حافظ سعید، کشمیر اور بھارتی میڈیا


\"ahmed-noor\"بھارتی سیاستدان انتخابات میں ووٹ بٹورنے کے لئے کشمیر اور پاکستان دشمنی کا سہارا لیتے ہیں، اور بھارتی میڈیا جب تک پاکستان کی مخالفت کا تڑکا نہ لگالے تو اس کی پکچر بھی مکمل نہیں ہوتی۔ تاہم اس مرتبہ صورتحال دلچسپ اس لئے ہے کہ موضوع تو اب بھی وہی یعنی کشمیر کو لے کر پاکستان دشمنی ہی ہے، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انڈین میڈیا اس معاملے پر آپس میں جنگ و جدل پر اتر آیا ہے۔

انڈین میڈیا دو واضح کیمپس میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف ٹائمز ناؤ جیسے ٹی۔ وی چینلز ہیں جن میں پائے جانے والے ارناب گوسوامی جیسے صحافی ہیں جو چاہتے ہیں کہ بھارت کل صبح ہی پاکستان پر حملہ کردے اورحق گوئی کرنے پر ان کے اپنے ہی پیشے کے لوگوں پر مقدمات درج کئے جائیں ۔ دوسری جانب این ڈی ٹی وی جیسے چینلز ہیں جن میں موجود برکھا دت جیسے لوگ ہیں جنہیں آزاد خیال صحافی تصور کیا جاتا ہے، جو کسی معاملے کا ہر زاویے سے جائزہ لیتے ہیں۔

\"barkha_dutt-520x3903\"

برکھا دت اور ارناب گوسوامی بھارتی صحافت کے بڑے نام ہیں جو کسی وقت اکٹھے این ڈی ٹی وی میں کام بھی کرتے رہے ہیں، لیکن دونوں کا انداز مختلف ہے۔ گوسوامی اپنے ٹی۔ وی پروگرام میں چیخ چلا کر اور بہتان بازی کر کے ریٹنگ حاصل کرنے کے رسیا ہیں ، جبکہ برکھا دت ان کے مقابلے میں 180 ڈگری کے فاصلے پر ہیں یعنی وہ دھیمے مزاج کی ہیں۔

واضح رہے کہ برکھا دت اور ارناب گوسوامی کی شہرت کا اصل آغاز کارگل جنگ سے ہوا۔ جب سے کشمیر میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ان دونوں کے درمیان ایک دفعہ پھرنظریاتی فرق واضح ہوگیا ہے۔

جیسے ہی جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی تشدد کی حالیہ لہرکے خلاف آواز اٹھانے والی معروف بھارتی صحافی برکھا دت کی تعریف کی،ارناب گو سوامی نے برکھا دت پر یہ کہہ کر حملہ کردیا کہ دیکھا میں نہیں کہتا تھا کہ کشمیریوں کے حمایتی بھارتی صحافی پاکستان دوست ہیں، لہذا حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کا ’ٹرائل‘ کرے۔ یعنی موصوف اپنے ٹی وی پروگرام میں صحافی ہونے کے باوجود واضح طور پر صحافت پر سینسر شپ لگانے کا مطالبہ کرتے رہے۔

\"hafiz-saeed\"

ایک پاکستانی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے حافظ سعید نے کہا تھا کہ ’جب میں کشمیر کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو ہندوستان اپنے مظالم اور دہشت گرد کارروائیاں چھپانے کے لیے مجھ پر الزام لگاتا ہے، لیکن وہاں برکھا دت جیسے اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔‘

ایک طرف حافظ سعید کا برکھا دت کے حوالے سے دیا گیا بیان تھا اور دوسری طرف کارگل جنگ کو ہوئے 16 سال مکمل ہوچکے تھے ۔ گوسوامی جی نے سوچا کہ موقع اچھا ہے اور منگل کی رات اپنے ٹی وی چینل پر بھارتی فورسز کے ہاتھوں پیلٹ گن کے ذریعے اندھے ہوجانے والے کشمیری بچوں اور عورتوں کی خبروں کو سامنے لانے والے بھارتی صحافیوں خصوصاً برکھا دت کے خلاف بھاشن دینا شروع کر دیا۔ حسب معمول ساتھ چند نام نہاد تجزیہ نگاروں کو بٹھا لیا تاکہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔ پروگرام کا نام رکھا ’Pro-Pakistan Doves‘ ۔

موصوف برکھا دت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’میڈیا کا یہ حلقہ جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کو بدنام کر رہا ہے۔ یہ لوگ کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے نام پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، یہاں انڈیا میں بیٹھ کر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں، وہ اصل انڈین میڈیا نہیں ہیں، وہ پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں، براہ راست یا بالواسطہ طور پر آئی ایس آئی کی حمایت کر رہے ہیں، اور حافظ سعید کی حمایت کر رہے ہیں۔ ‘انہوں کہا کہ ایسے صحافیوں کا ’ٹرائل ‘ ہونا چاہیے۔

برکھا دت نے اپنے فیس بک پیچ پر ارناب کو جواب دیتے ہوئے لکھا ’ٹائمز ناؤ میڈیا کی آواز دبانے اور صحافیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے، یہ آدمی صحافی ہے؟ مجھے شرم آتی ہے کہ ہمارا پیشہ ایک ہے۔ وہ پاکستان سے بات چیت کی وکالت کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن کشمیر میں بی جے پی اور پی ڈی پی کی حکومت کا ذکر نہیں کرتے جو پاکستان اور علیحدگی پسند حریت سے بات کرنے کی پابند ہے۔ ‘

برکھا دت نے مزید کہا کہ بھارت میں ان کی صحافتی برادری خاموش ہے لیکن وہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گی۔

اب سوال یہ ہے کہ بھارتی میڈیا کی جنگ میں کود کر حافظ صاحب کو کیا حاصل ہوا؟ باوجود اس کے کہ برکھا دت نے حافظ صاحب کی تعریف کا بہت منفی ردعمل دیا ہے اور انہیں ’دہشت گرد‘ سے لے کر پاکستان کے لئے ’باعث شرم‘ تک کہہ دیا ہے، لیکن ان کا کمال یہ ہے انہوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ انہوں نے بھارتی میڈیا میں موجود دھڑوں کی آپس میں دشمنی کی آگ کو ایسی ہوا دی ہے کہ یہ آگ اب اتنی جلدی بجھ نہیں پائے گی۔ اس جنگ میں اب دوسرے بھارتی صحافیوں نے بھی کود نا شروع کر دیا ہے، اور وہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا حکومتی پالیسیوں پر تنقیدکرنے والے صحافی غدار ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments