استاد کا مرثیہ


اتہاس میں مختلف شخصیات کو خدا کا پرتو کہا گیا ہے۔ خدا کو زمین پر سامنے لا کر دیکھنے کی تمنا انسان کی جبلت میں ہے۔ انسان کی یہ خواہش ہمیشہ رہی ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی، لیکن خدائی صفات کا حامل انسان دھرتی پر اسی کا مظہر ہے۔ خدا اور انسان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ازل میں خدائے بزرگ و برتر نے ملائکہ کے خیال بدگمان کو شکست خوردہ دیکھنے کے لئے آدم سے خالق و مخلوق کا رشتہ جوڑنے کے فورا ً بعداستاد کا رشتہ استوار کیا۔ ”وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمآء َ کُلَّھَاثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓءِکَۃِفَقَالَ اَنْبِءُوْنِی بِاَسْمَآءِ ہٰٓوءُ لَٓا ءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ اور اس نے آدم کو (سب چیزوں ) کے نام سکھاے۔ ، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ “ سورۃالبقرۃ

شیطانی محرکات میں الجھاؤکے بعد اس کو اپنے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کو کہا۔

فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہِ کَلِمٰتٍ فَتَا ب َ عَلَیْہِ، اِنَّہ ’ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْم۔ پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کردیا ”۔ سورۃ البقرۃ۔ زمیں پر جب اپنی اس شاہکار تخلیق کوبے خبرپھرتے دیکھا تو پھر اسی شکل میں ہی دوبارہ رونما ہوا۔ وَوَجَدَکَ ضٰآل ًّا فَھَدٰی۔ “ اور آپ کو رستہ سے ناواقف پایا تو رستہ دکھایا۔ ”سورۃ الضحیٰ۔ جب انسان کو پیدا کیا گیا تو اس کی دوسری تمام مخلوقات پر فضیلت علم کی وجہ سے ملی اور اس نے یہ علم اپنے استاد خدا سے سیکھا۔

استاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا کوزے کو دریا میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ زبان وادب کے استاد تو یونیورسٹیوں اور کالجز کے سر کا تاج ہوتے ہیں۔ سمندروں کی وسعت کے حامل ان اساتذہ میں علم کے خواہشمند پیاسے طالب علموں کو سیراب کرنے کے واسطے سمندر کی لہروں سی ہی بے چینی پائی جاتی ہے۔ لیکن ان کے قلب طمانیت سے یوں مامورہوتے ہیں جیسے امرت دھارا سے لبریز جام، جو اچھالے جانے پر بھی چھلکتے نہیں۔ علم کے ان سمندروں میں چھپی ہزاروں لاکھوں سیپ اور ان میں موجود قیمتی موتی، کبھی اشعار اور کبھی پند ونصائح کی شکل میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔

ان شعبہ جات کے استاد صرف محدودکتابی علم ہی نہیں منتقل کرتے بلکہ انسان کے دماغ کو وسعت دیتے ہوے مختلف ادوار اور زبانوں کے ادبی شاہکاروں سے طالب علموں کو مستفیض ہونے کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ ان کا علم لامحدود اور ان کا دائرہ کار لا متناہی ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ زمان ومکاں اور مذہب و ملت کی قیود سے آزاد ہوتے ہیں۔ کیونکہ علم کی کوئی حد ہے اور نہ ہی پابندیوں سے اس کا پھیلاؤ رکتا ہے۔ جامعات کے اساتذہ کا کام صرف کتابوں سے پڑھانا اوربچوں کو ان کی پسندیدہ معلومات فراہم کرنا نہیں ان کا اصل کام ان کے کردار کی تعمیر ہے۔

”تعلیم یہ نہیں کہ لوگوں کو جو وہ چاہتے ہیں اس کے حاصل کرنے کے طریقے سکھلاے جائیں۔ بلکہ یہ امید کی جاتی ہے کہ تعلیم ایک ایسی مشق ہے جس کی مدد سے بہت سے لوگ یہ سیکھیں کہ کن چیزوں کا حصول ان کے لئے مناسب ہے۔ “ رونالڈ ریگن۔ جامعات کا کام طلبہ کی روایتی سوچ کو بدلنا ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ تو جامعات آخری۔ ما ں کی سوچ اکثر محدود، خاندانوں کے خیالات اکثر فرسودہ اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز جدید و لا محدودفکر کے حامل۔ جامعات کا اصل کام طالب علموں کے روایتی خیالات جو وہ گھر سے لے کر آتے ہیں، میں تبدیلی لانا، جدت پیدا کرنا اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

تعلیم دینا اور علم سکھلانا خدا کی سنت ہے اساتذہ اس سنت کو زندہ رکھے ہوے ہیں۔ کردار سازی ان کا دوسرا اہم کام ہے۔ جامعات میں غیر نصابی سرگرمیاں کردار سازی کرتی ہیں۔ طلبہ کو تفویض کی گئی ذ مہ داریاں طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان میں خودی کی پہچان اور خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے اداروں میں ان تمام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ان پرفرسودہ روایات اور مذہب کے نام پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔

ہم نے اساتذہ کوان پابندیوں کے ساتھ پڑھانے پرمجبور کیا۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ استاد جسے خدا کا پرتو کہا جا سکتا ہے اسے ہم نے مذہب کے نام پر بچوں کے سامنے زندہ جلتے دیکھا۔ گٹھن زدہ اس معاشرہ میں ہتھکڑیوں میں سر بازار رسوا اور مرنے کے بعد بھی پابند سلاسل دیکھ کر ان کی تذلیل کے جبر کو برداشت کیا۔ اور اب خدائی صفات کے حامل، اللہ کے دیے گئے علم کو پھیلانے والے استاد کو ماں کی گود میں آہنی آلات سے کچلے جاتے اورچھریوں سے کٹتے بھی دیکھ لیا۔ جہالت کی یہ انتہا اور کیا گل کھلاے گی۔ ظلم اور جہالت کے یہ بادل کب تک برسیں گے، کب یہ گھل کربکھرجا ئیں گے اورکب آسماں صاف دکھائی دے گا۔ کب مادر علمی کی فضائیں آزادی کی ہواؤں سے مہکیں گی۔ کب اساتذہ کی عزت بحال ہوگی اور وہ ان دیکھی پابندیوں سے ماورا ہو کر علم کی شمعیں روشن کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).