دسویں دن کا شیر اور پروفیسر خالد حمید


ایک دفعہ کا ذکر ہے کچھ شیروں کو جنگل سے پکڑ کر لایا گیا۔ سدھانے والے نے پہلے ہی دن، پُرسکون اور تحکم بھرے انداز میں لوگوں کو دکھایا کہ یہ مہان جانور جو جنگل کا شیر کہلاتا ہے، ذرا دیکھیے تو! کتنا خود سر جانور ہے۔ دیکھنے والوں نے پنجرے میں قید شیر کو غصے سے بپھرا دیکھا۔ سدھانے والے نے اُن سے محض دس دن مانگے۔ اُس نے ابتداء میں شیر کو بہت کچھ کھانے کو دیا۔ پھر ہر بار کھانا دینے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتا گیا۔

پہلی بار اُس نے شیر سے کہا تمہیں بس اتنا کرنا ہے جب میں کہوں رک جاؤ تو رُک جانا اور جب کہوں چل پڑو تو چل پڑنا۔ شیر نے اِسے معمولی سا کام جانا۔ ایسی چند مشقوں کے بعد چوتھے دن سدھانے والے نے شیر سے بلی جسیی آواز نکالنے کی فرمائش کی، شیر نے اسے بھی معمولی بات جانا۔ مفت کی تواضع، عزت اور خیال کے بدلے یہ سودا مہنگا نہ تھا۔ چھٹے دن اُس سے گدھے کی آواز نکالنے کی فرمائش کی گئی۔ جسے اُس نے تھوڑی حیل و حجت سے قبول کیا اور پھر اُس میں اُسے مہارت حاصل کرائی گئی۔

آٹھویں دن شیر کو تواضع کے بدلے، ہر اُلٹی سیدھی بات کے جواب میں، سر ہلانے اور تالیاں بجانے کی فرمائش کی گئی۔ معمولی سا کام تھا، سوتعمیل ہوئی۔ دسویں دن جب شیر سرکس کے تمام گُر سیکھ گیا تو اُس کا کھانا اور تواضع سب بند کر دی گئی اور اُس کے آگے گھاس ڈال کر، اُس سے اُس کا مرتبہ اور شناخت سب چھین لی گئی۔

صاحبو! یہ تو ’زکریا تامر‘ کی عربی کہانی ’دسویں دن کے شیر‘ کا خلاصہ تھا، جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح آہستہ آہستہ سدھانے سے شیر بھی اپنی شناخت کھو دیتا ہے تو پھریہ انسان ناچیز! بھلاکیا چیز ہوا؟

اِسے ہماری خوش قسمتی جانیے یا بد بختی پہ محمول کیجئے کہ بچپن سے اب تک ہمیں دو طرح کے اساتذہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا، پہلے وہ نیک بخت جنھوں نے ہمیں سدھانے میں کہیں کوئی کسر نہ چھوڑی، انھوں نے قدم قدم پہ ہمیں انگلی پکڑ کے چلایا، اپنی زبان سے ہمیں بولنا سکھایا، ہمیں دنیا دیکھنے کو خود اپنے خوشنما رنگین چشمے مستعار دیے اور چلنے کو اپنی قیمتی بیساکھیاں ہمارے ہاتھوں میں دان کر دیں۔ ان کی قیمتی آراء نے ہمارے باغی افکار و خیالات کی ایسی کانٹ چھانٹ کی کہ ہم نے ہمیشہ اپنی خوش بختی پہ ناز کیا اوراِس ناعقل اور کج فہم دنیا کو بھی اپنے تئیں سدھارنے کا بیڑ ا اٹھانا چاہا۔

پر کیا کیجئے کہ اس کارِ لائقہ کی تکمیل اِن دوسری قسم کے، عجب سر پھرے اساتذہ کی وجہ سے ممکن نہ ہو پائی، جنھوں نے ہم پہ ظلم یہ کیا کہ ہم سے وہ تمام رنگین چشمے اور بیساکھیاں چھین کر غضب کر ڈالیں جن پہ ہمیں بڑا ناز تھا۔ اِن نا عاقبت اندیش اساتذہ نے ہم پر بڑا ظلم کیا! انھوں نے ہمیں اِس بھانت بھانت کی دنیا کو اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھنے کو کہا اور اس کے تکلیف دہ نشیب و فراز پر، اپنے لڑکھڑاتے ڈگمگاتے قدموں سے خود چلنا سکھایا۔

انھوں نے ہمیں دوسروں کی آنکھ کے تنکے دیکھنے سے قبل اپنی آنکھوں کے شہتیر ماپنے سکھائے اورہمیں خدائی خدمت گار اور دوسروں سے باز پرس کرتے وقت، خود اپنی اصلاح اوراپنے آپ سے جواب طلبی سکھائی۔ کیسے ظالم اساتذہ تھے! ہم سے ہماری معصومیت چھین کر ہمیں خودشناسی کے ایسے مشکل موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں آگہی کے ایسے دُکھ ہیں جو روز ہماری روح کو رگیدتے ہیں اور دماغ کو فکری تازیانوں سے شل کرتے ہیں۔

آپ نے صادق ایجرٹن کالج کے طالب علم خطیب حسین کے چہرے کو غور سے دیکھا ہے؟ اُس پہ پھیلی معصومیت، اُس کے کاٹ دار سفاک لہجے سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی، وہ جو اب دسویں دن کے سُدھائے ہوئے شیر جیسا ہے۔ جس کے سوچنے والے دماغ پہ کسی اور کے نظریات ہیں، دیکھنے والی آنکھوں پہ تعصبات کے چشمے چڑھے ہیں، جس کے بولنے والی زبان بھی اپنی نہیں اور جس کے ہاتھوں پہ لگا خون بھی اُس کے لیے قطعی مانوس نہیں۔ وہ جوایک استاد کے قتل کوبرحق جانتا ہے اور اُس کے خون کو پانی سے ارزاں خیال کرتا ہے، وہ خطیب حسین جو اب خود کو ہر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور جو نہیں جانتا کہ وہ دسویں دن تک کیسے آیا؟

کچھ دن قبل ہمارے ایک شاگرد نے سر پر سفید ٹوپی پہننی شروع کر دی ہم نے نظر انداز کیا۔ جب زیادہ دن یونہی گزرے اور انھیں اپنے ساتھیوں سے کتراتے دیکھا تودل میں کسی خدشے نے سر ابھارا۔ ایک دن تخلیقی لکھائی میں بچوں کو اپنے بارے میں ایک مضمون لکھنے کو کہا۔ موضوع تھا ’میں کون؟ ‘ ۔ ہم نے انھیں اپنی مرضی سے کسی بھی زاویے سے لکھنے کی دعوت دی۔ جب تمام مضامین موصول ہوئے تو ایک مضمون نہایت چونکا دینے والا تھا۔ یہ اُسی بچے کا مضمون تھا جو اب سب سے الگ تھلگ نظر آتا تھا۔ اُس نے اپنے بارے میں لکھا تھا کہ اب وہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے اُس نے اپنی زندگی میں جتنے بھی گناہ کیے ہیں، اُن سب سے خود کو پاک کر نے کے لیے، اُس نے خود کو مذہبی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا ہے اور اب وہ فلاں ابنِ فلاں کی مریدی میں ہے کیونکہ وہاں وہ ہمہ وقت طہارت، تسبیح و عبادات میں مشغول رہتا ہے۔

ہم نے ایک دن جی کڑا کے، نہایت حوصلے سے اس کو اپنے پاس بلایا، اُس کا احوال پوچھا اُسے آرام سے سمجھایا کہ اُس کے اور ہمارے مشترکہ خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو، خاص کے اُسے، اشرف المخلوقات بنایا ہے تاکہ وہ رب کی کائنات کو پہچانے اورتسخیر کرے اور اُس کی مخلوق سے بھلائی و مہربانی سے پیش آئے۔ تعلق توڑنے کی بجائے انھیں محبت سے جوڑے اور صلحِ کُل اورامن و آشتی سے رہے۔ جہاں تک گناہوں کا سوال ہے تو وہ خالق غفور الرحیم ہے، دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور معاف کرتا ہے۔

ہم نہیں جانتے! کہ شاگرِ عزیز کو ہماری بات سمجھ آئی یا نہیں تاہم پروفیسر خالد حمید کی موت نے ہمیں ایک بات ضرور باور کروا دی کہ ہماری آستینوں میں رات دن پرورش پاتے جنونی عفریت، جوہمارے اپنے مذہبی و سیاسی بغض و عناد پہ پل رہے ہیں، اب ہماری گردنوں تک آ پہنچے ہیں۔ ہم میں سے کوئی کہیں محفوظ نہیں۔ ہماری جان کی امان اب اس ایمان ماپنے والے آلے کی محتاج ہے جس کے معیار سب کے لیے الگ الگ ہیں۔ ہمارے عدم تحفظ کے اندیشے اپنی جگہ، مقامِ حیرت یہ بھی، کہ ایک استاد کے خون کی ارزانی کا یہ عالم، کہ حاکمانِ وقت سے پُرسہ و تعزیت کی بھی کہیں کوئی نوید نہیں۔ کسی نے آگے بڑھ کر نہ کہا ہم قاتل کو شناخت تک نہ دیں گے۔ سچ پوچھئے! تو اب افسوس ان لفظوں کی حرمت کا بھی نہیں بلکہ اب خوف اِس اندیشہ ٔجاں کا ہے، کہ وطنِ عزیز میں پھیلی ایک سوگوارلیکن خاموش فزا، دسویں دنوں کے نئے شیروں کا پتہ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).