پیپلز پارٹی، ن لیگ اتحاد اور احتساب؟


موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تومسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی احتسابی اداروں کے زیر عتاب ہیں ملک کی دو بڑی طاقتور سیاسی جماعتوں کے قائدین کرپشن اور منی لانڈرنگ الزامات کے سلسلے میں احتسابی اداروں اور عدالتوں میں جاری کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں کے بیانات موجودہ ملکی حالات میں احتساب کے عمل کو روکنے کے لئے صرف حکومت اور احتسابی اداروں کو دباؤ میں لانے کی حد تک تو نظر آتے ہیں لیکن یہ بیانات عمل سے عاری ہیں جس کی وجہ سے دونوں جماعتیں اس بحرانی کیفیت میں توازن قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار کر اعصاب شکن احتساب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بھر پور کوشش میں ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایکبار پھر چند دن قبل مہمند اور باجوڑ ایجنسی میں عوامی جلسوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ جمہوریت نہیں بڑے بڑے ڈاکو خطرے میں ہیں کرپٹ ملک کا پیسہ لوٹنے والے اور منی لانڈرنگ کرنے والے سے ڈیل نہیں کروں گا کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔ ملک نے دو این آر او کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف باہر علاج کروانا چاہتے ہیں تو ان کے پاس پلی بارگین کا آپشن موجود ہے۔

حالات کی دستک تو یہ بتا رہی ہے کہ اب نہ وہ وقت رہا نہ ہی حالات۔ پہلے مسلم لیگ ن کے سامنے پیپلز پارٹی کا حاصل تھا اب پیپلز پارٹی کے سامنے مسلم لیگ ن کا حاصل ہے دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے سے سبق سیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کے اقتدار اور مفادات کے تحفظ کے لئے میثاق جمہوریت کے نام پر ملک و قوم کو دھوکہ دیا۔ اب پھر دونوں جماعتیں اسی میثاق جمہوریت میں کانٹ چھانٹ کر کے ایک دوسرے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونے کا اعادہ کر چکی ہیں۔

اب یہ دونوں جماعتیں احتساب کے گرداب سے نکلیں گی یا نہیں اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت کے ہاتھ میں ہے۔ عالم تو یہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے اپنے طویل دور اقتدار کے مزے تو لئے لیکن کرپشن کے خاتمہ کے لئے نہ ہی کوئی مؤثر قانون سازی کی اور نہ ہی احتسابی اداروں کو مضبوط اور فعال بنانے کے لئے اصلاحاتی اقدامات اٹھائے ”خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا“ کے مصداق ان اداروں میں جو پہلے سے ہی ان جماعتوں کے قائدین کے خلاف مقدمات چلے آ رہے تھے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف احتسابی اداروں کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کرتی رہیں اب مکافات عمل نے انہی مقدمات کو ان کے پاؤں کی زنجیر بنا دیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے جیل بھرو اور تحریک چلانے کا جو عندیہ دیا ہے مجھے تو مستقبل قریب میں سندھ کی سرزمین سے کوئی ایسی مزاحمت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس سے نالاں نظر آتے ہیں اور محترم آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نہ تو ذوالفقار علی بھٹو اور نہ ہی بے نظیر بھٹو جیسی قیادت کے حامل ہیں بلکہ ان دونوں کی سیاسی عمارت خود ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی خدمات پر کھڑی ہے جس کے باعث سندھ کارڈ بے وقعت ہوتا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کو آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا زرداری کی کرپشن نے پہنچایا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی جو چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جاتی تھی اب صوبہ سندھ تک محدود ہو کر لیاری جیسے گڑھ سے بھی عوامی مقبولیت کھو بیٹھی ہے جس سے ہوش مند اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے وقت میں صوبہ سندھ میں بھی اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کرپشن الزامات پر جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ شہباز شریف ابھی حال میں ہی ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اس وقت ن لیگ قیادت کے شدید بحران سے گزر رہی ہے کچھ اس پارٹی کے سرکردہ رہنما نیب کی فہرست میں شامل ہیں جو جلد یا بدیر احتسابی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں ان حالات میں ن لیگ ایسا نہیں چاہے گی کہ اس کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں جس سے ان کا سیاسی سفر مصائب و آلام سے اٹ جائے۔

مولانا فضل الرحمن بڑے دوراندیش سیاستدان ہیں ان کا مارچ مؤخر کرنے کا بیان اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ جن دروازوں سے مولانا امید لگائے بیٹھے تھے وہاں سے معذرت کے علاؤہ کچھ پلے نہیں پڑا سیاسی منظر نامہ کی دستک دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کا قبلہ درست کرنے کی نوید سنا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں جماعتیں ملک و ملت کے بنیادی مسائل کے لئے سر جوڑتی اور ان کا پائیدار اور مستقل حل ڈھونڈتی لیکن ان سیاسی جماعتوں نے ملک و ملت کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنے اپنے اقتدار اور مفادات کو تحفظ دیا اور اب یہ عوام بخوبی جان چکی ہے کہ بھیس بدل سیاستدان ان کے ساتھ کیا کھلواڑ کرتے رہے ہیں عوام کی عدم دلچسپی کی بنا پر ان کی حکومت اور اداروں کے خلاف پکنے والی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی ہے۔

انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ہی آج اہلکار سے لے کر حکام تک کرپشن گنگا میں پور پور ڈوب چکے ہیں جس معاشرہ کا جھومر کرپشن و بدعنوانی سے لتھڑا ہو اس معاشرے کو تباہی سے بھلا کون بچا سکتا ہے۔ سات دہائیوں سے جس طرح ملک و قوم کے وسائل اور خزانہ کو لوٹا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی جہاں کرپشن ہو وہاں معاشرے، پارٹیاں نہیں بلکہ قومیں تباہی سے دوچار ہوا کرتیں ہیں جس ملک اور معاشرہ میں انارکی اور سینہ زوری کا رواج ہو وہاں کرپشن کو پاؤں جمانے میں سازگار ماحول میسر آتا ہے پاکستان میں انہی سیاسی کرداروں کی وجہ سے نہ صرف کرپشن صحت مند معاشرہ کی علامت بن چکی ہے بلکہ دنیا میں لڑی جانے والی اقتصادی جنگ میں بھی پاکستان کو شکست سے دوچار کرنے والے یہی کردار ہیں۔

پاکستان میں کرپشن عدلیہ ’سیاست‘ تجارت ’اسپتالوں‘ اسکولوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا جان جوکھوں کا کام نظر آتا ہے جب حکمران کرپٹ سیاستدانوں اور افراد کی سر پرست بن جاتی ہے تو پھر معاشی ’سیاسی‘ انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔ موجودہ ملکی حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں پیپلز پارٹی ہو یا ن لیگ جو بھی حکومت اور اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرے گی اس کے بہتر نتائج نہیں آئینگے حکومت اور اداروں کے خلاف صف آراء ہونے کی پالیسی بہت سوں کو نوشتہ دیوار بنا دے گی۔ لٹو تے پھٹو کی پالیسی تشکیل دینے والے اب انجام پر نظر رکھیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کرپشن کے خاتمہ کے لئے نقطہ آغاز ہو چکا ہے سینہ زوری دکھانے والے اپنی اپنی باری کا انتظار کریں اپنے گریبانوں کو اچھی طرح ٹٹول لیں پھر زبان کو حرکت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).