عورت مارچ کے اثرات


فی زمانہ کوئی بھی عمل جب کسی خاص مقصد کے تحت کیا جائے تو جلد یا بدیر اس کے منفی اور مثبت ہر دو طرح کے اثرات سامنے آتے ہی ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ منفی اثرات فوری طور پر سامنے آ جاتے ہیں اور مثبت وقت لیتے ہیں۔

اسی طرح آٹھ مارچ کے خواتین مارچ پر فوری منفی اور مشتعل ردعمل کے بعد اب تبدیلی کی ایک خوشگوار لہر سامنے آئی ہے جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ اس مارچ میں منفی کے ساتھ کئی مثبت پہلو بھی تھے جو فوری طور پر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے لیکن اب بہت حد تک سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں بہت سارے معاملات میں عورتوں کے اندر وہ جرات جو پہلے عنقا تھی اب واضح دکھائی دے رہی ہے۔

اب ان میں یہ حوصلہ پیدا ہوا ہے کہ اگر وہ اپنے ساتھ کچھ غلط ہونے پر اس یقین کے ساتھ آواز اٹھا سکیں کہ ہمیشہ کی طرح الٹا انہیں ہی غلط نہیں کہا جائے گا، انہی پر الزام تراشی نہیں کی جائے گی کہ چونکہ وہ باہر نکلیں، انہوں نے شرعی پردہ نہیں کیا یا انہوں نے سوشل میڈیا استعمال کِیا اس لیے نتیجتاً انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ اب ان کی بات کو سنا اور سمجھا بھی جائے گا اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مناسب اقدام بھی کئے جائیں گے۔

تبدیلی کی یہ فضا سوشل میڈیا پہ زیادہ نمایاں ہے کیونکہ اس مارچ کی زیادہ تشہیر بھی سوشل میڈیا پر ہی کی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں معاشرے کے معتبر ، مذہبی یہاں تک کہ لبرل طبقے کی ذہنی غلاظت، پسماندگی اور دوہرے معیارات بھی یہیں کھل کر سامنے آئے لیکن یہ بھی ہوا کہ سوشل میڈیا پر موجود بے شمار خواتین جو فضول قسم کے ان باکس اور کمنٹس کی شکایت پر بلاک کر دو نا، ان فرینڈ کر دو نا، اپنے سٹیٹس پہ پرائیویسی کیوں نہیں لگا لیتی یا تمہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے وغیرہ جیسے مشورے سنتی تھیں انہی میں سے کچھ خواتین نے جرات کا مظاہرہ کیا اور فضول ان باکس کرنے والوں کے میسجز کے باقاعدہ سکرین شاٹ بنا کر اپنی اپنی ٹائم لائن پر آویزاں کیے تاکہ دیگر انباکس مصلح، حکما، اساتذہ، مشیر، مبلغ، ہمدرد اور مہربان ان سے عبرت پکڑیں اور اپنی اپنی خدمات کی پوٹلیاں خود ہی سمیٹ کر پتلی گلی سے نکل لیں، اس سے پہلے کہ ان کی یہ پوٹلیاں سرِعام کھولی جائیں اور ان میں بھری DPs اور دیگر مواد کو دیکھ کر یہ منہ چھپاتے پھریں۔

پاکستان فلم انڈسٹری اور ٹی وی کی معروف اداکارہ سونیا خان نے بھی اس کاز میں حصہ لیا اور پہلے باقاعدہ ویڈیو پوسٹ کے ذریعے انباکس آرمی کو بلا اشتعال فائرنگ سے باز رہنے کی وارننگ دی لیکن اس کا خاطر خواہ اثر نہ ہوا تو پھر انہوں نے ان باکس کے سکرین شاٹ اپنی ٹائم لائن پر آویزاں کیے جس پر خوب سراہا گیا۔

 پھر ہماری ایک اور دوست جو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں انہوں نے بھی اسی جرات کا مظاہرہ کیا اور ایک محترم جو نہ صرف ایک بڑے شاعر کے صاحبزادے اور خود بھی شاعر ہیں بلکہ فوجی جوان بھی ہیں، ان کے فرمودات بلکہ معالجانہ صلاحیتوں کے ثبوت سکرین شاٹس کی صورت میں سامنے لے کر آئیں۔

کئی لوگوں نے ان پوسٹس پر اعتراضات بھی اٹھائے اور پوسٹ ہٹانے کے لیے بھی کہا، غصہ تھوکنے اور دل صاف کرنے کے مشورے بھی دیے لیکن میرا خیال ہے کہ اب دل نہیں دماغ صاف کرنے کا وقت ہے۔ دماغوں میں بھرے گند چھپاتے چھپاتے اب مسئلہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ اس تعفن زدہ فضا میں سانس لینا دشوار ہوا جا رہا ہے۔ اس لیے اب اس گند کو چھپانے نہیں بلکہ صاف کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے وقت اور ماحول دونوں سازگار ہیں بس ضرورت ہے تو ذرا سی جرات کی اور عورت کی اپنی ہم جنس سے عناد کم کرنے کی۔

سوشل میڈیا چونکہ بنیادی طور پر ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے جس پر ہم نہ صرف اپنی معلومات شیئر کر سکتے ہیں اور دوسروں کی معلومات سے استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ گھر بیٹھے دنیا بھر میں نئے نئے لوگوں سے مل سکتے ہیں، نئی نئی تہذیبوں سے روشناس ہو سکتے ہیں، دوست بنا سکتے ہیں، اس لیے اس کے استعمال کا ہر کسی کو برابر حق ہے۔ دیکھا جائے تو سوشل میڈیا استعمال میں آسان سستا اور تیز ہونے کی وجہ سے ہماری زندگیوں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔

پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا نے حیران کن رفتار میں عام انسان کی زندگی میں اپنے لیے جگہ بنائی ہے اور اس کی اہمیت اور استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر اٹھنے والی آوازوں کو دنیا بھر کی حکومتیں، اشرافیہ، انتظامیہ حتٰی کہ عدلیہ تک اہمیت دینے پر مجبور ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ہمارے ہاں اس کے معاملے میں بھی وہی مخصوص وطیرہ، وہی گھسی پٹی صنفی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش جاری ہے کہ رستے پہ کسی نے بدتمیزی کر دی تو گھر بیٹھ جاؤ، دفتر میں کسی کا نامناسب رویہ سامنے آیا تو نوکری چھوڑ دو، لڑکوں کو سکول، کالج، یونیورسٹی کے ساتھ تفریحی سرگرمیوں میں دوسرے شہروں تک جانے دیا جائے اور لڑکیوں کو باندھ کے رکھو کیونکہ ماحول اچھا نہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا استعمال کرنا مردوں کے لیے تفریح اور لڑکیوں کے لیے وقت کا زیاں بلکہ خودسری اور آوارگی کے زمرے میں آتا ہے۔

لیکن اب یہ سب ختم ہونا چاہیے اب یہ سمجھنے کی اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ سوشل میڈیا ہو یا دیگر مراعات ان سے استفادہ کا خواتین کو بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کو۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).