عقیدوں کی جنگ سے کلچر کے تصادم تک


حال ہی میں سوئٹزر لینڈ میں دو مسلم لڑکیوں کو شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لڑکیوں نے اسکول میں لڑکوں کی موجودگی میں سوئمنگ پول میں نہانے سے انکار دیا تھا۔ سوئمنگ کی یہ پریکٹس دراصل اسکول کے نصاب کا حصہ ہے۔ لڑکیوں کا موقف تھا کہ ان کا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نا محرم کے سامنے یا ساتھ سوئمنگ پول میں نہایا جائے۔ سوئس حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حرکت شہری بننے کی ضروریات کی خلاف ورزی ہے۔ لڑکیوں کے باپ کو اس بات پر 4000 فرانک جرمانہ کیا گیا کہ اس نے اپنی لڑکیوں کو اسکول میں لڑکوں کے ساتھ نہانے سے منع کر دیا تھا۔

دو مسلمان لڑکوں کو حکام نے اس وقت سوئیٹزر لینڈ کی شہریت دینے سے انکار کر دیا جب انھوں نے اپنی خاتون استاد سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ طالب علموں کا اپنے اساتذہ سے ہاتھ ملانا وہاں کے اسکولوں کی روایت ہے۔ ان لڑکوں کے باپ جو کہ وہاں کی مسجد کا امام ہے، کی نہ صرف شہریت کینسل کر دی گئی بلکہ 5000 فرانک جرمانہ بھی کیا گیا۔

چند روز قبل فرانس نے شوہر کو اس وجہ سے شہریت دینے سے انکار کر دیا کہ وہ اپنی بیوی کو نقاب لینے اور پردہ کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جب کہ فرانس کے قوانین کے مطابق بیوی کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے بر عکس فرانس کے ایک کوشر گروسری سٹور میں کام کرنے والے مسلمان لڑکے کو اس وجہ سے شہریت دے دی گئی تھی کیونکہ اس نے چارلی ہیبڈو کے واقعے کے دوران اس دکان میں موجود لوگوں کی جانیں بچائی تھیں۔ لیکن اس حملے کے فوراََ بعد فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ جہادیوں کو فرانس کی شہریت سے بے دخل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں امریکہ اور برطانیہ میں بھی جس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں اس سے یہی نظر آتا ہے کہ یہ قومیں بھی جلد اپنی شہریت اور قومیت دینے کے قوانین میں تبدیلی لے آئیں گی۔

کیا گوروں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں؟ کیا اسلامو فوبیا نے یورپ کو دیوار سے لگا دیا ہے؟ کیا اب وہ بھی تیار ہیں ہمیں دیوار سے لگانے کے لیے؟ کیا ہم تیار ہیں دیوار سے لگنے کے لئے؟

ان کا اعلان ہے کہ اگر تم ہماری تہذیب اور ثقافت کو رد کرو گے تو ہم بھی تمھیں رد کر تے ہیں۔ مسلمان کئی عشروں سے ان ممالک میں چین و سکون کی وہ زندگی گزار رہے تھے جہاں عقیدے کی بنا پر تفریق نہیں تھی اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ لیکن حال ہی میں ہونے والے واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، پیرس، اٹلی جو کبھی مذہبی رواداری کی علامت تھے اب عقیدے اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے تصادم سے مبرا نہیں رہے۔

ان ممالک نے واشگاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ہمارے ملک میں رہنے کے لئے ہماری تہذیب، ثقافت، کلچر، آرٹس، کو اپنانا اور قوانین کی پیروی کرنا لازمی ہے چاہے یہ قانون استاد سے ہاتھ ملانا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہاں پر رہنے والی قومیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں نے اپنے آپ کو وہاں کے کلچر اور ثقافتی اقدار میں مدغم نہ کیا تو شاید ان کو اپنے ملکوں کی جانب لوٹ جانا پڑے۔ یہ وہی قومیں ہیں جو دن رات اپنے خلاف ہمارے مغلظات سننے کے باوجود ہمیں سر چھپانے کو گھر فراہم کرتی تھیں۔ جہاں کے پارکوں کو ہم اپنے بابا جی کی جائیداد سمجھ کر کتوں کا داخلہ منع ہے کا بورڈ لگا دیتے تھے۔ جیسے جیسے جہادی حملے مغرب کو اپنی گر فت میں لے رہے ہیں ویسے ویسے مغرب اپنی اقدار اور قوانین میں تبدیلی لا رہا ہے۔

اوپر بیان کردہ واقعات کو پڑھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ گورے تو بڑے racist  یعنی نسل پرست ہو گئے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا تعصب کرنے کا ٹھیکہ صرف ہم نے لے رکھا ہے؟ کیا ان کے اس تعصب کی بنا پر ہم ویزوں کی قطار میں لگنا چھوڑ دیں گے؟ ان ممالک کی نیشنلٹی کے لئے ہم بھاگ کر قطار میں لگنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی ہمیں ان کے کلچر میں فحاشی نظر آنے لگتی ہے اور ان کے کتوں کی ناپاکی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ عورت سے ہاتھ ملانا بھی بہت برا لگتا ہے خواہ وہ استاد ہی کیوں نہ ہو۔ ان کو ریسسٹ کہنے سے پہلے ہمیں اپنے تعصب کو بھی ایک نظر دیکھ لینا چاہئیے کہ ہم اپنے ہی شہریوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

گارڈین میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کی کہانی شائع ہوئی ہے جس نے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کی ہے۔ یہ وہ ڈاکٹر ہے جس نے ایک آدرش وادی نوجوان کی طرح اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ میں رہائش پزیر ہونے سے انکار کر دیا اور پاکستان میں رہ کر ہموطنوں کی خدمت کو فوقیت دی۔ ایک رات نائٹ ڈیوٹی کے دوران ایک مریض کی حالت شدید خراب ہوگئی، جس کو فوری طور پر ڈائیلسس کی ضرورت تھی۔ مریض کی زندگی بچانے کی خاطر ڈاکٹر نے زکاۃ فنڈ کے کوٹے میں سے ادویات استعمال کر لیں یہ جانے بغیر کہ اس مریض کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا۔ اس مریض کی جان تو بچ گئی لیکن ڈاکٹر کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ نرس نے نہ صرف ڈاکٹر کو خوب جھاڑا بلکہ اس واقعے کی اطلاع ہسپتال کے حکام تک بھی پہنچا دی۔ نوجوان ڈاکٹر نے فوری طور پر اپنے پلے سے ادویات کی ادائیگی کر دی لیکن بات یہاں ختم نہ ہوئی۔ اس ہسپتال کو چلانے والی اسلامی این۔ جی۔ او نے محکمانہ کارروائی کا حکم دیا۔ ڈاکٹر پر ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر اسلامی تعلیمات سے واقفیت نہ ہونے کے الزامات لگائے گئے۔ ڈرایا دھمکایا گیا یہاں تک کہ جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔ بلآخر یہ نوجوان ڈاکٹر امریکہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔

کیا یہ واقعہ ہمارے اندر پلنے والے زہریلے تعصب کی کھلی دلیل نہیں؟ یہ ہی کیا ایسے لاتعداد واقعات سب کی یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔ کبھی کسی عمر رسیدہ ہندو کو روزے کے دوران کھاتے دیکھ کر ہماری غیرت جاگ اٹھتی ہے اور ہم اسے لہو لہان کر دیتے ہیں۔ تو پھر گوروں کے متعصب ہو جانے پر اتنا تعجب کیوں؟ بغداد سے لے کر یمن تک، فرانس سے لے کر جرمنی تک، شام اور پاکستان میں جو خون بہہ رہا ہے اس کی بنیاد مذہب کی تفریق ہے۔ ابھی تک یورپ، امریکہ برطانیہ دنیا کے ایسے گوشے تھے جہاں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی تھی۔ لیکن اس گلوبل ویلیج نے ان کی انصاف اور مذہبی رواداری کی خوبیوں کو برے طریقے سے متاثر کیا ہے۔ اب انھوں نے بھی مذہبی اختلاف کی بنا پر ہم سے نفرت کرنا سیکھ لیا ہے۔

تہذیبوں کا یہ تصادم ہمیں کس جہنم کی طرف دھکیل رہا ہے؟ مذہب کی بنیاد پر پلنے والی یہ نفرتیں کیا گل کھلائیں گی؟ اس کی کسے پرواہ؟ پہلے یہ گولہ زر، زن اور زمین کے گرد گھومتا تھا۔ اب یہ گلوبل ویلیج ذات پات، فرقے اور عقیدے کی آگ میں بھسم ہو رہا ہے۔ کچھ بھی ہو اور کوئی بھی ہو، ہر وہ انسان دہشت گرد ہے جو کسی دوسرے انسان سے فقط تہذیبی اختلاف یا مذہبی تفاوت کی بنیاد پر نفرت کرتا ہو۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments