انٹرٹینمنٹ کا ذہنی امراض میں حصہ


نیوزی لینڈکانام ہم میں سے اکثر نے صرف کرکٹ کے حوالے سے سُنا تھا، ڈینئل ویٹوری اور برینڈن میکولم کا ایک زمانہ فین ہے۔ شاید پہلی بار ہم نے نیوزی لینڈ کا ذکر ایک ”بے نام“ دہشت گرد کی وجہ سے خبروں میں سُنا۔ بے نام اس لئے کہ وہاں کی وزیرِ اعظم جاسندا اردیرن نے اُسکا نام لینے کو انسانیت کی تضحیک سمجھا اور صرف انتہا پسند یا دہشت گرد کے نام سے پکارا۔ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم کاجذبہ قابلِ ستائش و احترام ہے۔

اُس دہشت گرد نے بے رحمی سے پچاس افراد کو قتل اور کئی کو زخمی کردیا۔ نمازِ جمعہ تھی، جاں بحق ہونے والے مسلمان تھے، نمازی تھے، گندمی رنگ کے تھے اور سمندر پار سے آئے تھے یا مارنے والا غیر مسلم اور سفید فام تھا، یہ سب اطلاعات اسلام فوبیا اور نسل پرستی کو لے کر ایک لمبی گفتگو کے لئے کافی ہیں۔ اس المناک واقعہ کا ایک اور زاویہ بھی غور طلب ہے۔ جن لوگوں کی نظر سے اس واقعہ کی ویڈیو یا ایک بھی فریم یعنی تصویر گزری ہے تو غور کیجئے ویڈیو یا تصویر کا ایک اینگل ہے جسے تکنیکی زبان میں پوائینٹ آف ویو شارٹ کہتے ہیں۔

منظر دیکھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ بندوق کی اِس جانب آپ مطلب دیکھنے والا ہے، بندوق جدھر جدھر موت بانٹتی جارہی ہے آپ بھی ساتھ جارہے ہیں، یقینا اسی مقصدکے تحت اُس دہشت گرد نے ماتھے پہ کیمرہ نصب کیا اور گاڑی سے نکلتے، بندوق چُن کر لوڈ کرتے، عبادت گاہ میں جاتے اور پھر گولیوں اور انسانوں کا شور، سب آپ اپنے پوائینٹ آف ویو یعنی آنکھ سے ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ یہ مکروہ خیال دہشتگرد کے ذہن میں کیوں آیا؟ اس سوال کا جواب تفریح یا انٹر ٹینمنٹ کی دنیا سے تلاش کرتے ہیں۔

کاونٹر اسٹائیک، شوٹ ہنٹر، بیٹل فیلڈ، گن وار شوٹنگ، اسنائپرتھری ڈی، جیسی لاتعداد ایکشن ویڈیو گیمز موجود ہیں، جنھیں فرسٹ پرسن گیمز کی کیٹیگری میں رکھا جاتا ہے۔ فرسٹ پرسن کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے یعنی کھیلنے والے کو لگتا ہے وہ گیم کے اندر موجود ہے۔ یہ کیسی تفریح کے غرض سے بنائی گئی گیمز ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے لطف زیادہ آتا ہے؟ کھیلنے والوں کی سہولت کے پیش نظر یہ گیمز PC، ایکس باکس، پلے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے لئے اینڈ رائیڈ ایپلیکیشن میں بھی دستیاب ہیں۔

دوسری طرف نظر ڈالیں تو گوروں کی (اور کالوں کی بھی) عمومی سینما فلمز، ٹی وی اور ویب سیریز میں بھی اوسطاً دو چار قتل تو ہوہی جاتے ہیں، جبکہ ایکشن فلمز میں مقتولین کی تعداد شاید بنانے والوں نے بھی نہ گنی ہو۔ ایک تحقیق کی مطابق مغربی معاشرے کا ایک بچہ اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی اس انٹرٹینمنٹ کے نام پر لگ بھگ ایک ہزار قتل دیکھ چکا ہوتا ہے۔ قتل، سفاکی اس لفظ سے ٹپکتی ہے، سُن کر خوف محسوس ہوتا ہے۔

لیکن اگر بار بار سُنا جائے، پڑھا جائے یا دیکھا جائے تب ایک عام بات محسوس ہونے لگتی ہے یا پھر پڑھنے، سننے یا دیکھنے والا بے حس ہوچکا ہوتاہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی ڈیڑھ دہائی میں جب بدقسمتی سے ہمارے پاکستان میں بم دھماکوں اوردہشتگردی کا دور دورہ تھا، اور تقریباً روز کم ازکم ایک واقعہ ضرور ہوتا تھا، ان دنوں میرے ایک دوست کو نیوز چینل میں ویڈیو ایڈیٹر یعنی تدوین کار کی اچھی نوکری، اچھی تنخواہ پہ ملی۔ کچھ ماہ بعد مِلا تو مجھے پریشان لگا، میں نے پوچھا کیاہوا؟

کہنے لگا ہمارے ہمسائے میں کوئی دیرینہ ہمسایہ فوت ہوگیا ہے اور مجھے میت دیکھ کر رونا نہیں آیا۔ میں نے افسوس کے بعد وجہ دریافت کی تو اُس نے بتایا کہ زیدی صاحب نیوز چینل میں روز خون آلود لاشوں کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر اب درد محسوس ہونا کم ہوگیا ہے جبکہ ناظرین کے سامنے تو سنسر اور بلر ویڈیو چلائی جاتی ہے۔ اُسکی بات سُننے کے بعد میں نے ناظرین کے رویے پہ غور کیا تو پتہ چلا کہ جس واقعہ میں بیس پچیس سے کم لوگ لقمہءاجل بنیں، وہ عام واقعہ شمار ہوتا ہے جبکہ موت تو ایک بھی ہو، وہ جان نکال لیتی ہے۔

خیر یہ تو ماضی کاقصہ اور حصہ ہے، اب وطن عزیزمیں انسانی جان سب کو عزیزہے۔ آج کل ایک ہورڈنگ بورڈ کا بہت چرچا ہوا ہے، جو کہ Careemنامی ایک کیب کا اشتہار ہے، جس میں ایک دلہن کی تصویر ہے اور ساتھ لکھا ہے اگر شادی سے بھاگنا ہو تو Careemبائیک کرو۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بھونڈی مارکیٹنگ تو ہے ہی لیکن کسی کاروباری کمپنی کو اتنی جرات کیسے ہوئی کہ منفی بات کرکے توجہ پائے، اصولاً تو اسے عوام میں اپنی ساکھ کی فکر ہونا چاہیے، کیونکہ ہمارے معاشرے کی بہنیں بیٹیاں ہرگز ہرگز ایسی نہیں، یقینا کمپنی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

لڑکیاں پہلے بھی انکار کرسکتی ہیں، ضروری نہیں شادی کی تقریب سے فرار ہوں۔ پھر سوچا کہ نہیں بہت سی ہالی وڈ، بالی وڈ فلمزاور پاکستانی ڈراموں میں ایسا ہوچکا ہے۔ لڑکی شادی کی تقریب سے نکلتی ہے اور ہیرو سے سرِ راہ ملتی ہے اور کہانی نئی سمت میں چلی جاتی ہے، یعنی تفریح کی دنیا نے سمجھایا کہ یہ ایک عام سی بات ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے انٹر ٹیمنٹ کی دنیا میں طلاق عام سی بات ہوگئی ہے، البتہ پہلے یہ لفظ سُن کر مرد کا دل بیٹھتا تھا اور چہرے پہ پریشانی نمایاں ہوتی تھی جبکہ خواتین بھی کانپتے دل کے ساتھ منہ پہ ہاتھ رکھ لیتی تھیں۔

دنیا بھراور اب پاکستان میں بھی طلاق وخلع کی بڑھتی ہوئی شرح اعداد وشمار سے واضح ہے۔ اسی طرح ریپ، قتل، اغوائی، ڈکیتی اور تشدد جیسے جرائم کو گلیمرائز کرکے مسلسل تخلیقات کا لازمی جزو بنا دیا گیا ہے۔ ہم مہذب انسانوں کو سگریٹ کے جسمانی صحت پہ مضر اثرات کا ادارک ہوا تو ڈبیا پہ وزارتِ صحت کا مشورہ چھاپا گیا، ٹی وی اور اخبارات میں اشتہارات پرپابندی لگائی گئی جبکہ فلموں ڈراموں کے دوران سگریٹ نوشی کے مناظر کے دوران تنبیہ لکھنالازم قرار پائی۔

کاش ذہنی امراض کو بھی جسمانی امراض کی مانند روکنے کی کوشش کی جائے۔ ضروری نہیں کہ ذہنی مریض پاگل خانوں میں ملیں، وہ ہمارے درمیان بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کا حالیہ واقعہ مذہب اور نسل پرستی کے نام پہ تھا، لیکن اس سے قبل بھی امریکہ اور کچھ یورپی ممالک میں سکولوں میں کسی ایک فرد کی فائرنگ سے بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں یا پھر کسی نے راہگیروں پہ گاڑی یابس چڑھا دی وغیرہ وغیرہ۔

تفریحی سر گرمیوں سے جڑی بے رحمی اوربے حسی نے شاید تھوڑا بہت سب کو ہی ذہنی مریض کردیا ہے یا کم ازکم انسانی رویوں پہ کاری ضرب ضرور لگائی ہے۔ خدا کرے کی انٹرٹینمنٹ کے نام پر ہولناک جرائم اور اخلاقی طور پر ناپسندیدہ اعمال کو روکنے یا کم ازکم تنبیہی تحریرکے ساتھ پیش کرنے کا ہوش مہذب دنیا کو آجائے۔ دنیا بھر میں ویڈوگیمز، فلموں، ڈراموں اور اشتہارات کا کوئی ضابطہ اخلاق تخلیق کار خود مرتب کرلیں یا پھر وہی ڈنڈاپریڈ یعنی ریاستوں کے قوانین حد واضح کردیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ ہم سب انسان ذاتی طور پہ اپنی ذمہ داری محسوس کریں اس سے پہلے کہ آنے والی نسلیں کچھ بھی محسوس کرنے کے قابل نہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).