وہ ایک شام تھی مگر ہمیشہ کے لئے رک گئی ۔۔۔۔


بخار کی شدت میں اچانک اضافہ ہو گیا تھا۔ اب ایسا لگ رہا تھا کہ تپتے بدن کے ساتھ بستر سے اٹھ کر دروازے تک جانا مشکل ہے۔ کزن کی بارات میں نہ جانے کا فیصلہ درست تھا لیکن میں تو سمجھا تھا کہ معمولی بخار ہے اسی لئے میں نے والدین سے کہا تھا کہ وہ چلے جائیں میں گھر میں آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا۔ چناں چہ ناشتے کے بعد دوا کھا کر میں بیڈ میں دراز تھا۔ چند منٹ پہلے تک بخار کی کیفیت معمولی تھی لیکن اب میں اسے باقاعدہ محسوس کر رہا تھا۔

سر بھاری ہو رہا تھا۔ پھر میں بے خبر ہو گیا۔ دواؤں کے اثر سے غنودگی طاری ہونے کا عرصہ کتنا تھا میں ٹھیک سے یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت سے برتن کھنک رہے ہوں۔ آنکھ کھلی تو منظر دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔ حلق میں کڑواہٹ گھلی تھی۔ جسم کی بوٹی بوٹی دکھ رہی تھی۔ ایسے میں پھر برتنوں کی کھنک سنائی دی۔

یک دم جیسے ساری حسیات بیدار ہو گئیں۔ اس گھر میں کل تین افراد تو رہتے تھے۔ اس وقت میرے ساتھ اور کون ہو سکتا ہے؟ یاد آیا کہ والد اور والدہ نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ دروازہ بند کر لو لیکن میں بیڈ سے اٹھنے کی ہمت کرنے سے پہلے سو گیا تھا۔ شاید اسی کا فائدہ اٹھا کر کوئی گھر میں گھس آیا ہو۔ کوئی چور یا ڈاکو بھی ہو سکتا ہے لیکن اسے کیا پڑی ہے کہ کچن میں برتنوں سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ ذہن الجھ رہا تھا۔ سر کا درد بڑھ رہا تھا۔ فی الوقت تو زور سے آواز دے کر پوچھنے کی سکت بھی نہیں تھی کہ کون ہے۔

ایسے میں قدموں کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز بھاری بوٹوں جیسی آواز نہیں تھی۔ یہ تو کسی پنسل ہیل کی ٹک ٹک جیسی تھی۔ پھر وہ دروازے سے نمودار ہوئی۔ ایک نظر مجھ پر ڈالی مجھے جاگتے دیکھ کر مسکرا اٹھی۔ ”چلو شکر ہے تم خود ہی جاگ گئے وگرنہ مجھے جگانا پڑتا۔ یہ دیکھو تمہارے لئے چائے بنا کر لائی ہوں۔ “ اس نے دو کپ پکڑے ہوئے تھے۔ میں ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔

اس نے کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اور میرے پاس بیٹھ کر میری پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ ”ہوں بخار اتر گیا ہے جب میں آئی تھی اس وقت تمہارا ماتھا تپ رہا تھا۔ “ اس نے اطمینان سے کہا۔ ”ظاہر ہے تم نے میری جلتی ہوئی پیشانی پہ ہاتھ رکھا تھا تو مسیحائی کی تاثیر روح تک کیسے نہ اترتی۔ “ میں نے دھیرے سے کہا۔ وہ ہنس پڑی۔ ایسی حالت میں تمہیں پروین شاکر یاد آ رہی ہے جبکہ میں تمہارے سامنے ہوں۔ اچھا چائے پی لو۔ ”

میں نے تکیے کے سہارے نیم دراز ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کپ لے لیا۔ ”مہرین تم کب آئیں؟ میں نے پوچھا۔ “ ظاہر ہے جب تم سو رہے تھے دروازہ کھلا تھا۔ میں نے دو تین بار دستک دی پھر اندر آ گئی کیونکہ شدت سے تمہیں دیکھنا چاہتی تھی تم سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ تمہیں آواز دی تم نہیں جاگے، ادھر دواؤں کی موجودگی اور تمہاری حالت نے سب کچھ بتا دیا۔ میں کافی دیر تک یہاں بیٹھی تمہیں دیکھتی رہی پھر میں نے سوچا کہ چائے بنانی چاہیے اور تمہیں جگانا چاہیے۔ ”مہرین بولتی چلی گئی۔

”اف کتنا بولتی ہو تم، میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ پوری داستان سنانا شروع کر دو۔ “ میں نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ ”اچھا تمہیں پتا تھا کہ میں آنے والی ہوں، باہر کا دروزہ اس لئے کھلا چھوڑ دیا تھا؟ اس نے کہا۔ “ نہیں میں علم نجوم میں تھوڑا کمزور ہوں، امی ابو شادی میں گئے ہیں۔ میں نے دروازہ بند کرنے میں سستی کی پھر نیند آ گئی۔ ”میں نے جواب دیا۔ “ خیر کوئی بات نہیں ان کے آنے تک میں تمہاری دیکھ بھال کروں گی۔ ”وہ بولی۔

”در اصل ان دنوں آفس کا کام بھی زیادہ تھا اور میں اپنے ناول پر بھی کام کر رہا تھا۔ ریسٹ لیس تھا میرا خیال تھا کہ آرام و سکون سے ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن بخار بڑھ گیا اب گلے میں بھی درد محسوس ہو رہا ہے۔ “ میں نے وضاحت کی۔ ”موسم بدل رہا ہے اور تم اپنا خیال تو رکھتے نہیں ویسے یہ تم نے اپنے کمرے کا کیا حال بنا رکھا ہے۔ ہر طرف کتابیں بکھری ہیں کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے۔ جوتے بھی دیکھو کہاں پڑے ہیں میں گرتے گرتے بچی تھی۔ “ مہرین نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

”میری زندگی میں ترتیب نام کی چیزتو ہے ہی نہیں اور ابھی تک کوئی ایسی ملی بھی نہیں کہ جو ترتیب سکھائے۔ “ میں مسکرا اٹھا۔ ”اچھا تم آرام کرو میں کچھ کام کر لوں۔ “ وہ بھی مسکرا اٹھی۔ میں پھر دراز ہو گیا۔ وہ کام میں مصروف گئی۔ بڑے پیار سے ایک ایک چیز کو مناسب جگہ پر رکھنے لگی۔ میں اونگھنے لگا۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو کمرے کا حلیہ ہی بدلا ہوا تھا۔ لگتا تھا اس نے صفائی بھی کر دی ہے۔ کمرہ آئینے کی طرح چمک رہا تھا۔ ”میں تو سمجھتا تھا کہ تم آفس ورک میں طاق ہو مگر تمہاری خوبیوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اس سے تو میں یکسر انجان تھا۔ “ میں نے اسے ایک کتاب ریک میں رکھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

”میری چھوڑو اپنی بتاؤ کیسی طبیعت ہے؟ “ وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ”اب بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ “

”اچھا کیا کھاؤ گے، کیا بناؤں تمہارے لئے۔ “ اس نے کہا۔

”مطلق بھوک نہیں ہے، ویسے فریج میں کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہیں۔ “ میں نے کہا۔ ”انہیں پڑا رہنے دو میں اپنے ہاتھوں سے تمہارے لئے کچھ تازہ بناؤں گی۔ ویسے میں نے دیکھ لیا ہے فریج میں سبزیاں اور گوشت وغیرہ موجود ہے۔ “ مہرین نے فوراً کہا۔

”تو پھر کھچڑی بنا دو۔ “ میں نے کہا۔ ”کھچڑی سے کیا بنے گا۔ چکن سوپ بنا دیتی ہوں ساتھ مٹن وغیرہ۔ “ اس نے کہا۔ ”کوئی سبزی بنا لو۔ “ میں نے تجویز دی۔ ”یہ کوئی سبزی کون سی ہوتی ہے۔ سبزی کا نام بتاؤ تو بنا دوں گی۔ “ اس نے منہ بنایا۔

”میری بیوی بننے کی کوشش مت کرو، میں کنوارہ ہی بھلا۔ “ میں مسکرا اٹھا۔ ”زیادہ باتیں نہ بناؤ، چپ چاپ لیٹے رہو، میں ابھی کھانا بنا کر لاتی ہوں۔ “ مہرین نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا۔ ”اؤ کے جانو۔ “ میں نے شرارت سے کہا اور وہ ہنستے ہوئے چلی گئی۔ میری طبیعت کافی حد تک بحال ہو چکی تھی۔ میں نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا۔ فریش ہو کر کمرے میں آیا تو کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ مہرین کھانا تیار کر کے لے آئی۔

”اوہو تم بیڈ سے کیوں اٹھے، چلو بیٹھو میں کھانا کھلاتی ہوں۔ “ میں بیٹھا تو مہرین نے اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر میری طرف بڑھایا۔ ”مہرو میں اتنا بیمار نہیں ہوں۔ “

خاموش! اس نے آنکھیں دکھائیں۔ میں مہرین کے رویے پر حیران تھا۔ وہ چھ ماہ پہلے دفتر میں آئی تھی اور پہلے دن سے مجھے اچھی لگتی تھی لیکن میں نے کئی ماہ گزار دیے اس یہ بات بتانے میں۔ تب پتا چلا کہ اس کی کیفیت بھی میرے جیسی تھی۔ اس کے بعد ہم وقتاً فوقتاً باہر بھی ملنے لگے تھے۔ کسی ریسٹورانٹ میں، کسی کافی ہاؤس میں لیکن میں نے محسوس کیا تھا کہ اس کے پیار میں ایک احتیاطِ خاص بھی شامل تھی۔ جب کبھی میں اس سے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات کرتا تھا وہ یا تو مبہم سا جواب دیتی تھی یا بات بدل دیتی تھی۔ میں اسے اپنی والدہ سے ملوانا چاہتا تھا اس کے والدین سے ملنا چاہتا تھا لیکن وہ ہر بار ٹال جاتی تھی۔

میں سمجھتا تھا کہ شاید وہ کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچی۔ جب کہ اس کی آنکھوں میں ہمیشہ مجھے بے حساب محبت نظر آتی تھی۔ دو تین بار میں گاڑی میں اسے گھر تک لایا تھا لیکن اس نے اندر آنے سے گریز کیا تھا پھر میں نے اسے واپس چھوڑ دیا تھا۔ آج وہ خود آئی تھی حالاں کہ ایسا کوئی پلان بھی نہیں تھا اور اب جیسے اسے واپسی کی بھی پرواہ نہیں تھی۔

”کیا سوچ رہے ہو، آرام سے کھانا کھاؤ۔ “ اس نے بھنوئیں اچکائیں۔ ”میں سوچ رہا تھا تم یہیں رہ جاؤ میری بیوی بن کر؛ کیا خیال ہے؟ “ میں نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔ ”بس بس زیادہ خواب مت دیکھو، تمہاری بیوی بن کر مجھے اپنی زندگی برباد نہیں کرنی۔ تمہارے ساتھ شادی کرنے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ میں ساری زندگی گھر کی چیزیں ترتیب سے رکھتی رہوں۔ “ اس نے فوراً منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں مسکرا کر رہ گیا۔

کھانے کے بعد مہرین نے چائے بنائی۔ چائے کے کپ لے کر ہم ٹیرس پر آگئے۔ آسمان پر کہیں کہیں بادل تھے۔ دھوپ چھاؤں کا ماحول اچھا لگ رہا تھا۔ ہم آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے درمیان میں تپائی پر چائے کے کپ رکھے تھے۔ میں مہرین کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ سادہ سا شلوار قمیص جس میں اورنج رنگ نمایاں تھا۔ گلے میں دوپٹا، شانوں پر لہراتے براؤن بال۔ متناسب جسم اور دلکش خدوخال۔ بھرے بھرے گلابی ہونٹ اور بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں۔ میرا دل چاہتا تھا بس اسے دیکھتا ہی رہوں۔

میں اسے دیکھتا رہا اور وہ مجھے دیکھتی رہی نہ جانے کتنے منٹ گزر گئے پھر وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ ”چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے، کہو تو دوبارہ گرم کر لاؤں۔ “

”نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے۔ “ میں نے کپ اٹھا کرہونٹوں سے لگا لیا۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ دنیا جہان کی باتیں۔ کوئی خاص موضوع نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھ سے محض باتیں کرنے ہی آئی ہے۔ کافی دیر ہو گئی تو اس نے کہا۔ ”آؤ اندر چلتے ہیں، کہیں پھر تمہاری طبیعت بگڑ نہ جائے۔ “ میں نے سر ہلا دیا۔ اندر آ کر مووی دیکھنے کا پلان بن گیا۔ صوفے پر بیٹھے ہم مووی دیکھ رہے تھے لیکن اس پر دھیان کچھ کم ہی تھا۔ مہرین بیچ میں اپنی باتیں شروع کر دیتی تھی۔

باہر تاریکی پھیلنے لگی تھی۔ شام ہو رہی تھی۔ میری نگاہیں ٹی وی سکرین پر تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ مہرین کافی دیر سے بولی نہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ٹی وی کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ میرے کندھے سے لگی سر جھکائے اس طرح سے بیٹھی تھی کہ اس کا چہرہ اس کے براؤن بالوں میں چھپا ہوا تھا۔ مہرو! میں نے اسے پکارا۔ اس نے جنبش نہ کی۔ میں نے ایک ہاتھ سے اس کی ٹھوڑی کو اونچا کیا اور پھر بالوں کو چہرے سے ہٹایا تو چونک اٹھا۔ موتیوں جیسے شفاف آنسو اس کے گالوں پر لڑھک رہے تھے۔

میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ ”کیا ہوا مہرو! “ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ وہ سسکنے لگی۔ ”میں ٹھیک ہوں۔ “ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

”تم ٹھیک نہیں ہو، کوئی بات ہے، مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟ “ میں پریشان تھا۔ ”بس ایسے ہی دل بھر آیا۔ اب میں نہیں روؤں گی۔ “ اس نے اپنے ہاتھوں سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا لیکن اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو رکے نہیں تھے۔ بہر حال اس نے خود کو چند منٹ میں سنبھال لیا۔ اب وہ رو نہیں رہی تھی لیکن خاموش تھی۔ میں اس سے پوچھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بات کیا ہے۔ وہ چند لمحے چپ رہی پھر بولی۔ ”کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟ “

میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ ”یہ بات تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں خیر ایک بار پھر سن لو کہ تمہی میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ “ میں نے کہا۔

میری بات سن کر جیسے اسے قرار سا آ گیا۔ ”مجھ سے ایسے ہی ہمیشہ محبت کرتے رہنا۔ میں بھی تمہاری محبت کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ رکھوں گی۔ یہ محبت میری زندگی کی تاریکیوں میں ایک کرن کی طرح چمکا کرے گی۔ میں زندگی کی تلخیوں اور دکھوں میں جب جب اس محبت کو یاد کروں گی تو ان کربناک لمحوں میں بھی مسکرایا کروں گی۔ یہ محبت میرے لئے میری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہو گی۔ “ مہرین جیسے کسی ٹرانس میں بول رہی تھی۔ میرے لئے اس کا یہ روپ انجانا تھا۔ میں اس کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

”تمہیں پتا ہے جب تم میرے پاس ہوتے ہو تو مجھے سب کچھ خاص لگتا ہے، وہ وقت وہ ماحول۔ وہ لمحے میرے لئے بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کاش میں عمر بھر تمہارے پاس رہتی۔ تمہاری بیوی بن کر۔ میں نے کیا کیا خواب دیکھے تھے۔ ہم روز شام کو باہر گھومنے جایا کرتے۔ ہر سال چھٹیوں کہیں دور سیاحت کے لئے نکلتے۔ میں تم سے طرح طرح کی فرمائشیں کرتی اور جب تم ساری تنخواہ اڑا دیتے تو میں تم سے جھگڑا کرتی لیکن پھر مان بھی جایا کرتی۔

اور۔ اور ہمارے بچے بھی ہوتے۔ ایک بیٹا ایک بیٹی، بالکل تمہارے جیسا بیٹا اور بالکل میرے جیسی بیٹی، زندگی کتنی خوبصورت ہوتی لیکن اب کچھ بھی نہیں بچا۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جب میری روح میرے جسم سے جدا ہو جائے گی اور میں ایک زندہ لاش بن کر اپنی عمر کے دن پورے کروں گی۔ ”وہ بے تاثر آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

اس کا ایک ایک لفظ دل و دماغ کی دنیا تہہ و بالا کر رہا تھا۔ میں اس کی بات سمجھ رہا تھا لیکن سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔

”تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو، میں تمہارے والدین سے ملوں گا۔ میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔ وہ مان جائیں گے پھر ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ “ میں نے بے چینی سے کہا۔

”کوئی فائدہ نہیں مگر آج کا دن ہمیشہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں سچ مچ تمہاری بیوی بن کر یہاں آ گئی ہوں لیکن خواب کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو ٹوٹ جاتا ہے۔ آنکھ کھلنے پر حقیقت اپنی تلخیوں کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ تمہیں نہیں پتا کہ کیا ہو گیا ہے۔ ایک ہی دن میں زندگی کتنی بدل سکتی ہے۔ یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔ تمہیں پتا ہے ناں میں تین دن سے دفتر نہیں آ رہی تھی۔ “

”ہاں درخواست سے یہی پتا چلا تھا کہ تم کسی شادی میں شرکت کے لئے کراچی جا رہی ہو۔ تمہارا فون بھی بند تھا۔ “ میں نے کہا۔

”وہ سب جھوٹ تھا۔ اصل میں ہمت کر کے میں نے اپنی ماں کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ اپنے بارے میں اور تمہارے بارے میں اور پھر جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ وہی جو نکلا کرتا ہے۔ میں جیسے ان کی بیٹی نہیں رہی۔ میں نے اپنے والدین کی زبانوں کو شعلے اگلتے دیکھا۔ عزت اور غیرت کی گردان سنی اور پھر مجھے مجرم ٹھہرا کر سزا بھی سنا دی گئی۔ عمر قید بامشقت۔ میں نے اپیل کی تو تھپڑوں کے ساتھ میری اپیل رد کر دی گئی۔ میرے ساتھ وہ سلوک ہوا کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ میں شاید انسان ہی نہیں ہوں۔ “ مہرین بتا رہی تھی اور میرے دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔

”میں ہار گئی۔ میں کیا کرتی ایک لڑکی اس سماج سے لڑتے ہوئے اپنوں کے ہاتھوں جان تو گنوا سکتی ہیں لیکن اپنی مرضی سے خوشی کی زندگی نہیں بسر کر سکتی اور مجھے تو یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ وہ میرے ساتھ ساتھ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ میں اپنی جان دے سکتی ہوں لیکن تمہیں ان لوگوں کے ہاتھ نہیں چڑھنے دوں گی۔

یقین کرو وہ ایسے ہی ہیں۔ ہم کہیں بھاگ بھی جائیں تو ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے اور برسوں بھی بیت جائیں پھر بھی ڈھونڈھ کر مار دیں گے۔ اس لئے میں نے ان کی بات مان لی۔ اب کل میرا نکاح کر کے وہ مجھے کسی کے حوالے کر دیں گے۔ آج کے بعد تم شاید مجھے کبھی نہ دیکھ سکو۔ اس لئے میں نے یہ رسک لیا۔ ایک بار میں بھی تم سے ملنا چاہتی تھی۔ اس وقت وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ لیکن میں خود تھوڑی دیر بعد جا کر گرفتاری دے دوں گی۔ پھر ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ”

”میں ان سے بات کروں گا۔ “ میں نے غم و غصے کے عالم میں کہا۔ ”نہیں تم ان کے سامنے کبھی نہیں جاؤ گے۔ انہیں معلوم نہیں کہ تم کون ہو اور نہ کبھی یہ پتا چلے گا۔ تمہارا اور میرا ساتھ بس اتنا ہی تھا۔ “ اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔ بیل بج اٹھی۔ امی ابو واپس آ گئے تھے۔ انہوں نے مہرین کو دیکھا تو چونک اٹھے۔ وہ آنسو پونچھ رہی تھی۔ بہت عجیب و غریب صورتِ حال تھی۔ مہرین نے ابو کو سلام کیا اور امی کے گلے لگ گئی۔

اس کے بعد وہ نہیں رکی۔ مجھے اپنے پیچھے آنے سے منع کر کے وہ چلی گئی۔ آج برسوں بیت چکے ہیں لیکن وہ ایک دن آج بھی سینے میں ایک دیا بن کر جل رہا ہے، نہ وہ دیا بجھتا ہے نہ اس کی تپش میں کمی آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).