او مردہ دل ظالمو! ایک اور کو مار ڈالا


\"mبہت پرانی بات ہے کچھ دوستوں کے کہنے پر ایک انگلش دستاویزی فلم دیکھی، جس کا نام تھا فیسز آف ڈیتھ- جس میں لوگوں کو مختلف طریقوں سے مرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ میں وہ فلم آدھی بھی نہیں دیکھ پایا اور حال یہ ہو گیا کہ اگلے ایک ہفتے تک میں شدید ذہنی بے سکونی میں مبتلا رہا۔ کھانا کھاتے ہوئے فلم کے مناظر آنکھوں کے آگے آتے تو نوالہ حلق سے نیچے اترنے سے انکار کر دیتا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے مرنے کی وہ سب صورتیں خود میرے اوپر گزر رہی ہیں۔ رات کو خواب میں بھی وہی مناظر سامنے آتے اور پھر میری نیند خواب ہو جاتی۔ کسی کو مرتے ہوئے دیکھنا یقیناً دنیا کا سب سے زیادہ تکلیف دِہ منظر ہے۔

آج فیس بک پر کراچی میں کئے جانے والے ایک نوجوان کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو دیکھی، جسے غالباً کوئی چوری کرتے، جیب کترتے، یا کسی کا پرس یا موبائل چھینتے ہوئے لوگوں نے قابو کر لیا اور پہلے تو مار مار کر اسے ادھ موا کر دیا، پھر اسے برہنہ کر کے ایک گندے نالے میں پھینک دیا۔ اور بے حِسی اور درندگی کی انتہا یہ تھی کہ وہاں موجود لوگ نہ صرف اس ہوش و حواس سے بیگانہ نوجوان کو گالیاں دے رہے تھے، اس پر ہنس رہے تھے، اس پر آوازے کس رہے تھے۔ اور اس کے مر جانے کی باتیں اتنے آرام سے کر رہے تھے کہ جیسے کسی انسان کی نہیں، کسی مکھی کے مرنے کی بات کر رہے ہوں۔

میں سمجھنے سے قاصِر ہوں کہ ان لوگوں کو کیا کہوں۔ کیا ان کا شمار انسانوں میں کیا جا سکتا ہے؟ انسان تو ایک طرف، کیا ایسے لوگوں کو جانور کہنا بھی مناسب ہے؟ کہ جانور بھی اس قدر درندگی کا مظاہرہ کم از کم اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نہیں کرتے۔ ہمارے اندر اس قدر غصہ، نفرت، اور وِحشت کیوں ہے؟ ہم انسان کو انسان سمجھنے پر کیوں تیار نہیں؟ ہم جنگل میں نہیں رہتے مگر ہماری رویّے جنگلی کیوں ہیں؟ مانا کہ ہمیں جائز طور پر یہ شکایت ہے کہ یہاں قانون لوگوں کا انصاف مہیا نہیں کرتا، مگر اس کا یہ مطلب کس نے کب اور کیوں کر نکال لیا کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سرِبازار لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مارنا شروع کر دیں؟

میرے پاس الفاظ ہی نہیں جو اس افسوسناک سانحے پر میری دلی کیفیت بیان کر سکیں۔ کیا ہم ازمنہِ قدیم کے اس حصّے میں جی رہے ہیں، جب بادشاہ لوگ سرِعام اپنے مخالفوں اور مجرموں کو درندوں کے آگے پھنکوا کر ان کی اذیت ناک موت کا تماشہ دیکھتے تھے؟ ظلم، بربریت، سفاکی، شقی القلبی، درندگی، کوئی بھی لفظ اس منظر کی بے رحمی کو کما حقہ بیان نہیں کر سکتا۔ ایک انسان کو ہنس ہنس کے موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے یہ انسان نما درندے اپنے اندر اس قدر حیوانیت کہاں سے لے آئے؟ اس نوجوان نے چاہے کوئی بھی جرم کیا ہو، وہ اس سلوک کا مستحق ہر گز نہیں تھا۔ یہ قتل چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ ہم سب بہ حیثیتِ قوم مردہ ضمیر، سنگ دل، بے حِس اور اذّیت پسند لوگوں کا ایک ہجوم ہیں اور بس۔

یہ کوئی ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے اس قبل بھی غالباً 2010 میں سیالکوٹ میں اسی طرح کے ایک مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں مغیث اور منیب کو پولیس کی موجودگی میں سفاکانہ تشدد کر کے جان سے مار ڈالا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا، مگر نہ تو اس وقت کسی میں اتنی اخلاقی جراَت ہوِئی کہ انہں روک سکتا اور نہ ہی میرے علم کے مطابق آج تک کسی فرد کو اس جرم کی سزا ملی.

ہم سب مردہ دل، اور مردہ ضمیر لوگ فقط سانس لینے والی زندہ لاشیں ہیں۔ یہی ہماری حقیقت ہے اور یہی ہماری اوقات۔ خون ہمارے منہ کو بری طرح لگا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں قتل ایک جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہم اس وحشی قبیلے کا حِصہ ہیں جہاں بھائی بہن کو، باپ بیٹی کو، یا شوہر بیوی کو غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے۔ جہاں ایک ممتاز قادری کسی مولوی کی اشتعال انگیز تقاریر سن کر حرمتِ رسول کے نام پر اس شخص کا قتل کر دیتا ہے، جس کی حفاظت کرنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ جہاں طالبان نفاذِ شریعت کا نعرہ لگا کر خود کش حملوں سے نہ صرف اپنے لوگوں کی جانوں کا ضیاع، بلکہ فوج اور پولیس کے ملازمیں کے علاوہ بے قصور عوام کا بھی قتلِ عام کرتے ہیں۔ جہاں ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس سڑک پر سے رکاوٹیں ہٹانے کا بہانہ بنا کر دن دیہاڑے درجنوں مرد عورتوں کو سیدھا فائر مار کر ڈھیر کر دیتی ہے، جہاں بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کا ایجنسیوں کے ہاتھون قتل معمول کی بات ہے، جہاں دن دیہاڑے لائیو کیمرے کے سامنے کراچی میں سرفراز نامی ایک نوجوان کو رینجرز کے اہلکار گولیاں مار کر ہلاک کر دیتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جہاں اخروٹ آباد میں نہتی حاملہ خواتین پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا کر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ تو جس ملک میں خون بہنا اس قدر عام سی بات ہو وہاں ایسے واقعات کا رونما ہونا کسی اچھنبے کی بات نہیں۔

حیرت تو فقط اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک طرف تو عوام چھوٹے موٹے چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کے خلاف اس قدر شدید اور غیر انسانی ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر دوسری طرف یہی عوام خود پر حکومت کرنے کے لئے ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ انہں سرے محل کے مالکوں کے ڈاکے نظر نہیں آتے۔ انہیں رائے ونڈ اور تختِ لاہور کے بادشاہوں کی بدعنوانیاں نظر نہیں آتیں، انہیں مذہبی جماعتوں کے لیڈروں کی سیاسی شعبدہ بازیاں اور قلابازیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ انہیں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کا کھوکھلا پن اور ان کے بے حقیقت دعووں کی اصلیت بھی نظر نہیں آتی؟ انہیں ملکی دفاع کے نام پر تحفظِ پاکستان آرڈیننس جاری کرنے والوں کی بدنیتی نظر بھی نظر نہیں آتی جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے لوگوں کی آزادی سلب کر کے رکھ دی ہے۔

ان لوگوں کے خلاف عوام کا غصہ کیوں بیدار نہیں ہوتا۔ ان کی زیادتیوں پر یہ لوگ احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ الٹا ان کے جلسوں میں زرخرید غلاموں کی طرح کل بھی بھٹو زندہ تھا، اور دیکھو دیکھو کون آیا جیسے نعرے لگاتے ہیں۔

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments