میری سانوری کلائی بالآخر مجھے نظر آئی


رات کو ایک گھر کی چھت کے نیچے سوتی تھی تو صبح کی آگائی مجھے دوسرے گھر میں لے آتی تھی۔ ناشتہ میں ایک گھر میں کرتی تھی تو رات کا کھانا میں دوسرے گھر میں کھاتی تھی۔ میرے اسکول کی فیس ایک گھر سے بھری جاتی تھی تو میری وین کا کرایہ دوسرے گھر سے۔

دو گھروں کی میں فرد ضرور تھی مگر دوست میرا ایک گھر کا ایک فرد بھی نہیں تھا۔ میں بس انا اور جنگ کا نتیجہ تھی؛ میرے ماں اور باپ کی علیحدگی کے بعد میں یوں کچھ دن ادھر تو کچھ دن ادھر بانٹ دی گئی تھی۔ دو گھروں کے دوروں پر مجھے کسی گھر کا ایک چھوٹا سا کمرہ بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔

اس جنگ کا ایک اور خوفناک و شرمناک باب تب کھلا جب ایک کھر سے دوسرے گھر کا میرے اوپر اخراجات میں ایک فرق نمایاں ہوا۔ میرے باپ نا میری اسکول کی اضافی فیس بھرنے کو تیار تھے اور نا میری ماں میرے دیگر اخراجات کی مانگ بھرنے کو تیار تھی۔ یہ جھگڑا بڑھتا گیا اور بالآخر مجھے ایک بار پھر اسی عدالت کے کمرے میں کھڑا کر دیا گیا جہاں عزتون کی نیلامی لگتی ہے اور جہاں میرے بٹوارے کا فیصلا ایک بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔

عام مقدمات میں، باپ بچے کی ماں پر گھٹیا گھٹیا الزامات لگا کر بچے کی تحویل لیتا ہے۔ اور بچے کی ماں، بچے کے باپ پر نا جانے کن کن الزامات سے مالا مال کر کے بچے کی تحویل اپنے نام کرنا چاہتی ہے۔ مگر یہاں کہانی الٹی تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے وکیلوں کو کیس جیتنے کے لئے نہیں بلکہ ہارنے کے لئے خریدا تھا۔

اب دونوں وکیل اپنا کیس ہارنے کے لئے دلائل پیش کر رہے تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے فرائض دینے میں مصروف تھے۔ میری ماں خود کمانے کے باوجود اور دوسرے شوہر سے کوئی بھی اولاد نا ہونے کے باوجود میرے اخراجات نا اٹھانے کے لئے اپنی ہی بیٹی پر، کھلے عدالت میں اپنے ہی شوہر کے نام سے منسوب کئی بار زیادتی کرنے کی کوشش کا الزام لگانے کا ڈرامہ رچا رہی تھی۔

میرے باپ کا وکیل میرے باپ کی جائز کمائی کو ناجائز قرار دے کر، گھر میں ہر روز کوئی نا کوئی تماشے کا نیچ ڈرامے کا جھوٹ بول کر اپنا کیس ہارنے پر تلا ہوا تھا۔ انا کی جنگ میں مجھے بانٹ دینے کے بعد، ایک بار پھر مجھے اس بھری عدالت میں اپنے ساتھ نا رکھنے پر انتہائی بری طرح لڑائی لڑی جا رہی تھی۔

ان دونوں نے اپنی مرضی سے شادی تو کر لی مگر جب بچے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو مجھ سے ایک بار بھی پوچھا کہ کیا میں ان دونوں کو اپنا والدین مانتی ہوں؟ تب تو خیر میں پیدا ہو گئی۔ اس کے بعد جب ان دونوں کا ایک دوسرے سے دل بھر گیا تب تو وہ مجھ سے پوچھ سکتے نا کہ بیٹا! تم کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟ مجھے بانٹنے کے بعد، ان کا دل جب مجھ سے بھی بھر گیا اور دونوں اپنی اپنی ایک نئی زندگی میں خوش اور مگن تھے تو بھی مجھ سے پوچھنے کے بجائے مجھے ایک دوسرے پر مسلط کرنے کا جال بچھایا جا رہا تھا۔

مگر اس بار میں نے ایسا نہیں ہونے دیا اور بھری عدالت میں خود کی فروخت مسترد کر دی۔ میں نے بالآخر اپنی مرضی سے ایک فیصلہ لیا۔ اپنی سانوری کلائی کو کاٹ کر اپنا روح کو محو پرواز کر دیا۔ اور دونوں کو اس حتمی جنگ میں فتح دلوائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).