے سیاسی رہنما اور اپنے سگے شفیق بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنی اور اپنے بیٹے کے لئے سیاسی راہ ہموار کی ہے۔ خاموشی اس امر کی دلیل ہے کہ شہباز شریف نے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے حکمرانوں سے ڈیل کی ہے۔ آج اگر نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو اس کے ذمہ دار حکمران یا نواز شریف کے مخالفین نہیں بلکہ شہباز شریف ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).