ہائیڈل برگ کی ڈائری سے چند اوراق (2)


\"nasirزیر نظر اوراق ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں میرے چھ ماہ کے قیام کے چند دنوں کی روداد ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مرکز میں مئی تا اکتوبر 2011ء میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ ملی۔ میں نے وہاں نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات پر تحقیق کی۔ قرة العین حیدر پر جرمن زبان میں پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھنے والی ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ (Dr. Christina Oesterheld) میری نگران تھیں، جو وہاں جنوبی ایشیا کی جدید زبانوں کے شعبے میں اردو کی استاد ہیں۔ پروفیسر ہانس ہرڈر اس شعبے کے سربراہ تھے، جن سے میں نے دنیا جہان کے موضوعات پر طویل گفتگوئیں کیں۔ میں تقریباً روزانہ وہاں کی مصروفیات، مشاغل اور گفتگوﺅں کی روداد لکھ لیتا تھا۔ وہاں قیام کے دوران میں، راقم نے جو تحقیق کی، وہ ” ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری“ کے عنوان سے سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سے 2014ء میں شایع ہو گئی، مگر ان اوراق کو چھپوانے کی خواہش نہیں ہوئی۔ ایک دوست نے اصرار کیا تو چند اوراق کمپوز کروائے۔ (ن ع ن)

19مئی2011ئ

ڈاکٹر کرسٹینا سے تفصیلی ملاقات کا موقع مینزا میں دوپہر کے کھانے کے وقت تقریباً روز ملتا ہے۔ مینزا کیا ہے، یورپی طرز زندگی کا تقریباً مکمل نمونہ؛ صرف دوپہر کا کھانا ساڑھے گیارہ سے دو بجے تک ملتا ہے، تاہم کافی ، بیئر اور شراب وغیرہ شام تک؛ کھانے کے لیے کارڈ بنوانا لازمی ہے۔ آپ کے پیسے یعنی یورو کارڈ میں جمع ہو جاتے ہیں۔ آپ چاہیں تو خود کار مشینوں پر خود اس میں یورو بھر لیں، چاہیں تو متعلقہ کاونٹر پر جا کر بھر وا لیں۔ پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں تو دائیں ہاتھ ٹرے، پلیٹیں اور چھری کانٹے جمع رکھے ہیں۔ خود اٹھائیس \"13835801_1265829940102319_800561662_o\"اور قطار میں چلتے ہوئے اپنی پسند کا کھانا ڈالیں۔ اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کی مانند سلاد، سالن، میٹھے، چٹنیوں وغیرہ کے لیے الگ الگ سٹال ہیں۔ کھانا ڈالنے کے بعد پھر قطار میں کھڑے ہوں اور کھانے سے پہلے کھانے کا بل چکائیں۔ یہاں انوکھی طرز کی مساوات ہے؛ سلاد سے لے کر مچھلی، مٹن، مرغی، یہاں تک کہ سؤر کے گوشت تک سب کے دام یکساں ہیں۔ آپ سے جو پیسے وصول کیے جاتے ہیں، وہ شے کے نہیں، وزن کے ہوتے ہیں۔ آپ تین سو گرام سوپ لیں، چاول لیں، مچھلی لیں یا محض سلاد کے پتے، آپ کو تقریباً تین یورو دینے ہوں گے، جو دراصل وزن کی مشین پر پلیٹ کے رکھنے اور دوسری طرف ریڈایبل مشین پر کارڈ رکھنے سے، کارڈ سے منہا ہو جاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد پھر آپ کو قطار میں لگنا پڑتا ہے اور ایک پیہم رواں دواں بیلٹ پر جھوٹے برتن دھر دینا ہوتے ہیں__ یوں پورے مینزا کو، جس میں بلاشبہ روزانہ ہزاروں لوگ کھانا کھاتے ہیں، فقط دو آدمی چلا رہے ہوتے ہیں۔ کچن میں کام کرنے والے اور کھانا لگانے والے چار چھ لوگوں کو اس میں شامل نہ سمجھیے۔ باقی سارا کام قانون، ضابطے یعنی سیلف سروس، قطار بندی اور مشینوں سے ہوتا ہے۔ یہی پوری طرزِ زندگی ہے، کم لوگوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینا۔ یہاں دفاتر میں نائب قاصد، چوکیدار کا رواج نہیں۔ یہ کام خود کرنا پڑتا ہے اور کوئی اس میں عار محسوس نہیں کرتا __ کھانے کے بعد تقریباً سب لوگ کافی یا کوئی دوسرا مشروب لیتے ہیں۔ ہم سب اپنا اپنا کھانا کھاتے ہیں، مگر کافی ڈاکٹر کرسٹینا تمام ساتھیوں کو، جو لنچ پر ان کے ساتھ ہوں، پلاتی ہیں۔ ان سے اصل ملاقات کافی کی میز پر ہوتی ہے اور اب مجھے \"Heidelberggate\"محسوس ہوتا ہے کہ اکثر اہم باتیں کافی/چائے کی میز پر ہی ہوتی رہی ہیں۔ نہ معلوم کیوں کھانے کے وقت گہری باتیں نہیں کی جا سکتی/جاتی، مگر کافی/چائے کے ساتھ ذہن اچانک ایک نئے مدار میں جست لگاتا ہے۔ یہاں کافی ہاؤس کا ماحول بھی بے حد خوب صورت ہوتا ہے۔ سامنے تازہ پانی کا ایک تالاب بنا ہوا ہے، جس کے گردا گرد ، دھوپ میں لڑکے لڑکیاں بیٹھے ہوتے ہیں۔ آج دھوپ تھی تو نوجوان لڑکے لڑکیوں کا طرزِنشست و برخاست دیدنی تھا۔ پورا ماحول غیررسمی ہوتا ہے۔ کافی ہاؤس میں بھوک نہیں مٹائی جاتی، پیٹ نہیں بھرا جاتا، فرصت کا لطف اٹھایا جاتا ہے اور شاید اسی لیے اچھی، دل چسپ اور کچھ گہری باتیں ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر کرسٹینا کہنے لگی کہ جرمنی میں کوئی وفاقی یا مرکزی یونیورسٹی نہیں، تمام سٹیٹ یعنی صوبائی یونیورسٹیاں ہیں اور ایک دوسری سٹیٹ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے مطالعات کا مرکز بھی چند سال پہلے وجود میں آیا ہے۔ لہٰذا دونوں مراکز میں ایک طرح کی رقابت بھی وجود میں آ گئی ہے۔ وہ اس خدشے میں مبتلا تھیں کہ کہیں ان کا انسٹی ٹیوٹ مات نہ کھا جائے۔ وہ پرعزم تھیں کہ انھیں اپنے انسٹی ٹیوٹ کو ہرسطح پر ممتاز رکھنا ہے۔ ان کے خدشے کی ایک وجہ فنڈز کی کمی تھی۔ میرے لیے یہ چونکانے والی بات تھی کہ انھیں سٹیٹ کہتی ہے کہ یونیورسٹی اپنے وسائل، ڈونرایجنسیوں سے عطیات لے کر بڑھائے۔ جرمنی میں سکول کی تعلیم کی تمام تر ذمہ داری سٹیٹ کے سپرد ہے، مگر اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ یونیورسٹیوں کو فراخ دلی سے فنڈ نہیں دیتی۔ چناں چہ بعض معاملات میں ہماری یونیورسٹی ان کی یونیورسٹیوں سے بہتر ہے۔ مثلاً پنجاب یونیورسٹی ہر سال تحقیقی منصوبوں کے لیے کروڑوں روپے رکھتی اور فیکلٹی کو دیتی ہے۔ اساتذہ کو تحقیقی مقالات پر ایک معقول رقم دیتی ہے، پرفارمنس ایوارڈ دیتی ہے، مگر یہاں یہ سب باتیں خواب و خیال ہیں۔یہاں اکثر جو بڑے بڑے پراجیکٹ جاری ہوتے ہیں، وہ بعض نجی اداروں یا فاؤنڈیشنوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔

 پراجیکٹ سے یاد آیا۔ ڈاکٹر ہرڈر کی زیرنگرانی اس وقت تین پراجیکٹ چل رہے ہیں؛ ہندی، بنگلہ اور تامل کے۔ انھوں نے خود مجھے بتایا اور پھر فوراً کہا کہ اردو کا بھی ہونا چاہیے تھا۔ انھیں یہ احساس شاید میرے ممکنہ سوال کی وجہ سے ہوا کہ میں کئی بار جنوبی ایشیائی \"79c11ca611\"زبانوں میں اردو کی اوّلیت سے متعلق ان سے بات کر چکا تھا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہاں جنوبی ایشیا مترادف ہے، ہندوستان کے، ہندوستانی زبانوں کے۔ بنگلہ کی اہمیت بھی ہرڈر صاحب کی وجہ سے ہے، جو اس زبان کے ماہر ہیں۔ یہاں واحد مجسمہ ٹیگور کا ہے، اس کی علامتی اہمیت بھی بے تحاشہ ہے۔ اسی عمارت میں اقبال چیئر موجود ہے، مگر اقبال کہیں نہیں۔ پروفیسر وقار علی شاہ آج کل اس چیئر پر کام کر رہے ہیں جن کا اصل شعبہ تاریخ ہے۔ ایک دن وقار صاحب بتانے لگے کہ یہ چیئر محض اقبال کے نام سے موسوم ہے، اصل میں سوشل سائنس کی چیئر ہے۔ چناں چہ وہ یہاں اقبال، اردو زبان، شاعری، ادب نہیں، پاکستان کی تاریخ و سیاست کے کورس پڑھاتے ہیں۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں، مگر کیا وہ جنوبی ایشیا کے یورپی تصور میں جو مرکزی اہمیت ہندوستان کو دی گئی ہے اور پاکستان/اردو کہیں حاشیے پر ہے، اسے چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟__ مگر یہ سوالات ہماری قوم اور اس کے سیاسی، سفارتی نمائندوں کے لیے چنداں اہمیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف نوکری پیشہ لوگ ہیں: ہمارا عہدہ، ہمارے اختیار اور دولت سے آگے کسی اور منطقے میں قدم نہیں رکھنے دیتا۔ ثقافتی، دانش ورانہ اور قومی نوعیت کے سوالات، یہاں تک خالص انسانی اہمیت کے سوالات کی کوئی گنجائش ہمارے عہدے اور منصب میں نہیں۔ یہ بس چند دل جلوں کے مسائل ہیں اور ان کی ٹیس بھی فقط انھی کے دلوں میں محسوس ہوتی ہے۔ یہ تیغ انھی کے لہو میں نیام ہوئی رہتی ہے!

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

\"13835913_1265850366766943_590880161_o\"

24مئی2011ئ

آج بھی دوپہر کے کھانے اور کھانے کے بعد کافی کے دوران میں ڈاکٹر کرسٹینا سے کئی باتیں ہوئیں۔ آج منان طاہر بھی ساتھ تھیں، اس لیے تمام وقت اردو میں بات چیت ہوئی۔ اکثر ہمارے ساتھ جرمن ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ تر جرمن میں اور کچھ انگریزی اور تھوڑی بہت اردو میں گفتگو ہوا کرتی ہے۔ میرے دریافت کرنے پر کرسٹینا صاحبہ نے بتایا کہ یہاں ہر شعبے میں فقط ایک پروفیسر ہوتا ہے۔ میرے لیے چونکنے کا مقام تھا؛ مزید جب انھوں نے انکشاف کیا کہ لازم ہے کہ وہ کسی دوسری یونیورسٹی (مقامی یا غیرمقامی) سے ہو تو یہ حیرت کا مقام تھا! تاہم اس کے لیے جرمن شہری ہونا بھی لازم ہے۔ اس کی منطق بڑی واضح ہے کہ یہاں پروفیسر کو بے حد بلند مرتبہ حاصل ہے اور بلندی پر بس ایک ہی شخص کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہاں مقالات یا کتب کی تعداد کی شرط تو نہیں، مگر ضروری ہے کہ اس نے پی ایچ-ڈی کے بعد چند اہم تحقیقی منصوبے مکمل کیے ہوں۔ اس کے تحقیقی کام کے جائزے کے لیے کمیٹی بنتی ہے اور اس کے تقرر سے پہلے اسے ایک جلسے میں لیکچر دینا ہوتا ہے، جس میں طالب علم بھی شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے ’پبلک ڈیفنس‘ کی طرح اور ہر ایک کو سوال پوچھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بعد میں اس کا انٹرویو لیا جاتا ہے۔ پروفیسر کو شعبے میں کام بھی سب سے زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ لیکچر دینے پڑتے، قسم قسم کے اجلاسوں میں شرکت کرنا پڑتی اور تحقیقی منصوبوں کی نگرانی کرنا ہوتی ہے__ اس لحاظ سے ہم لوگ تو جنت میں رہتے ہیں۔ پندرہ مقالے لکھے، پندرہ سال تدریس کی اور کوئی مائی کا لال ہمیں اپنے ہی شعبے میں پروفیسر ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اور پروفیسر کیا ہوئے، مراعات و نوازشات کی بارش شروع ہو گئی۔ سب سے کم پیریڈ پروفیسر پڑھائے گا، ایک الگ کمرہ ملے گا، ایک سٹینو، ایک چپراسی، فون، پٹرول کے ماہانہ پیسے الگ! یہاں ان مراعات اور ایک قسم کے جاگیردارانہ طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں__ یہاں تمام لیکچرر اور سینئرلیکچرر کو فقط کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے اور چھ سال بعد بالآخر کہیں اور جانا پڑتا ہے۔ دو سال بعد وہ واپس آ سکتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 67 سال ہے اور اب اس میں مزید دو برس کا اضافہ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔

آج منگل تھا ور منگل کو ہندی اردو کی بات چیت کی کلاس ہوتی ہے جس میں میں بھی جاتا ہوں۔ آج اودے پور، راجستھان، بھارت سے ہندی \"IMG_1645s\"ناول نگار منیشا آئی ہوئی تھیں۔ چناں چہ ہانس ہرڈراور فیلکس بھی آئے۔ اس نے اپنے ناول شگاف سے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ گذشتہ ہفتے اسی کلاس میں ہیراونتی لال کو مدعو کیا گیا تھا جو حال ہی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے یہاں ایک سال کے لیے آئے ہیں۔ تاریخ کے استاد ہیں اور یہاں عہدوسطیٰ کے ہندوستان کے ادب اور کلچر پر لیکچر دیں گے۔ بہت باتونی ہیں اورغضب یہ کہ زیادہ باتیں اپنے بارے میں کرتے ہیں۔ گزشتہ اجلاس میں بہت بور کیا تھا__ اسے اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستان کے لوگ، ہندی اور ہندیات کے فروغ کے لیے اکثر آتے یا بلائے جاتے ہیں۔ یہ بھی اتفاق نہیں کہ اس وقت شعبے میں جو تحقیقی منصوبہ جاری ہے، اس میں ہندی اور بنگلہ میں طنز و مزاح کی روایت پر کام ہو رہا ہے، مگر اردو شامل نہیں ہے۔ آج ڈاکٹر کرسٹینا بتا رہی تھیں کہ جب یہ منصوبہ بنایا جا رہا تھا تو انھوں نے اردو کو شامل کرنے پر زور دیا تھا اور جب ان کی رائے سے اتفاق نہ کیا گیا تو وہ احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کر گئی تھیں۔ وہ اپنی ساری کوشش اور اردو سے قلبی محبت کے باوجود جنوبی ایشیا کے اس تصور کو بدلنے سے قاصر ہیں، جس میں فقط ہندوستان کی گنجائش رکھی گئی ہے اور خود ہندوستان نے مزید گنجایش بڑھائے چلے جانے کی منظم کوشش کی ہے۔ آج منیشا کا آنا بھی اس کوشش کا حصہ تھا__خیر! اس نے ناول سے اقتباسات پڑھے۔ ناول کشمیر سے متعلق تھا۔ سوالات کرنے کی دعوت دی گئی۔ ہرڈر صاحب نے کچھ سوالات کیے جو ناول کے محرک سے متعلق تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ ”آپ نے ناول میں وسیم کو آتنک وادی لکھا ہے۔ جیسا آپ کہتی ہیں ہیں کہ آپ نے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر، یعنی الگ ہو کر، غیر جانب داری سے لکھا ہے، تو کیا وسیم کی یہی ایک شناخت ہے؟ یہ شناخت تو اسے انڈیا کی ریاستی آئیڈیالوجی نے دی ہے، ایک شناخت اسے اس گروہ نے دی ہے جو ریاستی آئیڈیالوجی کو چیلنج کرتا ہے اور اسلحہ بند ہے!“ اس نے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ فقط یہ کہا کہ ناول میں لکھا ہے کہ وہ کیوں دہشت گرد بنا؟ اس کے ناول کی زبان اردو ہی لگی، مگر رسم الخط ناگری ہے۔ عبداللہ حسین سے بہت متاثر تھیں۔ باتوں باتوں میں پاکستان اور بھارت کے نئے انگریزی لکھنے والوں کا ذکر بھی ہوا۔ بتانے لگیں کہ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں اس کی ملاقات ایک چھبیس ستائیس سالہ پاکستانی مصنف سے ہوئی جو انگریزی میں لکھتا ہے۔ اس کے استفسار پر پاکستانی مصنف نے بتایا کہ وہ اس لیے انگریزی لکھتا ہے کہ پاکستان میں اردو ختم ہو گئی ہے! انا للہ پڑھنے کو جی\"Gothic-Arc\" چاہا، میں نے عرض کیا کہ موصوف خود کو پورا پاکستان سمجھتے ہوں گے۔ ان کے لیے اردو کیا ختم ہوئی، پورے پاکستان کے لیے اردو ختم ہو گئی۔ اپنی ہی جڑوں سے انکار یا ان کے سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ اور ایک گلوبل زبان اور کلچر کا انتخاب__ ایک نیا نوآبادیاتی ذہنی رویہ ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستانی اور بھارتی انگریزی فکشن لکھنے والوں کے موضوعات کیا ہیں؟ بیشتر دہی موضوعات ہیں، جو ہمارے معاشروں کی تاریک تصویر پیش کرتے ہیں: دہشت گردی، بنیادپرستی، طالبانائزیشن وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہاں بس یہی ہو رہا ہے؟ یہ اپنی جگہ پر حقیقی ہیں، مگر کیا مرکزی حقیقت ہیں اور پھر اس حقیقت کی آگ میں ہمیں کس نے دھکیلا؟ یہ سمجھنے والی بات ہے کہ اچانک ہمارے انگریزی لکھنے والوں کی مغربی دنیا میں بڑے پیمانے پر پذیرائی کیوں شروع ہو گئی؟ پوسٹ کولونیل مطالعات اور جنوبی ایشیا کی مطالعات کے انگریزی شعبوں نے بہ طور خاص ان پر کیوں خصوصی توجہ دینا شروع کر دی ۔میں اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنا چاہتا، مگر اس سوال کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ ہمیں عالمی سطح پر کون، کس زاویے سے پیش کر رہا ہے؟ اسے اردو کے ادیبوں کو اپنے لیے چیلنج بھی سمجھنا چاہیے۔ اردو کے اعلیٰ ناول لازماً انگریزی میں ترجمہ ہونا چاہیں اور مسلسل یہ عمل جاری رہنا چاہیے، مگر پاکستان کے انگریزی ناولوں کو پاکستان کےحقیقی ترجمان سمجھنے کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارے پاس اپنی ہی فکشنی ترجمانی کے لیے زبان نہیں ہے۔

منیشا نے کشمیر کی صورتِ حال پر چند چشم کشا باتیں کیں۔ یہ کہ کشمیر میں بدامنی کا کاروبار ہے۔ ہر کوئی بد امنی کے بازار میں اپنے دام کھرے کر رہا ہے۔ سپاہی، فوجی، فارسٹ آفیسر، آزادی کے لیے لڑنے والے/دہشت گرد۔ کوئی امن نہیں چاہتا۔سب کو قتل و غارت ، دنگافساد، \"HeidelbergBurgerkellar\"بم دھماکوں اور عورتوں کی عصمت دری سے فائدہ ہے۔ ایک فارسٹ آفیسر ہو کہ سینک (فوجی) سب کشمیر تعیناتی چاہتے ہیں۔ ایک کو جنگل کاٹنے، جانوروں کی کھالیں بیچنے کا بے بہا فائدہ ملتا ہے تو دوسرے کو اور طرح سے خاصے پیسے ملتے ہیں۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ کون کس کے ساتھ ہے! اس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ سارا جھگڑا پیسے کا ہے۔ مجھے اس ضمن میں دو باتیں خاص طور پر پریشان کرتی رہیں۔ ایک یہ کہ عام آدمی کہیں نہیں۔ ریاست، اس کے ادارے عام آدمی کے امن، خوش حالی کا دم بھرتے، مگر اصل میں اسے ایک پردہ بناتے ہیں اور پس پردہ محدو ذاتی/گروہی مفادات پورے کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اب ہر شے برائے فروخت ہے۔ سیاست، نظریہ، آئیڈیالوجی، امن، مذاکرات، دہشت گردی، جس کی جتنی بساط ہے، وہ اتنا کچھ بیچتا اور خریدتا ہے۔ دوسری یہ بات مجھے الجھاتی رہی کہ ایک مصنف کیا واقعی وہ کچھ لکھ سکتا یا لکھتا ہے، جسے وہ جانتا ہے؟ جو باتیں روز مرہ کی سچائیوں کے طور پر نجی یا محدود محفلوں میں کہی جاتی ہیں، انھیں لکھا کیوں نہیں جاتا؟ ایک مصنف ریاست کے خوف سے کس قدر آزاد ہو سکتا ہے! ریاست کے خوف سے آزاد ہو بھی جائے تو سماج کے ڈر سے کہاں تک آزاد ہو پاتا ہے!!

یہی باتیں سوچتے ، سو گیا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments