فیمینزم کی ماری فیس بکی سکھیوں کے نام


فیمینزم کی اصطلاح سے میرا پہلا تعارف دو طرح کی خواتین کے ذریعے ہوا جواپنے تئیں فیمینسٹ تھیں۔ پہلی وہ جو بزعم خود نہایت باشعور اور ذی فہم تھیں، فیمینزم کی تعریف سامعین کے مطابق کرتی تھیں۔ اگر مجمع وہ ہے جہاں روایت اور مذہب کا اثر زیادہ ہے تو وہ ”اسلام میں عورتوں کے حقوق“ سے گفتگو کا آغاز کرتیں، ہاں البتہ نجی محفلوں میں وہ ”اپنے“ موقف کا کھل کر اظہار کرتی تھیں۔ دوسری قسم کی خواتین ذرا فلسفیانہ ٹائپ کی ذہنیت رکھتی تھیں۔ایک تقریب میں ان کی مدلل اور پر مغز گفتگو سننے کا بھی اتفاق ہوا۔

انہوں نے حضرت خدیجہؓ کو اپنا رول ماڈل قرار دیا۔ ان کے خیال میں عورت کا درست مقام اس کا گھر ہے اور اولین ڈیوٹی بچے پالنا ہے۔ ان کے نزدیک فیمینزم یہودیوں کی شیطانی سازش ہے۔ ادبی حلقوں میں ذرا خواتین تخلیق کاروں پر نگاہ دوڑائیں تو ایک دوسری ہی طرح کاعجیب عالم نظر آتا ہے۔ یہاں دوچارفیمنزم کی ماری خواتین اپنے اعتماد، ذہانت اور چالاکی کے باعث ایک الگ ہی حلقہ اثر رکھتی ہیں۔

ان کے خیال میں وہ بھی بزعم خود آئیڈیل ورکنگ لیڈیز اور سیلف میڈ ویمن ہیں۔ ایک بار میری کچھ نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگیں کہ ناتجربہ کار اور کنواری لڑکیوں کو بولڈ شاعری نہیں کرنی چاہیے۔ یقین جانیے میں تو کانپ کر رہ گئی کہ کیا شاعری کے لیے بھی نکاح نامہ ضروری ہے؟ میرا معصومانہ سوال ان کی بولڈنیس میں کہیں ان سنا سا رہ گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد ان کی اپنی ”بوووولڈ“ نظمیں دیکھی جو انہوں نے اپنی بولڈ سیلفیوں کے ساتھ شیئر کی تھیں تو جواب مل گیا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ دیگر مغربی اصطلاحوں کی طرح تانیثیت بھی ہمارے ہاں ہر کسی کی زد میں ہے۔ ہرکوئی اس میں سے اپنا جواب نکالنا چاہتا ہے یا شاید ڈالنا چاہتا ہے۔ لیکن فیمینزم بذات خود کیا ہے؟ اس کا جواب کوئی دیسی فیمینسٹ یا فیس بکی سیلفیائی خاتون نہ دے سکی۔

فیمینزم سے میرے تعارف کا ایک ذریعہ فیس بک بھی رہی۔ میں سمجھتی ہوں فیمینزم کا وبائی بخار عام کرنے میں فیس بک کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ پہلے پہل تو خواتین نے فیس بک کی ڈی پی یا پروفائل پیکچرکے لیے شرماتے لجاتے اپنے کسی بھانجے بھتیجے یا کسی پھول وغیرہ کی تصویر لگاتی رہیں لیکن جب تکلفات کے پردے گرنے لگے تو وہ معصوم معصوم سی ڈری ڈری سی اپنی تصویریں لگانے لگیں۔ اس رجحان میں تیزی تب آئی جب کیمرے والا فون اور پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی اینڈروئیڈفون آیا۔

اس فون کے ذریعے پہلے ان کی سادہ تصویریں آئیں، پھر سیلفیاں اور اب تو ویڈیوز لگانے یا فیس بک پر لائیو آنے میں بھی کوئی قباحت نہیں رہی۔ فیس بک دیوی کے چمتکار نے عورت کے پردے کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب کسی لڑکی کی تصویر کوئی مسئلہ نہیں رہا کہ اب اس حوالے سے اخلاقیات بدل چکی ہیں۔ مگر اب کے مسائل اور طرح سے سامنے آنے لگے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی دیسی فیمنسٹ فیس بک پر ہونے والی ان مردوں کی ہراسمنٹ کی شکایت کرتی نظر آتی جو اسی کی دلبرانہ سیلفیوں سے شہہ پا کر انباکس میں ”فرینک“ ہونا چاہتے، یا کوئی چلبلا سا کمنٹ کرکے گزر تے۔

اگر تو شکاری کوئی بڈھا، پینڈو، غیر معروف یا ناپسندیدہ ہے تو پھر آن لائن پدرسری کے خلاف عقابی روح ایسی بیدار ہوتی ہے کہ سیمون دی بوا کی روح بھی کانپ اٹھے۔ دیسی فیمینسٹوں کے ان قسموں کے علاوہ اور بھی برانڈ موجود ہیں۔ مثلا ایک وہ جن کا ٹریڈ مارک جین اور سگریٹ ہے اور دوسری وہ جو بلیک اینڈ وائٹ فلموں کی ہیروئن کی طرح مرد کے ظلم اور اپنی مظلومیت کا رونا روتی رہتی ہیں۔

فیس بک پر جہاں ہم اپنی تصویریں یا سٹیٹس لگاتے ہیں اسے wallکہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وال آپ کے بیڈ روم کی نہیں ہے بلکہ اس بیرونی دیوار کی مانند ہے جس کا رخ شاہراہ عام کی طرف ہے۔ آپ یہاں سے گزرنے والے ہر شخص کا گریبان نہیں پکڑ سکتے کہ وہ آپ کی دیوارکے سائے تلے کیوں رکا؟ جس آزادی اظہار کا استعمال آپ کررہے ہیں اس کا حق دوسروں کو بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے کے بیشتر مردوں کو اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے لیکن فیس بک کے ذریعے یہ ہونا ناممکن ہے۔ البتہ فیس بک نے ہمیں ڈیلیٹ اور بلاک کی سہولت دے رکھی ہے جسے بوقت ضرورت استعمال میں لا یا جاسکتا ہے۔

میری پیاری فیس بکی سکھیو! فیمینزم ایک عالمی تحریک ہے۔ جدید تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذریعے سے خواتین نے بڑے بڑے اہداف حاصل کیے ہیں۔ عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملا، تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ملی، مساوی معاوضہ طے پایا، نوکریاں طے پائیں، قانون ساز اسمبلیوں میں حصہ ملا، معاشی طور پر خود مختار ہونے کا احساس ملا، وراثت اور طلاق کا حق ملا اور پسندکی شادی کا اختیار ملا۔ اسی تحریک کے ذریعے سے مزدور عورتوں نے مردوں کے ساتھ مل کر سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھائی۔

ان عورتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے شدید جدوجہد کی۔ تاریخ و ثقافت کو کھنگالا، نئے افکار و تصورات دیے، جلوس نکالے، جانیں دیں اور ظلم سہے۔ فیمینزم کی جدوجہد، مقاصد اور اس کے حاصلات پر نگاہ دوڑاؤ تو شرم آتی ہے کہ آج ہم اسے کتنے چھوٹے پیمانے پر استعمال کررہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آج کی پاکستانی عورت اور اس کا معروض دونوں بدل گئے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل ملازم پیشہ خواتین اتنا کچھ کرکے بھی روایتی معاشرے کی بند گلی میں کھڑی ہیں۔

میرا اپنی تمام سکھیو کو مشورہ ہے کہ اگر وہ واقعی مرد کی برتری اور معاشرے کے صنفی امتیاز کو چیلنج کرنا چاہتی ہیں تو علم و فکر اور نظریات سے آراستہ ہوں، باہر نکلیں، اپنی انجمنیں بنائیں، جلوس نکالیں، ماریں کھائیں اور زمانے کا سرد و گرم چکھیں۔ پاکستان کی عام نا خواندہ، پسماندہ، معاشی استحصال کا شکار، مجبورعورت کے لیے آواز اٹھائیں۔ ان کی تعلیم و ترقی اور آزادی و مساوات کے لیے یہاں کی روایتی مذہبی مردانہ ذہنیت کا مقابلہ کریں۔ میری فیس بکی سکھیاں تبھی ایک سچی فیمنسٹ ہونے کی حقدار ہو سکتی ہیں اور اگر یہ سب آپ کے لیے ناممکن ہے تو اپنے ذاتی نفسیاتی مسائل کے لیے فیمینزم کے نام پر سٹارپلس والی ڈرامہ بازی نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments