موہن جو ڈیرو کی بیٹیوں کے لئے بلاول نہ اٹھا تو ہم لڑیں گے!


روح کا لرزنا کسے کہتے ہیں اس کا حساس ابھی مجھے بخوبی ہوا ہے! 23 مارچ کے دن جب قراردادِ پاکیستان پیش ہوئی تو ایک تاریخی معاہدہ ہوا اور یہ معاہدہ ایک ریاست میں رہنے والی قوموں سے تھا کہ پاکستان میں رہنے والی قومیں اپنی مکمل شناخت کو برقرار رکھتے ہوے اکٹھی رہیں گی۔ ایک ایسی آزاد ریاست کا خواب تھا جس میں بسنے والے لوگ اپنے مذہبی عقیدوں میں آزاد ہوں گے۔ لیکن 23 مارچ کے دن، میں نے سندھ کے شہرگھوٹکی میں ایک باپ جو مکمل طور پر دیوانہ ہوچکا ہے اسے سر پیٹتے ہوے دیکھا۔

پھٹے کپڑے، مٹی سے بھرا ہوا جسم ایک کسمپرسی کی حالت میں زارو قطار روتا ہوا بیکس باپ جس کی زبان پر انصاف کی التجا اور کہے جا رہا ہے، میں صبر کروں گا اور اس سڑک پر بیٹھا رہوں گا مجھے قتل کردو، لیکن میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ کیوں کہ اس دیوانے باپ کی کم عمر دو بچیاں ہولی کے تہوار کے موقعے پر جبری طور پر اغوا کی گئیں اور پھر زبردستی ان کا مذہب تبدیل کروایا گا۔ دوسری جانب پھر سوشل میڈیا پہ ایک پریس کانفرنس کی کچھ تصاویر بھی چلائی جارہی ہیں۔

جس میں یہ لڑکیاں دکھائی گئی ہیں کوئی بھی شعوریافتہ ذی روح ان تصاویر کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ انہوں نے کس قدر جبر کا سامنا کیا ہوگا۔ آخریہ کون سے اسلام کی خدمت ہورہی ہے، میرا دین تو بالکل بھی ظلم اور جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں تو یہ درس ملا تھا کہ دین میں کوئی جبر نہیں! کسی دور میں یہ باتیں ہمارے نصاب کا بھی شاید حصہ تھیں۔ جبر کی نہ مذہب اجازت دیتا ہے نہ قانون پھر یہ لوگ ہیں کون جو ہر چیز سے بالاتر ہیں جو چاہیں وہ کرلیں۔

کیوں کہ ہم تو اس تاریک سیاہ چادرکے تلے اپنی تاریخ مانتے ہیں جھوٹ پر مبنی تاریخ اپنے نسلوں کو پڑھا کر ان کے معصوم ذہنوں میں انتہا پسندی کی دھول بھردی گئی ہے۔ کوئی بات نہیں بھلے وہ اٌٹھ کر استاد محترم کا گلا کاٹ دیں۔ یہ ایسی بڑی بات نہیں ہے ہمارے لئے!

پھر ایک طرف ہمارے بلاول بھٹو زرداری ہیں جو ہولی اور دیوالی اور کرسمس جیسے تہوار بڑے شوق سے منانے جاتے ہیں۔ بلاول مذہبی انتہا پسند پر کھل کر میڈیا پر باتیں کرتے ہیں۔ مگر سندھ تک ان کی نگاہِ کرم نہیں پہنچتی اور پہنچے بھی کیوں سندھ تو شاید ایتھوپیا میں واقع ہے۔ سندھ بلاول کو آباؤاجداد کی طرف سے تھالی میں سجاکر پیش کیا گیا ہے تاکہ آپ حکومت کرسکیں، سندھ کے باسیوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں وہاں بسنے والے کس کرب سے گزر رے ہیں ان کی پرواہ کس کو ہے۔

میاں مٹھو جیسے مجرمانہ کردار رکھنے والے لوگ سندھ اور پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کی دسترس میں پلتے ہیں۔ سندھ کے اندر ایک خاص ریاست قائم کی گئی ہے جس کو جاگیردارون کی پشت پناہی حاصل ہے اور انہوں نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت سندھ میں ہندو برادری کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ یہ شیشے کی طرح صاف نظر آتا ہے کہ اس ایجنڈا کو کیوں فروغ دیا جارہا ہے۔ اس مسئلے میں پیپلز پارٹی کا کردار بالکل ایسا ہے جیسا ایک کمزور عورت کا ہے جس کے پاس اختیارات تو ہوں پر ان کو استعمال کرنے کا اختیار نہ ہو۔ یہاں پر قانون بھی خاموش تماشائی دکھائی دیتا ہے جو باقی معاملات میں تو سوموٹو ایک جھٹکے سے لے آئے گا پر کسی انسانی زندگی کو بچانے کے لئے نہیں۔

لیکن اب یہ بات بحیثیت سندھی قوم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ مسئلہ سندھ کی بیٹیوں کی عزت اور تشخص کا ہے۔ جو ظلم ہو رہا ہے وہ سندھیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ روش سندھی سماج کی کبھی بھی نہیں تھی کہ مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جائے، اور نہ ہی کبھی ہوگی۔

اگرچہ بلاول بھٹو صاحب آج بھی آپ نے سندھ کی طرف نہیں دیکھا اور ان نہتی موہن جودڑو کی بچییوں کی چیخ و پکار نہ سنی، اور سندھ کو مذہبی انتہا پسندوں کے حوالے کیے رکھا تو پھر سندھ اپنا تاریخی مزاحمتی کردار اپنائے گا! اب سندھی سول سوسائٹی ہی واحد امید کی کرن ہے جو ان ظالمانہ عناصر کے خلاف مضبوطی سے کھڑی ہو سکتی ہے۔ باقی بلاول صاحب تہوار منانا ایک رسمی یکجہتی دکھانے سے زیادہ اہم ہے کہ اپنی بیٹیوں کی لاج رکھی جائے۔ بالکل ایسے جیسے ابھی حال ہی میں جیسنڈا آرڈن نے رکھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).