ہم یوم جمہوریہ کب منائیں گے؟


ہم اتحاد کی روح کی دعاکرتے ہیں، کہ ہم اپنے تمام مسائل اچھے طریقے سے بات چیت سے حل کر سکیں۔

ہم (مملکت) کے تمام معاملات کی عکاسی تلخی کے بغیرکر سکیں۔

ہم (مملکت) کے تمام وسائل، تمام حصہ داروں میں برابری سے تقسیم کرسکیں۔

کہ ہم اپنا حصہ عاجزی سے وصول کریں

رگ ویدا کے یہ وہ الفاظ ہیں جو قبل مسیح میں عوامی جمہوری اجتماعات سے پہلے گائے جاتے تھے۔

ہندوستان کی تقسیم کا اعلان جون 1947 میں ہوا جس کے تحت پاکستان اور انڈیا دو علیحدہ ریاستیں تشکیل دی گئیں۔ دونوں میں ا ینڈین ایکٹ 1935 کے قانونی ڈھانچہ میں تبدیلیاں کر کے حکومتوں کا قیام ہوا۔ پاکستان میں پہلی اسمبلی کو آئین سازی کی ذمہ داری دی گئی۔ جس کا پہلا اجلاس 10 اگست 1947 کو ہوا۔ یہ اسمبلی اپنا کام آٹھ سال میں مکمل کر سکی اور پہلے آئین کا حتمی مسودہ 1954 میں مکمل ہوا۔ لیکن جونہی اس کو منظوری کے لئے پیش کیا جانے لگا گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر میں اسمبلی توڑ دی۔

دوسری آئین ساز اسمبلی کا قیام مئی 1955 میں ہوا۔ یہ اسمبلی اپنا ہدف 1956 میں حاصل کر سکی اور پہلا آئین فروری میں منظور کرنے میں کامیاب ہوسکی۔ اس آئین میں پارلیمانی نظام کی منظوری دی گئی جس میں تمام انتظامی اختیارات وزیراعظم کے ہاتھ میں دیے گئے اور صدر کو مملکت کا سربراہ قرار دیا گیا۔ 23 مارچ کو (جس دن 1940 میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی) اس آئین کو پاکستان میں لاگو کیا گیا۔ اس دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا گیا۔ اس دن ملک برطانوی ڈومین سے نکل کراسلامی جمہوریہ پاکستان بنا۔ غلامی کی علامت گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوا اور پہلے صدر سکندر مرزا نے حلف اٹھایا۔ اس طرح پاکستان کو اپنا نام اور آئین معرض وجود میں آنے کے نو سال بعد ملا۔

انڈیا میں بھی آئین ساز اسمبلی بنائی گئی۔ اس اسمبلی نے نومبر 1949 کو اپنا کام مکمل کیا اور ہندوستان نے 1950 میں 26 جنوری (جس دن 1930 میں انڈین نیشنل کانگریس اپنے اجلاس منعقدہ حضوری باغ لاہور، پورنا سوراج ”مکمل آزادی“ کی قرارداد منظور کر چکی تھی) کو اپنا آئین لاگو کرکے اس دن کو یوم جمہوریہ قرار دیا۔ اس آئین کے تحت ہندوستان میں پہلے الیکشن 1951۔ 52 میں کرواے گئے۔

راما چندرا گوہا ا نڈیا کے پہلے الیکشن کو جمہوریت کی تاریخ کا سب سے بڑا جوا کہتے ہیں۔ ”وزیر اعظم جواہر لال نہرو جلد از جلد الیکشن کروانا چاہتے تھے کیونکہ ہندوستان کے عوام کا برطانوی راج پہ سب سے بڑا اعتراض جمہوری حقوق کی عدم فراہمی تھا۔ یورپی سامراجی طاقتوں کا پکا خیال تھا کہ خود مختار حکومت غیریورپی اقوام کے لئے مناسب نہیں۔ ایشیأ کے باشندوں کے لئے تو کارل مارکس اور ہیگل کی تحریروں میں بھی Oriental Despotism کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ یعنی وہ خصوصی طور پر مطلق العنان حکومتوں کو پسند کرتے ہیں۔

بالغ راے دہی کی بنیاد پر ہونے والے ان الیکشن میں ایک اور بڑا مسئلہ غربت اور جہالت تھی۔ 85 فی صد ہندوستانی اس وقت ان پڑھ تھے۔ ”لیکن یہ الیکشن انتہائی کامیاب رہے۔ نہروایک خط میں لیڈی مونٹ بیٹن کو نو ہفتے لمبی الیکشن مہم کے بارے بتاتے ہیں :“ جب میں ادھر ادھر جاتا ہوں تو میں ماضی اور حال کو ملتے ہوے دیکھتا ہوں اور یہ ملاپ مجھے مستقبل کا سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ”اور یہ جوا اتنا کامیاب ہوا کہ آج (مستقبل) کا ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی دار ہے۔

اس کے بر عکس پاکستان میں آزادی کے گیارہ سال بعد 1958 میں جب نے آئین کے تحت پہلے الیکشن کا وقت قریب آیا تو صدر سکندر مرزا نے 7 اکتوبر کو آئین معطل کرکے مارشل لاء لگا دیا۔ پاکستان کا پہلا آیئن صرف دو سال ہی چلنے دیا گیا اور 1958 میں ایوب خاں کے ماشل لاء نے اس کو منسوخ کرتے ہی یوم جمہوریہ کا نام یوم قرارداد پاکستان رکھ دیا۔

قائد اعظم پاکستان کو کیا بنانا چاہتے تھے؟ وہ اس ملک میں کیسی حکومت چاہتے تھے؟

قائد اعظم کے نظریات کا اندازہ ان کی تقریروں اور بیانات سے چلایا جا سکتا ہے 1946 میں رائٹر کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان کو ایک ایسی جدید جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں حاکمیت عوام کی ہوگی۔ دسمبر 46 میں لندن میں فرمایا: ”جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے، جو کل انسانیت کی برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ “ 22 مئی 48 کے دن ڈھاکہ ریڈیو پر خطاب کرتے ہوے واضح کیا: ”عوام کوپوری آزادی ہے کہ وہ آئینی طریقہ سے کسی بھی حکومت کو منتخب کریں۔ لیکن اس کا ہر گز یہ بھی مطلب نہیں کہ کوئی گروہ غیر قانونی طریقہ سے منتخب حکومت پر اپنی مرضی تھوپ دے۔ حکومت اور اس کی پالیسی منتخب نمائندوں کے ووٹ سے ہی بدلی جا سکتی ہے۔ “

ؑعلامہ اقبال اپنے خطبہ ”تجدید فکریات اسلام“، میں لکھتے ہیں : ”اجماع اسلامی قانون کا تیسرا ماخذ ہے جو کہ میری نظر میں اسلام کا سب سے زیادہ بنیادی قانونی نظریہ ہے۔ خلفأراشدین کے دو رمیں مشاورت کا نظام موجود تھا۔ مطلق العنان ملوکیت کے حامل اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں اجتہاد کے اختیار کو انفرادی طور پر رکھا گیاتاکہ وہ کسی مستقل اسمبلی میں ڈھل کران سے زیادہ طاقتور نہ ہوجاے۔ اب مسلم ممالک میں جمہوری روح کے پروان چڑھنے اور قانون ساز اسمبلیوں کی تشکیل سے سیاسی سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اجماع کے اختیار کا ان اسمبلیوں کو منتقلی ہی وہ واحد صورت ہے جو عصر حاضر میں ممکن ہے۔ اس سے عام آدمی کا قانونی مباحث میں حصہ لینے کا حق بھی محفوظ ہوگا۔ “ اس سے واضح ہوتا ہے ان کے نزدیک عہد حاضر میں اجماع کی صحیح ترین صورت عوامی نمائندوں کی مجلس ہے۔ اس مجلس کا چناؤ صرف الیکشن سے ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں الیکشن کروانے اور آئین سازی میں کوئی بھی سنجیدہ نہ تھا۔

آزادی کے دو سال بعدہی قومی سیاست کی بے رحمانہ، ناجائزاور مکارانہ چالوں کی وجہ سے مملکت کی اصل طاقت سنئیر سول سرونٹس اور فوجی جنرلوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد توسیاسی طاقت اور حکومت سیاستدانوں کے پاس بالکل نہ رہی اوراسے جنرلوں اور بیوروکریٹس نے ان سے مکمل طور پرچھین لیا۔ 1954 میں آئین ساز اسمبلی کو فوج کے کمانڈر انچیف ایوب خاں کی پشت پناہی اور مرضی سے تحلیل کیا گیا۔ اس استبدادی حکم سے عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے نام پرچشم پوشی کی اور اسے  جائز قرار دیا۔ عبدالستار غزالی، Islamic Pakistan، Illusions & Reality میں لکھتے ہیں : ”جو سیاسی کام راولپنڈی سازش کیس کے بعد متاثر ہونا شروع ہوا تھاوہ 1958 میں ایوب خاں کے حکومت پر ناجائز قبضہ کے بعد مکمل طور پر رک گیا۔ 1971 کی شرمندگی کے بعد فوج کی بیرکوں میں واپسی اس کی چال تھی اور وہ جولائی 1977 میں جنرل ضیأ الحق کے حکومت پر قبضہ سے دوبارہ آمریت کی شکل میں نموددار ہوئی اور اس کے بعد سے اب تک کسی نہ کسی شکل میں اس کی مداخلت جاری ہے۔ ”عوام کا مکمل حکمرانی کا خواب جو ان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دکھایا تھا کب پورا ہوگا؟ کب پارلیمانی جمہوریت مکمل اختیارات کے ساتھ بحال ہوگی؟

آئین میں ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اسلامی دن بہت سے منائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے دن، یوم آزادی اور یوم پاکستان بھی۔ لیکن جمہور کو ایک دن کب ملے گا؟ کب یوم جمہوریہ بھی منایا جاے گا؟ یوم جمہوریہ، جس پر ہندوستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک فخر کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).