مفتی تقی عثمانی صاحب پر حملہ اور ہماری کراچی پالیسی


یقین تقریبا غیر متزلزل ہونے والا تھا کہ کراچی کی روشنیاں بحال ہو چکی۔ اس کا امن پھر سے لوٹ آیا ہے۔ ان شاءاللہ وہ دن بھی دور نہیں جب کسی کو کسی سے ڈر یا کوئی خوف اور کھٹکا، پہلے کی طرح نہیں رہے گا۔ کراچی بالکل ستر کی دہائی سے قبل کی اپنی اصل شکل میں واپس آ جائے گا اور اس کے چہرے پر مسلط بدامنی کا مکروہ ماسک اترنے والا ہے۔ ہماری نسل کی آنکھیں بھی کراچی کا وہ اصل چہرہ بچشم خود دیکھیں گی جس کے متعلق صرف کتابوں میں پڑھتے ہیں، اس شہر کے باسیوں کے دکھ درد بھی سانجھے تھے۔

یہاں کے مکیں کسی وقت ایک دوسرے کا نا صرف کماحقہ احترام کرتے تھے بلکہ غمی خوشی میں دوسروں کے کام آنا یہاں بھی دیہات کی طرح فرض تصور کیا جاتا تھا۔ یہ بھی سنا کہ دن بھر کی جاں توڑ مشقت کے بعد تھکے ہارے مزدور فٹ پاتھ پر بلا خوف اور بے جھجک سویا کرتے تھے۔ اس شہر کو پھر نجانے کس کی بد نظر لگ گئی اور چار دہائیوں تک اس پر خون آشام آسیب مسلط رہا۔ جس کے قدموں میں روزانہ بلا ناغہ درجن سے زائد زندگیوں کی بلی چڑھتی رہی۔

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں قتل و غارت کی خبر کانوں تک نہ پہنچتی ہو۔ اس دورانیے میں انسانی جانیں سیاسی بنیادوں پر بھی بے دریغ ضائع ہوئیں اور لسانی، مذہبی حتی کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر بھی۔ کئی بار شہر کو عفریت کے پنجہ مکروہ سے چھڑانے کے لیے فوج اور سویلین اداروں کے باہمی تعاون سے کئی آپریشن بھی ہوئے۔ نتیجہ مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔ یعنی سگ مقید سنگ کے ڈر تک ہی رہے۔ جیسے ہی آپریشن کا سامان لپٹا، بد امنی اور وارداتیں دوبارہ سے شروع ہو جاتیں۔

حالیہ آپریشن پہلا تھا، جس کے بعد بد امنی کا سرطان جڑ سے نکلنے کا یقین ہو چلا تھا۔ اس یقین کی بنیاد یہ ہرگز نہیں کہ پی ایس ایل کے چند میچز یہاں کامیابی سے منعقد ہوئے، کیونکہ اس قدر سکیورٹی اور اسٹیڈیم کو قلعہ نما بنا کر شام و افغانستان میں بھی کرکٹ کھلائی جا سکتی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں نمایاں کمی ہونا تھا۔ مزید یہ بھی کہ آج سے تین چار سال قبل تک کوئی عزیز آباد اور لیاری کی طرف بلا خوف خطر اور روک ٹوک آنے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

(دو ہزار تیرہ کی بات ہے لیاری میں ایک جگہ ناکے پر روکا گیا اور اچھی طرح تسلی تشفی کے بعد کہ درویش کسی کا ”مخبر“ نہیں روانگی کی اجازت ملی) ۔ یہ وہی دن تھے جب شہر قائد میں ہر ڈھلتے سورج کے ساتھ کم از کم درجن بھر لاشیں گرنے کی خبر ضرور ملتی تھی۔ لیکن اس آپریشن کے بعد کچھ عرصہ مکمل سکون رہا، اسٹریٹ کرائم کی شرح بہت گھٹ گئی۔ نو گو ایریاز اور ٹارگٹ کلنگ کا نام بھی لوگ بھولنا شروع ہو گئے۔

اس کا کریڈٹ پچھلی حکومت کو نہ دینا بد دیانتی ہو گی۔ اس حکومت نے اپنی طرف سے اس آپریشن کو کامیاب کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ یہاں تک کہ دھرنے میں ساتھ دینی والی پیپلز پارٹی کو بھی ناراض کیا تاکہ سکیورٹی اداروں کو ملک کے معاشی مرکز کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کچھ تردد نہ ہو۔ لیکن نہ جانے کن مصلحتوں کے تحت اس وقت ایک لسانی دہشت گرد جماعت کے ملزمان کو ہشکارا دے کر ایک نئی سمت دھکیلا جاتا رہا اور جو مجرم، چاہے اس کے کندھوں پر سو قتل کا الزام تھا تابعداری سے بتائے گئے راستے پر بلا چوں چراں چلنے پر تیار ہوا اسے معصوم عن الخطا قرار دے کر کلین چٹ دے دی گئی۔

بہت سے دور اندیش دہائیاں دیتے رہ گئے کہ ایک مخصوص چھتر چھایا تلے آنے والے ان خطرناک مجرموں کو یوں کھلا چھوڑ دینا بہت خطرناک عمل ہے اور اس کے سنگین اثرات ہوں گے۔ کسی نے نہ سوچا جو لوگ ماضی میں ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار رہے تھے اور دشمن ملک سے ٹریننگ لے کر آئے تھے انہیں سیاسی قبلہ تبدیل کرنے پر چھوڑ دیا، یہ عمل آپریشن کی تمام محنت اور خلوص پر پانی پھیر دے گا۔

جمع کے روز کراچی میں ممتاز عالم دین مفتی تقی صاحب کی گاڑی پر فائرنگ سے نہ صرف یہ خدشات حقیقت میں بدلے بلکہ کراچی کے امن پر پھر سے سوالیہ نشان بھی لگ گیا۔ حضرت سے متعلق سرسری علم رکھنے والا بھی جانتا ہے جناب انتہائی غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔ ان کی ذات تمام مسالک کے لیے قابل احترام ہے اور جناب کی زبان سے کسی دوسرے فرقہ سے متعلق نا مناسب فقرہ منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ جناب اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے نائب صدر بھی ہیں۔

گورنر سندھ کا ان پر حملے کے بارے ردعمل ہے کہ یہ غیر ملکی سازش ہے۔ ان کی اس بات کی صحت پر شبہ کی کوئی وجہ ہونی بھی نہیں چاہیے۔ دشمن ممالک ملک عزیز کو نقصان پہنچانے کی کھلم کھلا کوشش کر کے دیکھ ہی چکے۔ اس حسرت میں انہیں منہ کی کھانا پڑی، ایسے میں بزدل دشمنوں سے اس قسم کی کمینگی کی توقع خارج از امکان نہیں۔ ایک لمحے کے لیے ذرا تصور کریں۔ خاکم بدہن اگر حضرت صاحب کو گزند پہنچ جاتی تو ملک کی کیا صورتحال ہونا تھی؟

کیا ایک مرتبہ پھر فرقہ ورانہ فساد نہیں برپا ہو سکتے تھے۔ یہ درست، اس واردات میں بیرونی شر پسند سوچ ضرور شامل ہو گی۔ لیکن اس مکروہ فعل کو انجام دینے والے مجرمان تو مقامی ہی ہوں گے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں جس انداز میں یہ واردات ہوئی اور جو اسلحہ اس میں استعمال ہوا کراچی کے بارے میں سطحی جانکاری رکھنے والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے یہ کس تنظیم کے دہشت گردوں کا طریقہ واردات ہے؟

اس واردات کے بعد جو بھی ملکی سلامتی کے ذمہ دار ہیں ان کے لیے ضروری ہے وہ سنجیدگی سے غور و خوض کریں کہ سیاسی منظر نامے کی بساط من پسند رکھنے کی خاطر مہرے بچانا اہم ہے یا ملکی امن۔ ملک کے اندر جو تنظیمیں آج تک پر امن رہی، اور جن کے ہاتھوں آج تک اپنی زمیں پر کوئی گملہ تک نہیں ٹوٹا۔ نہ ہی جن کی قیادت پر بیرونی ہاتھوں کھیلنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ راتوں رات وہ اس بنا پر کالعدم ہو سکتی ہیں کہ ان کے کسی اقدام سے ملک جنگ کے دہانے پہنچ سکتا ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ تنظیم اور اس کے کارندے جن کے دشمنوں سے روابط کے متعلق کوئی ابہام نہیں۔ ان کی آزادی اور انہیں برقرار رکھنا کس حکمت کا تقاضہ ہے۔ اس سوال کا جواب اصل مقتدر طاقتوں کے ذمہ قرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).