پاکستان: غلطی ہمارے ستاروں میں نہیں ہے


کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن،

کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی (منیر نیازی)

جی جناب! یہ اشعار بعض لوگوں کو بہت ہی دکھی لگ رہے ہوں گے، کی کریے سجنا دے دکھ ہی اے ہو جے ہوندے نے، بہرحال اس دکھی فضا میں ہمیں ہمارے پیارے دوست کی بات یاد آ گئی جن کا دل بھی بری طرح ٹوٹا ہے اور اسی دکھ کی شدت نے انہیں شاید اس سنجیدہ نتیجے پر لا کھڑا کیا ہے، کہ شاعر حضرات کی باتیں کسی انسانی محبوب کے جسم تک ہی محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے جس کی جڑیں معاشرے کے حقائق سے جڑتی ہیں، الغرض یہ محبوب کا یہ تذکرہ درحقیقت معاشرے کو گردانا جاتا ہے جس کو عشق معشوقی میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہضم ہو سکے۔

آئیں بائیں شایں کر کے ہم نے اس بات کو سنجیدہ بالآخر لے ہی لیا اور اس کو معاشرے سے جوڑ ڈالا اور اپنے پسندیدہ موضوع تاریخ کو اسی پیمانے میں لا کھڑا کر دیا اور معاشرے سے اس کی قلابیں ملانے کی کوشش کی اور چند ایک نتائج پر پہنچے۔ پاکستان کی تاریخ کو مندرجہ بالا اشعار بخوبی بیان کرتے ہیں۔

تو یہ واردات کس طرح سے وقوع پذیر ہوئی آیئے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں اسے دو زاویوں میں تقسیم کرنا ہو گا وہ یہ کہ پاکستان کا بننا اور پاکستان بننے کے بعد پیش آنے والے حالات پاکستان کے بنتے وقت کے حالات سے مختلف ہیں۔ اور ہم اکثر اوقت ان دونوں زاویوں کو ملا کر ایک کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ایک تاریخی ابہام کا شکار ہیں۔

پہلا زاویہ جو پاکستان کے بنتے وقت کے حالات ہیں ان میں سب سے پہلے ہمیں ایک بات سامنے رکھ لینی چاہیے کہ اس وقت سیاسی حالات کس طرح کے تھے، اور سیاستدان لوگوں کا کیا رویہ تھا، اس وقت کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہاں تقسیم ہونی چاہیے اور یوں دونوں کی باہمی رضامندی سے آزادی جو دو آزاد ریاستوں کی شکل میں ہو گی ہو گئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ یہ عمل بالکل سیاسی تھا اور اس سیاسی پیمانے کی حد تک ان دونوں پارٹیوں نے مذہب کو استعمال نہیں کیا۔

مگر کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن والی بات کو اس طرح سے سمجھ لیجیے کہ پاکستان بنتے وقت جن لوگوں نے مذہب کو درحقیقت استعمال کیا وہ لوگ ایک بہت بڑی تعداد میں اپنی سیاست کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے یا یہ کہہ لیجیے کہ ان کی سیاست اب پاکستان میں ہونی تھی، جن میں اسوقت جماعت اسلامی، باچا خان اینڈ کمپنی اور جمیعت علمائے ہند وغیرہ شامل تھے اور ان لوگوں نے بعد میں پاکستان میں ہونے والی سیاست میں قدم اپنے پاکستان مخالف مہم جو پاکستان بننے کے وقت پر تھی کی بنیاد پر قائم کی اور متعدد بار صوبائی سطح پر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے ساتھ پورے زور و شور سے پھیلایا اور ستر سال کا طویل عرصہ میں ان کے موقف کو ایک نظریاتی حیثیت حاصل ہوئی جو کہ موجودہ تاریخی الجھن کی بہت بڑی وجہ ہے۔

اب آ جائیے کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی والی بات پر، قائد اعظم کی وفات کے بعد وہ لوگ طاقت میں آئے جن کا سیاست سے دور دور تک تعلق نہ تھا انہوں نے اپنے اقتدار کو ایک کو طوالت دینے کے لیے ایک ازسرنو نظریہ پاکستان کی تشریح شروع کر دی جس میں انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ پاکستان مذہب اسلام کے نام پر ایک طویل جدو جہد جو کہ شاید محمد بن قاسم کے دور سے چلی آرہی ہے کی بنیاد پر بنا ہے اور اس موقف کو ستر سال کے طوالت طے کرنے کی وجہ سے ایک نظریاتی حیثیت حاصل ہوئی اور یوں ایک طویل عرصے کے بعد دو قسم کے مکتبہ فکر وجود میں آئے جو کہ بد قسمتی سے دونوں ہی پاکستان بننے کے وقت کے بنیادی حقائق کے منافی ہیں۔

دوسرا پاکستان کے بننے کے بعد والے حالات پر آجائیں، تو ان حالات میں ایسے واقعات ہوئے جو کہ پاکستان کے بنتے وقت کے حالات کو سرے سے چیلنج کرتے ہیں اور ان حالات میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے ایسے فیصلے کیے جو کہ پاکستان کے وجود کے انکار کرنے والوں کے موقف کو تقویت دیتے ہیں مثلاً سقوط ڈھاکہ، جہاد افغانستان اور جمہوری قوتوں کا آمریت کے ساتھ ستر سال آنکھ مچولی کھیلنا اس موجودہ ابہام کو مزید دلائل سے نوازتا ہے، البتہ ان واقعات کو اس وقت کے حقائق کی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ ابہام ختم کیا جا سکتا ہے، مثلا سقوطِ ڈھاکہ کو نظریہ پاکستان کی ہار سے تشبیہ دی جاتی ہے جبکہ اسوقت کہ حقائق کچھ اور ہیں اسی طرح جہاد افغانستان کو اس وجہ سے پھیلایا گیا کہ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس لیے جہاد جائز ہے، درحقیقت اس کا پاکستان کے نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن ظلم اصل یہ ہوا کہ ہم نے اپنی نسل کو وہ سچ پڑھایا جو وقت کی مناسبت سے ہمیں ٹھیک لگا اور پاکستان کا اصل مقصد کہیں پیچھے رہ گیا۔ پاکستان غلط نہیں، بد قسمت تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).