شری کٹاس راج کی یاترا


میں بنیادی طور پرآوارہ گرد ہوں اور اوارہ گردی کرنا میرا محبوب مشغلہ ہے۔ کیا کروں پاؤں میں دل ہے کہ ایک جگہ ٹھہرتا ہی نہیں، کٹاس راج کے مندروں کے بارے میں سن سن کے عمر گزاری تھی۔ مجھے مندروں سے زیادہ اس طلسماتی تالاب کو دیکھنے کا شوق تھا جس کے بارے میں کئی کہانیاں پڑھ اور سن رکھی تھیں۔ اب کی بار ہماری منزل کٹاس راج کا مقدس تالاب ٹھرا، خیر سے ارادہ تو اس میں اشنان کرنے کا بھی تھا مگر کچھ وجوہات کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ آئیے اب آپ کو کٹاس راج کی سیر کرواتے ہیں۔

کٹاس مندرچکوال سے 25 کلومیٹر دور سلسلہ کوہ نمک میں واقع ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے، جسے کٹاس راج بھی کہتے ہیں۔ ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق کٹاس تالاب شیو دیوتا کے آنسو سے بنا تھا اور وہ شیو دیوتا کی عبادت کے لیے مخصوص تھا اور یہ کہ کٹاس راج میں واقع نیلگوں پانی کی جھیل شیو جی مہاراج کے آنسوؤں سے وجود میں آئی جو انہوں نے اپنی بیوی ستی یا پاربتی کی موت پر بہائے۔ یہ گاؤں ہندوؤں کا انتہائی تاریخی اور مقدس مقام ہے، جس کا ذکر تین ہزار برس قبل کی داستان مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے۔

ہندو مذہبی روایات کے مطابق جب شیو نامی دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو شیو اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی۔ اس طرح ہندوؤں کے لیے مقدس دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک پشکار اجمیر میں ہے اور دوسرا کٹکشا۔ سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کٹکشا صدیوں بعد بدلتا بدلتا اب کٹاس بن چکا ہے

شری کٹاس راج مذہبی حوالے سے دنیا کے چند اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال پر محیط ہے۔ یہ ہندوؤں کا مقدس مقام ہے لیکن یہاں پر ہندو مذہب کے علاوہ آریوں، یونانیوں، درآوڑوں، جین مت، بدھ مت، سکھوں اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا بھی عکس دکھائی دیتا ہے۔ چکوال کی خوبصورت وادئی کہون میں واقع کٹاس راج کے آثار قدیمہ بیش قیمت اثاثہ ہیں مگر اب ان پر نحوست کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ پتھروں کو پیس کر سیم و زر میں تبدیل کرنے والا سیمنٹ مافیا قدیم دنیا کے اس شاہکار کے درپے ہے۔ حسن اور تاریخ کا ایسا امتزاج دنیا کے کسی خوش قسمت حصے میں واقع ہوتا تو اسے شاید رہتی دنیا تک قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم نرالا ہی ہے۔

میٹھے پانی کی کٹاس جھیل سطح سمندر سے تقریباً دو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ انسانی آنکھ سے مشابہ یہ جھیل دو سو فٹ لمبائی اور ڈیڑھ سو فٹ چوڑائی میں ہے یوں وہ ہندو یاتری جو ہر سال یہاں کے پانی سے اشنان کرنے دور دراز سے آتے ہیں وہ اب اس تقدس سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنے پر ان کے گناہ بھی دُھل جاتے ہیں۔ پاکستان کی شہرت اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پہلے ہی اچھی نہیں یقیناًجب اصل حقائق ہندو برادری تک پہنچیں گے تو ان پر وطن عزیز کے حوالے سے منفی تاثر پڑے گا۔

سیمنٹ فیکٹریوں نے تمام ضوابط کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے حالانکہ ان کے ماسٹر پلان میں واضح تھا کہ وہ اپنے استعمال کے لیے پانی دریائے جہلم سے لائیں گے تاہم سالہا سال سے انہوں نے اس پلان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ علاقے میں واقع سیمنٹ فیکٹریوں کی لگائی گئی ٹربائنوں سے علاقے میں واٹر ٹیبل بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ عام گھروں کے بور تک خشک ہو چکے ہیں اور وہ ایک سرسبز و شاداب علاقے اور اس میں واقع زیر زمین میٹھے پانی سے تقریباً محروم ہو چکے ہیں۔

عوام میں مستقبل کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ سیمنٹ فیکٹریاں روزانہ کئی سو کلو گرام سیمنٹ دھول کی صورت فضاء میں بکھیر رہی ہیں جس سے علاقے کے لوگ سانس کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہ فیکٹریاں اردگرد کی پہاڑیوں سے پتھر نکالنے کے لیے دھماکہ خیز مواد بھی استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے کٹاس راج میں واقع قدیم اور نادر عمارتوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ کٹاس راج کے منادر اور دیگر عمارتیں تباہی کے دہانے پر ہیں۔

صدیوں پہلے یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور گھنے جنگلات پر مشتمل تھا مغل فرمانروا ظہیر الدین بابر اپنی تزک بابری میں اس علاقے میں گینڈے کے شکار کا ذکر کرتے ہیں۔

قدیم ترین مذہبی کتاب مہا بھارت میں اس علاقے میں کورؤں اور پانڈوؤں کی لڑائی جسے مہابھارت کہا جاتا ہے کا ذکر ہے۔ انگریز مورخ جنرل گنگھم یہاں کشمیری طرز تعمیر کے بارہ منادر کا ذکر کرتا ہے۔ ستگھرا کے یہ منادر کہیں کہیں اب بھی باقی ہیں۔ کٹاس راج جھیل کے پاس کالی ماتا کا مندر، جنوب کی جانب شیش ناگ دیوتا کا مندر، شیولنگ مندر، مقدس درخت، سادھو کا مکان، قلعہ کوٹہڑہ، شنکتلا یونیورسٹی کے آثار، محل، سرجو داس کا مندر، غاریں، نانگے سادھوؤں کی غاریں، گنبد، لکشمی دیوی کا مندر، رام چندر جی کا مندر، وشنودیوتا کا بت، اشوک کے اسٹوپے، شمشان گھاٹ، باؤلی، شکنتلا یونیورسٹی کا ہاسٹل، سادھوؤں کا مندر، متبرک کنواں، نانگے سادھوؤں کا مندر، پانی کی غار، رام ہلاواں کا سیروٹہ (سیرکا باٹ) جو کئی ٹن وزنی پتھر ہے۔

کرشن گنگا کا چشمہ اور شمال میں واقع سنگھاپور کا معدوم شہر کٹاس راج کو تاریخ کا اہم ورق بناتے ہیں۔ یہاں کی دیواروں پر سینکڑوں نادر نقش و نگار بھی موجود ہیں۔ اسے ہماری بدقسمتی سمجھیں کہ تاریخی و مذہبی اہمیت کا حامل یہ مقام اپنی بدقسمتی پر نوحہ کناں ہے اور ہم اپنی بدقسمتی پر کہ اس کے لیے اب تک کچھ نہیں کر سکے.

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya