گورکن کیوں بنو، سچا انساں بنو، سچا دہقاں بنو


کیا نئی بات ہے؟

مردِ دانا کی ٹکسال سے نکلے چھن چھن چھنکتے ہوئے قیمتی مشورے

ہر گھڑی کام رانی کا دل چسپ مژدہ سناتے ہوئے

زرد پتوں کی سانسوں میں ڈوبی ہوئی

ناتوانی کا قصہ جو چھیڑا تو ہم اپنے کھونٹے سے کٹ کر بکھر جائیں گے

سب سہُانا کہو، والہانہ لکھو، زورِ بازو پہ ہم کو بہت ناز ہے

ہے لہو گرم یہ اپنا اعزاز ہے

ہم عقابی صفت کے پرستار ہیں،

ہاں، پلٹ کر جھپٹنے کو تیارہیں،

سب سہانا کہو، والہانہ لکھو، ایک سے ایک دل کش ترانہ لکھو

حوصلہ ہے جواں، دھار الفاظ پر تم لگاتے رہو

جیت کی یہ کلیدِ فسوں ساز ہے

افلاطونی تمہاری یہ تسلیم ہے

اور دعوے تمہارے بھی تسلیم ہیں

جنگ جب بھی ہوئی، دانت دشمن کے کھٹّے ہی کرتے رہے

کورے کاغذ کے مانند سالم رہے اور سلامت رہے

پر مرے بھائی، محبوب میرے، مرے ہم وطن

ایک پل کو تو ٹھیرو، ذرا دم تو لو، سوچ لو مہرباں

شہسواری کی نوبت نہ آئے اگر، جانِ جاں سوچ لو

موت کے قہقہے جب کڑکتے ہوئے زندگی کو بھنبھوڑیں گے،

غرائیں گے

خوں کے دریا میں جینے کی سب حسرتیں راکھ بن جائیں گی

حوصلے یہ جواں خاک بن جائیں گے

آنسوؤں میں زمیں غرق ہو جائے گی

تم کہاں جاؤ گے، اپنے لفظوں میں شعلے کہاں ٹھونسو گے

کون بتلائے گا، کون سالم سلامت رہے گا یہاں

کیا سلامت رہے گی کوئی داستاں؟

کیا یہ اچھا نہیں، اپنی ساری توانائی میٹھی رکھو

لفظ میٹھے رکھو

شاخِ امید سرسبز میٹھی رکھو

جنگ آسان ہے، اک بٹن تک پہنچنے کی روداد ہے

ننھے معصوم بچوں کی کلکاریاں دفن ہو جائیں گی،

پل میں مر جائیں گی

کیا یہ اچھا نہیں قبر کا مرثیہ اب پڑھے نہ کوئی

گورکن کیوں بنو، سچا انساں بنو، سچا دہقاں بنو

سچی نیت رکھو، سچے الفاظ سے امن بوتے رہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).