اعلیٰ عدالتی این آر او


پاکستان میں قانون کی حکمرانی اب خواب و خیال ہی بنتی جا رہی ہے۔ جو ادارہ بھی غالب پوزیشن میں آتا ہے وہ اپنی چلائے بغیر مان کر نہیں دیتا۔ پاکستان میں بادشاہ یا بادشاہ گر ہی اب تک اپنی من مانیاں کرتے نظر آتے تھے لیکن اب ایک ایسا ادارہ بھی میدان ”من مانی“ میں کود پڑا ہے جس کا اس طرح میدان میں آجانا شاید قانون کی حکمرانی کے تابوت میں آخری کیل ہی ثابت ہوگا۔ اس ادارے کا ماضی بہت شفاف تو کبھی نہیں رہا کیونکہ ماضی میں کیے گئے بہت سارے فیصلے اور اقدامات نہ صرف شدید تنقید کی زد میں آتے رہے بلکہ خود ادارہ بھی گاہ بگاہ اپنے کیے جانے والے فیصلوں کو ”وقت کی ضرورت“ قرار دیتا رہا ہے۔

کچھ فیصلے ایسے بھی ہیں جس کو خود اُس وقت کی عدالت کے ججز بعد اک مدت مصلحت وقت قرار دیتے نظر آئے ہیں جس میں نمایاں فیصلہ ذوالفقار علی کو پھانسی دیے جانے کا بھی ہے۔ ان تمام تنازعات کے باوجود سابق چیف جسٹس جناب افتخار چودھری کی معیت میں چلنے والی ”عدالت بچاؤ“ مہم کے نتیجے میں عدالت بحالی کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ عدالت ہر قسم کے دباؤ سے باہر آچکی ہے اور اب جو فیصلے بھی ہوں گے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہی ہوں گے لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی ساری امید و آس دم توڑ چکی ہے اور ہماری عدالت انصاف وہیں کی وہی آن کھڑی ہوئی ہے جہاں پرویز مشرف کے زمانے میں عدالتی قتل عام سے پہلی تھی۔ اُسی طرح دباؤ کا شکار، بے بس، لالچ کے بوجھ تلے دبی اور سسکتی عدالت جہاں قانون کے مطابق نہیں بلکہ ڈالروں اور دولت کے انبار کے مطابق فیصلے کیے جانے لگے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کن چیزوں کو ثبوت قرار دیتی ہے۔ کیا ثبوت انسانی شکل و صورت کے ہوتے ہیں، پہاڑ اور ریگستان ہوتے ہیں، سمندر اور جزیرہ نما ہوتے ہیں یا فرشتوں کی طرح وحی الٰہی لا کر ججز کے حضور پیش کر کے کسی کو مجرم یا بے قصور ہونے کی خبرنوید لا کر دیتے ہیں۔

کتنے بڑے بڑے مگر مچھ ملکی و غیر ملکی کرنسیوں کے ڈھیروں کے ساتھ پکڑے گئے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو ٹنوں سونے اور چاندی کی کانوں سے نکالے گئے ہیں لیکن پاکستان میں آج تک ان کے خلاف ثبوت تلاش کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ دولت کا بھی یہ عالم کہ کئی کئی دن تو انھیں مشینیں ہی نہ گن پائیں اور سونے چاندی کا بوجھ اتنا کہ کرینوں کے بوم ٹوٹ ٹوٹ جائیں لیکن ایسے لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے کئی کئی برس ثبوتوں کی تلاش میں صرف ہوجانے کے بعد بھی عدالت کو یہی شکایت رہتی ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جا سکتی کہ انھیں ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے۔

کیا ایسے افراد کے لئے اتنا ہی جرم کافی نہیں کہ انھوں نے اتنی ڈھیروں رقم بینکوں میں رکھنے کی بجائے گھروں میں کیوں رکھی؟ کیا دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لوگ اپنی دولت کو ذخیرہ کریں؟ کیا اس کو ”منی لانڈرنگ“ نہیں کہا جاتا۔ دولت کہاں سے آئی اور اس کے ذرائع کیا تھے، یہ سوال تو ایک الگ ہی سوال ہے جس کی سزا الگ ہے لیکن دولت کو گھر میں ذخیرہ کرنا تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جب ایک جرم کے لئے مزید کسی ثبوت کی ضرورت ہی نہ ہو تو پہلے اس کے خلاف تو عدالتی فیصلہ آجانا چاہیے یا نہیں؟

خبر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کی اراضی کی مد میں 7 برس میں 460 ارب روپے دینے کی پیش کش قبول کرتے ہوئے نیب کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن پیشکش کردہ رقم میں سے 25 ارب روپے ڈاؤن پے منٹ کی صورت میں 27 اگست تک جمع کرائے گا جبکہ اس کے بعد پہلے 4 سال ڈھائی ارب روپے ماہانہ ادا کرنا ہوں گے، بقیہ رقم آخری 3 برس میں 4 فیصد مارک اپ کے ساتھ ادا کی جائے گی۔

پیشکش کا لفظ خود اس بات کا غماز ہے کہ مجرم اپنی چوری تسلیم کرتا ہے اور اس چوری پر اپنے سودے میں عدالت کو شریک بنا کر باقی چوری کو اپنے لئے جائز بنانا چاہتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ یہاں تو عدالت کو اب مزید ثبوت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ مجرم اپنے جرم کا اقراری ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ خود عدالت شریک جرم ہونا بصد خوشی قبول کر رہی ہے اور نہ صرف جرم میں شرکت قبول کی جارہی ہے بلکہ وہ مجرم کے سارے داغ دھبے بھی صاف کرکے اسے اجلا اور صاف ستھرا کررہی ہے۔ اور حکم دیا جا رہا ہے کہ دریا میں سے جو ایک بالٹی پانی دے رہا ہے ہم اس کی شکر گزاری میں پورا دریا نہ صرف ملک ریاض کے حوالے کر رہے ہیں بلکہ اب اس کے خلاف کسی بھی تادیبی کارروائی نہ کرنے کا حکم بھی صادر کرہے ہیں۔

پاکستان کے عوام کو جو بات صاف صاف سمجھ میں آرہی ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان میں مجرم وہی ہے جو کسی تنور سے تین روٹیاں اپنی بھوک مٹانے کے لئے چرائے یا چند سکے کسی کی جیب سے نکا ل اپنے ماں باپ کے لئے دوا دارو کا انتظام کرے۔ اسے مارو اور اس حد تک مارو کہ وہ مر ہی جائے لیکن جو کھربوں روپوں اور ٹنوں سونا چاندی ذخیرہ کرلیں ان سے سودا کاری کرکے ان کو صاف ستھرا بنادو اور اپنی جھولیاں بھی بھر لو۔

کبھی نا انصافیوں پر ہوتا یہ تھا کہ مظلوم ایک ادارے کی جانب مڑ مڑ کو دیکھتا تھا، دہائیاں دیتا تھا، فریاد کرتا تھا اور انصاف مانگتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ابھی ملک میں ایک ادارہ ایسا ہے جہاں اس کی فریاد ضرور سنی جائے گی اور اس کو انصاف بھی ملے گا لیکن اس موجودہ عدالتی فیصلے نے ہر آس و امید کی کرنوں کے در بند کر کے رکھ دیے ہیں۔

یہی ملک ریاض ہیں جو ٹی وی پر لائیو کہہ چکے ہیں کہ ”فائیلوں میں نوٹ لگاؤ تو وہ اڑنے لگتی ہیں۔ پاکستان میں ہر کام رشوت سے ہوجایا کرتے ہیں“، ان کی یہ بک بک اس وقت کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح لگتی تھی لیکن آج معلوم ہوا کہ وہ سچ ہی کہتے تھے لیکن سارا بھول پن ہمارے اندر ہی تھا۔ اب کوئی بتائے کہ میں اپنے اُس وقت کے ضمیر کو کوسوں یا اِس وقت کے دل کو چھیدوں؟ شاید اسی کربناک لمحے کے لئے کسی نے کہا تھا کہ

اب تو سوچا ہے کہ پتھر کے صنم پوچیں گے

تاکہ گھبرائیں تو ٹکرا بھی سکیں مر بھی سکیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).