دہشت گردی کی اگلی قسط اورانسان دوستی


پاکستانی نژاد نعیم رشیدکی دہشت گرد کو روکنے کی کوشش بھی لائق ستائش ہے اورسانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد وہاں کی وزیراعظم نے جس دانش مندی اور انسان دوستی کا مظاہر کیا وہ بھی کمال ہے۔ ایک لڑکے ول کانولے کا آسٹریلوی سینیٹرفرانسر ایننگ کے سر پر انڈا ا پھوڑنا بھی اگرچہ اس لڑکے کی جرات اور شدت پسندی سے نفرت کا اظہار ہے لیکن اس واقعے سے زیادہ توجہ کے حقدار اس سانحے سے جڑے کچھ دیگر واقعات ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیکنڈا نے یہ ثابت کیا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے اور یہ امید دلائی کہ انسانیت اور محبت کے جذبے ابھی مکمل طور پر درندگی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے۔

ہم مسلمانوں کو اپنے سوا سب انسان بے حس، ظالم اور بدکار دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حکمرانوں کو چھوڑیے، وہ مغرب کے ہوں یا کہیں کے بھی، ان کے اپنے مسائل اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ تو اپنی پالیسیوں اور حکومتوں کے اسیر ہوتے ہیں۔ اس سانحے کے بعد دنیا بھر میں اور خاص طور پر نیوزی لینڈ میں عام لوگوں نے جس طرح شہیدوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اوران کے لیے جس طرح غم زدہ نظر آئے یہ خوش آئند ہے۔

پچھلی دو دہائیوں میں دنیا بھر میں دہشت گردی عروج پر رہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی وقت شروع کی گئی جب دہشت گردی زور پکڑ چکی تھی اور یہ دہشت گردی کیوں شروع ہوئی اور کہاں کہاں سے کس کس طرح اس کوایندھن میسر آتا رہا یہ سب پر عیاں ہے۔ اب جب دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ خطے جو اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں، وہاں سے تلواریں واپس نیاموں میں ڈالنے کے لیے مشورے و مذاکر ات بلکہ ترلے ہو رہے ہیں، ایسے میں مغرب اور ان آسٹریلیا و نیوزی لینڈ جیسے دور دیشوں میں کچھ نئی تلواریں نیاموں سے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ خدا جانے ان کے پیچھے بھی کوئی ہے یا یہ محض کسی ردعمل کا نتیجہ ہے لیکن جو بھی ہے یہ دہشت گردی کی اگلی قسط ہو سکتی ہے۔

ایسی صورت حال میں انسان دوست رویوں اور محبتوں کو پھیلانے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں اوران دائروں کو مزید پھیلایا جائے تو دو طبقے اور دو ہی جذبے ہیں۔ ایک خیر کا ایک شر کا، ایک رحم کا ایک بے رحمی کا، ایک شدت پسندی کا اور ایک امن پسندی کا۔ منفی جذبوں کے حامل لوگوں کی تعدادہمیشہ جذبہ خیر رکھنے والوں کے مقابلے میں کم ہی رہی ہے۔ کبھی یہ ضرور ہوا کہ حالات کے جبر، وقت کے بہاؤیا مختلف عصبیتوں کے باعث اکثریت کا جھکاؤ کسی طرف ہو گیا لیکن عموما امن پسند اور صلح جو لوگوں کی اکثریت ہی رہی ہے اور یہی بات انسانیت پر ایمان کی علامت ہے۔

دنیا میں شدت پسند مٹھی بھر ہیں، شاید کچھ لوگ اس بات کا انکار کریں لیکن عرض یہ ہے کہ یہ مٹھی بھر وہ ہیں جو عملی طور پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے۔ جب یہ اقلیت اس طرح منظم ہو کر ظلم و ستم برپا کر تے ہیں تو باقی اکثریت کو بھی منظم ہونا چاہیے۔ ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے اس ظلم و بربریت سے اظہار برات کرتے ہیں اور مظلوموں کو اپنا حصہ سمجھتے ہوئے، انہیں اپنی طرف کا سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دیتے ہیں اور اپنی اپنی روایات یا سوچ اور استطاعت کے مطابق کبھی موم بتیاں جلاتے ہیں، کبھی پھول رکھتے ہیں، کبھی خاموشی اختیار کرتے ہیں اور کبھی ان کے لیے دعاؤں کی محافل سجاتے ہیں۔

یہ سب قابل قدر لوگ ہیں اور اگر ہم ایسا نہیں کر تے تو یہ ہماری کوتاہی ہے۔ ہمیں ان لوگوں کی اخلاقی حمایت ضرور کرنی چاہیے کہ جو ہمارے حصے کا فرض ادا کر رہے ہیں۔ تصور کریں اگر یہ امن سے محبت کرنے والے، بلا تفریق رنگ و نسل اس طرح مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے اتنا کچھ بھی نہ کریں تو وحشت کی یہ تصویر کتنی بھیانک ہو جائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ بربریت منظم بھی ہے اور اسے سرمائے اور عالمی منصوبہ بندیوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس کا شکار تو وہی بنتے ہیں جن کا ان سب عوامل سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے میں پھر شکاریوں کے مقابلے میں شکار ہونے والوں کو کم ازکم اتنی توفیق تو ہونی چاہیے کہ اس ظلم سے نفرت کا اظہار کریں اور بتائیں کہ ہم اس سے آگاہ ہیں اور ہم اسے نہیں مانتے۔ میری یہ تحریر بھی اس اظہار میں ایک چھوٹا سا حصہ ڈالنے کی کوشش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).